ابو فہد ندوی
فقہ و فتاویٰ اور دعوتو ارشاد دونوں میں اعتدال ضروری ہے
بین مذہبی مطالعہ اور اسی کے مطابق تحقیقی و دعوتی مزاج کے حامل علماء کو آگے آنا ہوگا
امت کے بہت سے اہل علم اور درد مند افراد کی یہ خواہش ہے کہ مدارس کے طلبہ و فارغین ترجیحی اور انتخابی بنیادوں پر اپنی سرگرمیوں اور کارگزاریوں کے خارجی محاذ پر زیادہ توجہ صرف کریں اور اس کے بر خلاف داخلی محاذ پر بقدر ضرورت اور حسب موقع ہی دھیان دیں۔ اور اہل علم کی یہ خواہش بجا ہے، پھر جب یہ خواہش اہل مدرسہ سے کی جائے تو اور بھی بجا ہے، اس لیے کہ اقبال کی زبان میں اگر کہیں تو موج تند جولاں کو بھی بالآخر اسی دریا کے خاموش اور پرسکون کناروں سے ہی اٹھنا ہے۔
خارجی رخ پردینی وعلمی کاوشوں اور سرگرمیوں کا محاذ یہ ہے کہ ملک میں اس وقت دینی، سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر مسلمانوں کو جن جارح قوتوں کا سامنا ہے ان کے ساتھ تہذیبی، ثقافتی اور علمی سطح کے ڈائیلاگ اورمباحثوں کے لیے جس طرح کی استعداد اور تیاریوں کی زیادہ ضرورت ہے، وہی استعداد، صلاحیت اور لیاقت پیدا کرنے کی طرف توجہ دینی بھی ضروری ہے تاکہ جارحانہ فکری یلغار کا، اقدامی جارحیت اور چرب زبانی کا صحیح ڈھنگ سے جواب دیا جاسکے۔
ماضی میں اہل مدارس کے لیے دعوت اور علم وتحقیق کے میدان میں استشراق اور یونانی فلسفے کے مطالعے اور مقابلے کا بڑا میدان تھا اور کسی نہ کسی درجے میں استشراق کے مطالعے اور مقابلے کی ضرورت آج بھی ہے۔ تاہم موجودہ زمانے میں الحاد کے مطالعے اور مقابلے کا میدان زیادہ بڑا ہے اور زیادہ توجہ کا طالب ہے۔ طلبۂ مدارس اگر اس میدان میں آتے ہیں تو یہ ان کے لیے ایک خارج رخی محاذ آرائی ہوگی، جو ہر طرح سے پسندیدہ ہوگی اور جس کے مثبت نتائج وثمرات زیادہ مفید مطلب اور ثمر آور ثابت ہوسکیں گے۔ اسی طرح ملک میں جو فسطائی ذہنیت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، اس سے مقابلے کی تیاری بھی خارج رخی ہے۔ آر ایس ایس، حکومت، گودی میڈیا اور سناتنی فسطائیت کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر جو دینی، تہذیبی اور ثقافتی یلغار ہو رہی ہے، اس کا جواب خود انہی کی کتابوں سے دینا، یعنی ویداس، گیتا اور منوسمرتی وغیرہ کا گہرائی سے مطالعہ کر کے ان کے الزامی سوالات کا دو ٹوک اور الزامی جواب دینا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اس معاملے میں اقدامی پوزیشن میں رہنا بھی خارج رخی کاوش اور محاذآرائی کہلائے گی۔ موجودہ حالات میں اس نوعیت کی محاذ آرائی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ محاذ آرائی ایک طرح سے امت کے بکھرتے وجود اور مٹتی ہوئی شناخت کو مستحکم کرنے کی لڑائی ہے نہ کہ محض شان وافتخار کی خود ساختہ بلندی اور خود رائی کے لیے لڑی جانے والی کوئی عمومی اور بے ضرر قسم کی لڑائی۔ جس میں جیت بھی کوئی بڑی چیز پیدا نہیں ہوتی اور ہار بھی کوئی ایسی بری بات نہیں ہوتی کہ ہارے تو جان سے جائیں گے۔
بہت سے اہل علم اور سنجیدہ ذہنیت رکھنے والے افراد طلبۂ مدارس اور فارغین مدارس سے یہ خواہش کرتے یا امید رکھتے ہیں کہ وہ جلد ہی اس میدان میں آئیں گے اور پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے۔ اور جس طرح ان کے اسلاف نے فلسفہ یونان اور استشراق کا بھر پور جواب دیا تھا، اسی طرح یہ بھی نئے پیرہن کے ساتھ آنے والی دہریت اور الحاد کے معرکے بھی سر کریں گے اور ان کی راہ بھی روکیں گے۔ فی الحال صورت حال تو یہ ہے کہ پورا میدان خالی پڑا ہوا ہے، جو معدودے چند لوگ اس میدان میں متحرک اور فعال نظر آتے ہیں، گیتا اور ویداس کے اشلوک پڑھتے اور سنتے سناتے نظر آتے ہیں اور جو چترویدی ٹائپ کے علماء وفضلاء ہیں، ایک تو وہ بہت ہی کم ہیں، پھر ان میں سے بھی زیادہ تر تو سطحی علم رکھنے والے ہی ہیں، یا پھر یہ بات ہے کہ ان کے اندر حوصلے کی کمی ہے۔ اور حوصلے کی کمی کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ خارج رخی سرگرمیوں کے حوالے سے کسی ادنیٰ سی محاذ آرائی کے لیے بھی نکلتے ہیں تو بیشتر اوقات تنہا رہ جاتے ہیں، قوم ان کے پیچھے کھڑی نہیں ہوتی، کم از کم مشکل اور سخت قسم کی محاذ آرائی کے وقت تو بالکل بھی نہیں۔ یہی دقت صحافت کے میدان میں کام کرنے والے بعض جدید اور قدیم مسلم افراد کو بھی درپیش ہے، جن میں سے کئی تو مدارس کے فاضل ہیں۔ پھر بڑی اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس خارج رخی محاذ آرائی کے بڑے اور وسیع الاطراف میدان میں جو معدودے چند لوگ کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں ان میں سے بھی بیشتر اپنے ذاتی مطالعے اور ذاتی رجحان کی وجہ سے میدان میں ہیں، ورنہ امت کے اجتماعی و سماجی اور ادارہ جاتی پروگرام، نظام اور سسٹم میں ایسی کوئی سروس اور پروگرام موجود نہیں ہے جس کے ذریعہ مسلمان بچوں کو اور خاص کر مدارس میں زیر تعلیم بچوں کو اس میدان کو سر کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہو اور طلبہ کے اندر ضروری استعداد پیدا کرنے اور ضروری وسائل فراہم کرنے کا اہتمام اور اس کے لیے تگ و دو کی جاتی ہو۔
ان تمام اہل علم اور سنجیدہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی یہ خواہش بجا ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ جب ملک میں موجود چھوٹے بڑے تمام مدارس میں اس نوعیت کی خارج رخی محاذ آرائی کے لیے طلبہ کو تیار ہی نہیں کیا جاتا تو ان سے یہ خواہش کرنا کہاں تک درست ہے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ طلبہ کو تیاری تو داخلی اور بین المسالک محاذ آرائی کی کروائی جائے اور ان سے خواہش یہ کی جائے کہ وہ خارج رخی محاذ آرائی پر کام کریں؟ پھر مزید تعجب یہ بھی ہے کہ یہ خواہش مدارس سے رشتہ وتعلق رکھنے والے افراد بھی کر رہے ہیں، جو صورت حال سے پوری طرح واقف ہیں۔ جب برتن میں وہ ہے ہی نہیں جس کی خواہش کی جا رہی ہے تو برتن سے وہ ٹپکے گا کیسے؟ برتن سے تو وہی ٹپکے گا جو اس کے اندر بھرا جائے گا۔
اس کے برعکس برصغیر کے مدارس میں تو خاص طور پر ردّ وتردید کا دور دورہ ہے۔ ردّ حنفیت، ردّ مودودیت، ردّ مقلدیت، ردّ بدعت، ردّ بریلویت، ردّ دیوبندیت اور ردّ وہابیت کے شعبے قائم ہیں اور تاحال فعال وسرگرم بھی ہیں۔ مدارس کے احاطے میں عالیہ وعلیا کے درجات کی مسند نشینیوں سے لے کر باہر مارکیٹ اور کھیت کھلیان میں لگے پنڈال میں، اصلاحِ معاشرہ، سیرت النبی، تبلیغ ودعوت اور محرم ومیلاد النبیؐکے جلسوں اور جلوسوں تک اسی رَدّ و تردید کی جلوہ نمائیاں اور شر انگیزیاں ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل مدارس اپنے طلبہ کو عقائد میں پختہ تر کرنا چاہتے ہیں، یہ بات اپنے آپ میں غلط نہیں ہے لیکن مشکل تب پیش آتی ہے جب رَدّ کے نام پر دوسرے مکاتب فکر اور دوسرے مسالک کے عقائد ومعاملات اور احسان وسلوک پڑھانے اور بتانے میں زیادہ وقت صرف ہونے لگے۔ کیونکہ جب ہر مکتب فکر کے علماء اپنے زیر انتظام مدارس میں دوسرے مسالک اور مکاتب فکر کے عقائد وافکار کے بارے میں بتاتے اور پڑھاتے ہیں تو انہیں بیسیوں مکاتبِ فکر کے عقائد وافکار پڑھانے اور بتانے پڑتے ہیں جبکہ صرف اپنے عقائد وافکار بیان کرنے کی صورت میں صرف ایک ہی مکتبۂ فکر کے افکار وعقائد اور احسان وسلوک کے اسباق پڑھانے یا بتانے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے ایک میں وقت اور سرمائے کا صرفہ بہت کم ہے اور دوسرے میں وقت اور سرمائے کا صرفہ بہت زیادہ ہے۔ اس کے باوجود توجہ اسی پر زیادہ ہے جس کا صرفہ بھی بڑھا ہوا ہے اور جو وقت اور محنت بھی زیادہ مانگتا ہے۔
جبکہ موجودہ دور میں خاص طور پر شدید ضرورت اور اہم تقاضا اس بات کا ہے کہ مدارس میں دعوت وتبلیغ کے شعبے قائم ہوں، جن میں حالات حاضرہ اور مستقبل کے داعی تیار کیے جائیں۔ پھر ایک طرف ان دُعاۃ ومبلغین کی یہ خصوصیت ہو کہ وہ صلاحیت کے اعتبار سے دنیا کی تین چار بڑی زبانوں پر عبور رکھتے ہوں، دنیا کے تمام ادیان کا تقابل کرنے پر انہیں پوری دسترس اور قدرت حاصل ہو اور وہ بھی ان کے اصل سورسس سے، پھر جدید سائنس اور جدید ٹکنالوجی سے بھی کما حقہ واقفیت ہو اور دوسری طرف مزاج کے اعتبار سے بھی رواداری، روشن ضمیری اور صلح جوئی ان کا مسلک ہو، جو اپنے عقیدے پر پختگی کے ساتھ کاربند رہنے کے ساتھ ساتھ مختلف عقائد ونظریات رکھنے والوں کے ساتھ بھی مشفقانہ و فرندانہ اور پدرانہ تعلقات رکھنے کے روادار اور پابند ہوں، یعنی دوسرے ادیان، مسالک اور مذاہب کے بچوں کے لیے ان کی شفقت والد جیسی ہو اور ان کے بزرگوں کے ساتھ ان کے اخلاق، اخلاق کریمانہ کے مثل ہوں۔
یہ مشاہداتی تاثرات پر مبنی حقیقت ہے کہ فقہ وفتاویٰ سے منسلک علماء کا مزاج الگ ہوتا ہے اور دعوت وارشاد سے متعلق علماء کا مزاج الگ ہوتا ہے۔ اگرچہ مسلم معاشروں کو دونوں ہی کی ضرورت ہے۔ دارالافتاء اور مفتیوں کی بھی ضرورت ہے اور دُعاۃ ومبلغین اور شعبہائے دعوت وتبلیغ کی بھی اسی طرح ضرورت ہے۔ خاص طور پر آج کے مخدوش دور اور حالات میں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی ومقامی، ہر دو سطح پر چہار طرفہ یلغار ہو رہی ہے، ہر جگہ اور ہر مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو اسی طرح قرآن اور قرآنی تعلیمات کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔ کبھی اسلام کے رہنما اصول وقوانین میں کمیاں تلاش کی جارہی ہیں اور کبھی خود بعض مسلمانوں کے کمزور اعمال کا بہانہ بنا کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور زور وشورکے ساتھ ہو رہی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ آج کی مسلم دنیا کو شعبہائے دعوت وارشاد اور عالمی سطح کے دُعاۃ ومبلغین کی زیادہ ضرورت ہے۔ فتاویٰ لکھنے والوں سے بھی زیادہ اور نقد وتنقید کرنے والوں سے بھی زیادہ۔ جہاں تک نقد وتنقید کی بات ہے تو اس میں تو بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور بہت ہی محدود پیمانے پر اس کو جاری رہنا چاہیے۔ نقد وتنقید کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں عوام کے درمیان بحث وتمحیص کا موضوع اور گفتگو کا ماحصل نہیں ہونا چاہیے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023