دعوت الی اللہ کے ضمن میں اللہ کے وجودپر دلائل

داعیانِ حق کو ان دلیلوں سے آگاہ ہونا چاہیے جو خداکے وجود کو ثابت کرتے ہیں

ڈاکٹر ساجد عباسی

دعوت الی اللہ امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔اس فرضِ منصبی کو ادا کرنے کے بعد ہی امتِ مسلمہ اللہ کی نصرت کی مستحق ہوسکتی ہے ۔دعوت الی اللہ امتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود ہے، جب تک یہ مقصدپورانہیں ہوتا اس کا وجود خطرہ میں رہتا ہے۔دعوت الی اللہ ہر مسلمان پر اس کی استطاعت کے بقدر فرض ہے ۔ ہر مسلمان اس کا مکلف بھی ہے اور عنداللہ مسئول بھی ہے۔ اس اہم فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں سب سے پہلی چیزجو لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے وہ ہے اللہ کا تعارف ۔چونکہ آج کل الحاد کا ماحول ہے اس لیے سب سے پہلا سوال خدا کے وجود پر کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں داعیانِ حق کو ان دلائل سے آگاہ ہونا چاہیے جو خداکے وجود کو ثابت کرتے ہیں ۔چنانچہ اس مضمون میں خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے چند دلائل پیش کیے جارہے ہیں ۔
دلیل نمبر۱- دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز بھی خودبخود وجود میں نہیں آتی ۔ہم جن چیزوں کو بناتے ہیں وہ بنانے سے ہی بنتی ہیں۔ اس حیرت انگیز کائنات کا وجود ہی یہ ثابت کررہا ہے کہ ایک عظیم ہستی نے اس کائنات کو وجود بخشاہے۔یہ کائنات خودبخود وجود میں نہیں آ سکتی۔ اب تک کی دریافتوں کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات میں سب سے ذہین ترین مخلوق انسان ہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو پیداکرنے والی ہستی کو انسان سے زیادہ ذہین اور طاقت ور ہونا چاہیے ۔ خداکا انکار کرنے والے اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ پھرخدا کو کس نے پیدا کیا ہے ؟اگر برائے بحث کوئی اس کا جواب یہ دے کہ اس کے خالق کو ایک اور بڑے خالق نے پیدا کیا ہے تو پھر یہ سوال پیداہوگا کہ اس کے خالق کو کس نے پیدا کیا ۔اس طرح کے سوالات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور لامتناہی طورپر جاری رہے گا جس کو Infinite Regressکہا جاتا ہے جو فسلفہ کی زبان میں logical fallacy کہلاتا ہے ۔جب تک یہ سوال باقی رہے گا اس وقت تک خود کائنات کا وجود بھی ثابت نہیں ہوگا ۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک و سیع و عریض اور عظیم الشان کائنات موجود ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق ایسا ہونا چاہیے جو خود تخلیق نہ کیا گیا ہو یعنی مخلوق ہو۔ پھر اس کے خالق کے بارے میں ضرور سوال ہوگا۔خالق ایسا ہو کہ اس سے بڑی کوئی اور ہستی نہ ہو ۔اگر ہوگی تو اپنی تخلیق میں خالق آزاد نہ ہوگا ۔اس کائنات کا خالق ،خود تخلیق نہ کیا گیا ہو، بے مثل ہو، سب سے بڑا ہو اور کسی پر منحصر نہ ہو۔ صرف اسی صورت میں ایسی وسیع و عریض لامتناہی کائنات وجود میں آسکتی ہے۔ اگرخالق کی خلاقیت میں کوئی دوسرا دخیل ہوتا تو اس کائنات کی تخلیق کبھی نہیں ہوسکتی تھی ۔اور ہوبھی جاتی تو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ۔
دلیل نمبر ۲- امام غزالیؒ ایک مشہور فلسفی گزرے ہیں ۔انہوں نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے دو مقدمات کو پیش کیا ہے۔پہلا یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کی ابتدأ ہو اس کا سبب ہونا ضروری ہے۔چونکہ اس کائنات کی ابتدأ ہوئی ہے اس لیے اس کے وجود کا سبب بھی ضرور ہونا چاہیے ۔اور وہ سبب ہے خالق کائنات ۔اس کو Kalam Cosmological Argumentکہا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کے مشاہدہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ کائنات جامد نہیں ہے بلکہ مسلسل پھیل رہی ہے۔ قرآن میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے(سورۃ الذاریات ۴۷)۔ جب یہ پھیل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی بعید میں کسی خاص وقت پر یہ شروع ہوئی ہے ۔یہ مشاہدہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ کسی خاص وقت اس کی ابتدأ ہوئی ہے۔ کائنات کی ابتدأ کے بارے میں سائنس داں کہتے ہیں کہ اس کا آغاز ایک دھماکہ کے ذریعے ہوا جس کو big bangکہا جاتا ہے ۔ اس ابتدائی دھماکے کا ذکر قرآن میں بھی ملتا ہے(سورۃ الانبیاء۳۰) ۱۴۵۰ سال قبل کسی انسان کو پتہ نہیں تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس کا آغاز ایک دھماکہ کے ذریعے ہوا جب ساری کائنات ایک نقطہ میں سمٹی ہوئی تھی ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کا مصنف انسان نہیں ہوسکتا ۔اس کا مصنف خالق ِ کائنات ہی ہوسکتا ہے۔
دلیل نمبر ۳- یہ کائنات اور اس میں پیداکی جانے والی مخلوقات ،خالق کی اعلیٰ صفات کی طرف بھی رہنمائی کرتیں ہیں ۔انسان ایک جان دار مخلوق ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اندر ایک اخلاقی وجود بھی رکھتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا خالق اعلیٰ ٰ صفات رکھتا ہے جس میں اس کا کوئی مثل نہ ہو۔مثلاً انسان اپنے اندر رحم کی صفت رکھتا ہے ۔اس کا مطلب ہے خالق رحم کی صفت میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے ۔یعنی وہ رحمٰن ، رحیم اور ارحم الراحمین ہے ۔انسان کی ایک صفت ہے عدل کرنا ۔انسان کی فطرت عدل کا تقاضا کرتی ہے۔ اسی لیے انسانوں نے دنیامیں عدالتی نظام کو قائم کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل کرنے میں اعلیٰ مثال رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ عادل ہے۔انسان اپنے اندر محدود طور پر تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے ۔یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ انسان کا خالق ،خلاقی کی اعلیٰ قدرت رکھتا ہے ۔انسان شعورو عقل کی قوت رکھتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا خالق عقل و شعور کا وہ اتھاہ خزانہ اپنے اندر رکھتا ہے جس کا انسان ادراک بھی نہیں کرسکتا ۔کوئی عقل مند انسان دنیا میں کوئی چیز بھی بے مقصدنہیں بناتا ۔انسان کے خالق سے یہ بہت بعید ہے کہ وہ اس عظیم کائنات کو بے مقصد بنادے۔انسان و حیوان اپنی اولاد کےلیے رزق کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کائنات کا خالق سارے جہاں والوں کے لیے رزق کا انتظام کرنے والا ہوگا ۔چونکہ اس کرۂ ارض پر رزق کے خزانے مہیا کردیے گئے ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق رازق بھی ہے جس نے نہ صرف مخلوق کو پیدا کیا بلکہ اپنی مخلوق کے لیے رزق کا انتظام بھی کیا ہے ۔ وہ رب العالمین ہے ۔
یہ حیرت انگیز کائنات ظاہر کرتی ہےکہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو عظیم قدرت رکھتا ہے،بے انتہا عقل مند و دانا ہے،بے انتہا رحیم ہے ، عادل ہےاور رازق و رب ہے۔
دلیل نمبر ۴- وہ ہستی جو خالق بھی ہو اور جو اپنی ان گنت مخلوق کی ساری ضروریات کی تکمیل کر رہی ہے ایسی ہستی ہی کو خدا ہونا چاہیے جس کی عبادت کی جائے۔رب ہونے کا مطلب یہ ہےکہ وہ اپنی مخلوقات کو اپنی مرضی سے زندگی عطا کرے ، جب تک چاہے ان کی ضروریات ِ زندگی کی تکمیل کرے اور جب چاہے ان کو موت دے۔جو خالق بھی ہو اور رب بھی ہو اسی کو الٰہ یعنی خدا ہونا چاہیے۔ربوبیت ،الوہیت کا تقاضا کرتی ہے۔جو رب ہو اسی کو الٰہ ہونا چاہیے ۔الٰہ ہونے کا حق اس کے سوا کسی اور کو نہیں ملنا چاہیے۔ ایسے الٰہ کو عربی زبان میں اللہ کہا جاتا ہےجس کی بندگی میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نہ صرف خالق ہے بلکہ وہ رب ہے اور وہ حکیم یعنی انتہائی عقل مند و دانا ہستی ہے ۔اس نے کوئی چیز بے مقصدنہیں بنائی ہے۔اس کائنات میں ایک نظم ہے ۔اس میں ڈیزائن ہے ۔اس نے انسانی ،حیوانی اور نباتی جسم کے خلیات میں ایسی معلومات لکھ رکھی ہیں کہ ان معلومات کے مطابق ہی ان کی تخلیق و افزائش ہوتی ہےجس کو DNA کہتے ہیں ۔یہ معلومات بتلارہی ہیں کہ جان داروں کے اندر معلومات ایک عظیم پروگرامر نے لکھ رکھی ہیں جیسے ایک سافٹ ویر انجینیرسافٹ ویرکے کوڈ کو لکھتا ہے اور اس کے مطابق سافٹ ویر وہ فعل انجام دیتا ہے جس کے لیے اس کو لکھا گیا ہے۔اسی بات کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ : وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ ۔ زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔ (سورۃ الانعام ۳۸) اس آیت میں تقدیر کے نوشتے سے مراد وہ تخلیقی کوڈ ہے جس کے مطابق مختلف افعال کو انجام دینے والے خلیات جسم میں بنتے رہتے ہیں ۔دنیا میں کیا کوئی سافٹ ویر کوڈ خود بخود وجود میں آسکتا ہے۔ہر سافٹ ویر کوڈ ایک عقل مند پروگرامر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انسان روبوٹ بناتا ہے لیکن ایک جان دار کو بنانا روبوٹ بنانے سے زیادہ دشوار فعل ہے ۔ کروڑوں اقسام کے جان داروں کی پیدائش ایک عظیم انتہائی عقل مند خالق کے وجود کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ایک انتہائی احمق ہی یہ کہے گا کہ یہ تمام مخلوقات خود بخود وجود میں آگئیں ہیں ۔
دلیل نمبر ۵- قرآن میں اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر بہت سے دلائل پیش کیے گیے ہیں مثلاً پانی کی ترسیل کا جو نظام ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز حکمت کی طرف دلالت کرتا ہے۔سمندروں سےاربوں ٹن کا پانی بخارات کی شکل میں نمک کو لیے بغیر بھاپ بن کر ہوا میں اڑتا ہوا ہزاروں کلو میٹر دور دراز مقامات پر بادلوں کی شکل میں پہنچتا ہے ۔ بادلوں کا یہ پانی پہاڑوں پر منجمد ہوتا ہے اور بارش کی شکل میں برستا ہے اور دریاؤں کی شکل میں بہتا ہے ۔یہ پانی کھیتوں اور باغوں کو سیراب کرتا ہے اور انسانوں و حیوانوں کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے ۔بارش کا یہ پانی زمین میں جذب ہوتا ہے ۔زیرِ زمین پانی کے اس ذخیرے سے ہر موسم میں پانی کو مسلسل حاصل کیا جاتا ہے۔یہ حیرت انگیز نظام خود بخود وجود میں کیسے آسکتا ہے؟کیا یہ ایک خالقِ کائنات پر دلالت نہیں کررہا ہے جو رحیم ہے ،قدیر ہے اور حکیم بھی ہے۔ بغیر پائپ لائین کے کیسے اللہ تعالیٰ پانی کو پورے کرۂ پر پہنچا رہا ہے اور اپنی مخلوقات کی ضروریات کی تکمیل فرما رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورج کو زمین پر روشنی اور حرارت کا ذریعہ بنایا ہے۔زمین کو اپنے محور پر گھمانے کا ایسا انتظام کیا ہےکہ جس سے رات اور دن کا دن کا الٹ پھیر ہورہا ہے۔رات کو نیند کا وقت بنایا ۔نیند کو سکون کا ذریعہ بنایا جس سے انسان دن میں کام کرنے کے قابل رہتا ہے۔ چاند کو بنایا ہے جس سے سال بھر کی تاریخوں کا حساب لگایا جاتا ہے۔چاند سے سمندروں کے پانی میں مدوجزر پیدا ہوتے ہیں جس سے سمندر کا پانی صاف ہوتا رہتا ہے۔چاند ،زمین اور سورج کے سائزمیں بہت بڑا فرق ہے لیکن ان کو اتنے فاصلے پر رکھا گیا ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کے موقع پر ان تینوں کا سائز ایک جیسا ہوجاتا ہے۔اللہ تعالی ٰ نے زمین کے اندر ایسی روئیدگی رکھی ہے کہ بارش ہونے پر زرخیز زمین سے مختلف قسم کے نباتات پیداہوتے ہیں ۔ایک ہی زمین ہے اور ایک ہی پانی سے مختلف رنگ کے پھول اور مختلف ذائقے کے پھل پیدا ہوتے ہیں ۔یہ خود بخود نہیں ہو سکتا بلکہ ایک قدیر و حکیم ہستی کا پیدا کردہ نظام ہے۔ایک ناسمجھ بچہ یہ سمجھتا ہے کہ لائٹ کے سوئچ کو آن کرنے سے ہی لائٹ روشن ہوجاتی ہےاور وہ اس نظام سے واقف نہیں ہے جو الکٹرک کرنٹ کو پیدا کرتا ہے۔اسی طرح ایک ناسمجھ انسان یہ سمجھتا ہےکہ زمین میں بیج بونے سے پودا پیدا ہوتا ہےاور وہ اس نظام سے واقف نہیں ہے جو عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ خالق کا صرف اس بنا پر انکار کردیتا ہے کہ وہ اس کو نظر نہیں آتا۔جب کہ اپنی قدرت ،علم ،حکمت سے وہ اپنے وجود کو ہر آن ظاہر کررہا ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ اپنی ان گنت نشانیوں کے ذریعے اپنے وجود کو منوارہا ہے۔لیکن ناسمجھ انسان اپنی عقل کو استعمال کرکے ان نشانیوں اور اپنے خالق کے احسانات کو محسوس کرکے اس کو پہچاننے کے بجائے اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ جب تک میں اپنی آنکھوں سے خدا کو نہیں دیکھ لوں میں اس کو نہیں مانوں گا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اونچی عمارت میں فائر الارم کا سسٹم لگا ہوا ہے اور جب بھی اس عمارت میں آگ لگے الارم بجنے لگتا ہے۔جب بھی یہ الارم بجے لوگ عمارت کو فوری خالی کردیتے ہیں اور اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اگر اسی عمارت میں ایک کتا بھی موجود ہو تووہ الارم کو آگ لگنے کی خبر اور نشانی نہیں سمجھے گااور وہ اس وقت تک عمارت سے نہ نکلنے گا جب تک وہ آگ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتا۔اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ عقل کو استعمال کرکے اپنے رب کو پہچاننے کے بجائے دیکھنے کی شرط لگاتے ہیں وہ جانوروں کی سطح پر جیتے ہیں۔ عقل رکھ کر عقل کا استعمال نہ کرنا، انسان کو جانوروں سے بھی بدتر بنا دیتا ہے۔
دلیل نمبر ۶- انسان کی اپنی فطرت بھی گواہی دیتی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہونا چاہیے ۔ جب انسان کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت اس کو نظر نہیں آتی تو اس وقت اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ایک ہستی ایسی ہے جو اس مصیبت کو دور کرنے پر قادر ہے۔وہ ہستی اللہ کی ہے جس نے اس کائنات کو پیدا فرمایا ہے اور وہ ہرچیز پر قادرہے۔ انسان کی فطرت کے اندر خدا کے وجود کی یہ نشانی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ ایک خدا ہے جو اس کی مدد کرسکتا ہے۔یہ انسان کی بدنصیبی ہے کہ وہ حقیقی رب سے مانگنے کے بجائے بناوٹی خداؤں سے امید لگا کران سے مدد مانگنے لگتا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024