سخت قوانین کے باوجود آن لائن ہراسانی : 58 فیصد لڑکیاں سائبر حملوں کی شکار
افروز عالم ساحل
سوشل میڈیا پر ’سائبر جنسی تشدد‘ اور لڑکیوں کو ہراساں کئے جانے کا معاملہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اٹھ چکا ہے۔ خاص طور پر ٹویٹر پر خواتین کی عصمت دری کی دھمکی دینے کی بات راجیہ سبھا میں رکھی جا چکی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے نے اس بات پر تحقیق کی کہ اس سال اس موضوع پر ایوانوں میں کیا سوال پوچھے گئے اور حکومت نے کیا جواب دیا ہے۔
اس سلسلے میں کانگریس کے سینئر لیڈر ملکارجن کھڑگے نے 11 فروری 2021 کو راجیہ سبھا میں یہ سوال پوچھا تھا کہ ’کیا وزارت برائے خواتین و اطفال کی ترقی کو ایسے کئی ٹویٹر اکاؤنٹس کی جانکاری ہے جو لگاتار سوشل میڈیا پر خواتین کو عصمت دری کی دھمکی دینے سمیت خواتین سے متعلق نفرت بھرے جنسی تبصرے پوسٹ کرتے ہیں؟ وزارت کے ذریعے ایسے ٹویٹر اکاؤنٹس کو ختم کرنے کے لئے کیا کارروائی کی گئی ہے اور ایسے لوگوں پر قانونی کارروائی کرنے اور خواتین کے تئیں حساس بنانے کی کیا خاطر کیا کیا قدم اٹھائے گئے ہیں؟ ‘
جواب میں خواتین و اطفال کی ترقی کی وزیر اسمرتی زبین ایرانی نے تحریراً بتایا کہ اس طرح کے معاملوں سے نمٹنے کے لئے وزارت برائے خواتین و اطفال کی ترقی نے ایک ای میل آئی ڈی رکھا ہوا ہے، جس پر اس طرح معاملوں کی شکایت بھیج سکتے ہیں۔ یہ ای میل آئی ڈی [email protected] ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ آئی ایکٹ 2000 میں نقالی کے ذریعہ دھوکہ دہی (سیکشن 66 ڈی)، رازداری کی خلاف ورزی (دفعہ 66 ای) ، الیکٹرانک شکل میں فحش مواد کی اشاعت یا ترسیل (دفعہ 67) ، الیکٹرانک شکل میں جنسی حرکتوں پر مشتمل مواد کی اشاعت یا ترسیل وغیرہ (دفعہ 67 اے) ، الیکٹرانک فارم جنسی حرکتوں وغیرہ میں بچوں کی عکاسی کرنے والے مواد کی اشاعت یا ترسیل (دفعہ 67 بی) میں سزا مقرر ہے۔
وہیں وزارت داخلہ امور، نربھیہ فنڈ کے تحت "Cyber Crime Prevention against Women and Children” (سی سی پی ڈبلیو سی) نام سے ایک اسکیم چلاتی ہے، جس کے تحت عصمت دری کی تصاویر یا جنسی طور پر واضح مواد، چائلڈ پورنوگرافی یا بچوں سے جنسی استحصال کرنے والے مواد سے متعلق شکایتوں کی اطلاع دینے میں عام عوام کو اس قابل بنانے کے لئے ایک آن لائن سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل (www.cybercrime.gov.in) کی شروعات کی گئی ہے۔ اس پورٹل میں عوام کو ہر طرح کے سائبر جرائم درج کرانے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ، شہریوں کے لئے اپنی زبان میں آن لائن شکایات درج کروانے میں ان کی مدد کے لئے ٹول فری نمبر 155260 بھی موجود ہے۔ وہیں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کو فحش، عصمت دری وغیرہ کی بات کرنے والی پوسٹ کو ہٹانے کے لئے آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 79 (3) (بی) کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو نوٹس جاری کرنے کے لئے حکومت ہند کی ایک ایجنسی کے طور پر نوٹیفائڈ کیا گیا ہے۔
وہیں 10 مارچ، 2021 کو لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں الیکٹرانکس اینڈ انفورمیشن ٹیکنولوجی کے وزارت نے تحریری طور پر بتایا ہے کہ سال 2019 میں پورے ملک میں خواتین کے خلاف سائبر کرائم کے کل 8379 معاملے درج ہوئے ہیں۔ جس میں صرف 2551 معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی گئی اور محض 51 معاملوں کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ ان 51 معاملوں میں 3694 فرد کی گرفتاری ہوئی اور ان میں 3195 فرد کے خلاف چارج شیٹ داخل کیا گیا۔ اور ان میں صرف 70 فرد مجرم قرار دیئے گئے۔
اس تحریری جواب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آئی ٹی ایکٹ کے تحت نوٹیفائڈ انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنس اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھیکس کوڈ) رولز، 2021 اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کمپیوٹر وسائل کے صارفین کو ایسی کوئی بھی پوسٹ اپ لوڈ ، ترمیم، شائع، نشر، ترسیل، اپ ڈیٹ یا شیئر نہ کرنے کی انفورمیشن دے گا، جو کسی بھی طرح سے فحش، پورنوگرافک، پیڈو فیلک، بچوں کے لئے نقصان دہ، یا اس کے لئے قانون کی خلاف ورزی کرتی ہو۔ یہ رول متعلقہ فرد کی جنسی رازداری، جنسی طور پر واضح یا مورفڈ تصاویر سے جڑی مواد کی رپورٹنگ، اس کو ہٹانے کا ایک robust grievance redressal mechanism فراہم کرے گی۔
اس کے علاوہ ’انفورمیشن اویئرنیس ہینڈ بک فار وومن‘ ، ‘خواتین کے لئے سائبر سیکیورٹی ٹپس‘ اور ‘کوویڈ کے دوران گھریلو خواتین کے لئے آن لائن سیفٹی ٹپس’ جیسی خصوصی ہینڈ بک ڈیزائن کی گئی ہے۔ خواتین کے لئے خصوصی طور پر ڈیزائن یا تیار کردہ بیداری کے مواد کو ویب سائٹ https://www.infosecawareness.in/women پر ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کردیا گیا ہے۔
دنیا کی 58 فیصد سے زیادہ خواتین آن لائن ہراساں کی شکار
دنیا بھر میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والی 58 فیصد سے زیادہ لڑکیاں سائبر حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔ یعنی ان کو سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ انکشاف سال 2020 میں دنیا کے متعدد ملکوں میں بڑے پیمانے پر کیے جانے والے ایک سروے میں ہوا ہے۔
یہ سروے بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم ‘پلین انٹرنیشنل’ نے کرایا تھا، جس کے دفاتر دنیا کے 71 ممالک میں قائم ہیں۔ اس سروے میں 22 ملکوں کی 15 سے 25 سال کی عمر کی 14 ہزار لڑکیوں کو شامل کیا گیا تھا۔
اس سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ لڑکیوں و نوجوان خواتین کو صرف جنس کے ناطے ہی نہیں بلکہ ان کی نسل اور شناخت کی بنیاد پر بھی ہدف بنایا گیا۔ اس سروے میں ایک تہائی کا تعلق نسلی اقلیت سے تھا۔
بتا دیں کہ سال 2018 میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون بنائیں تاکہ وہ آزادی اظہار کا اپنا حق استعمال کر سکیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے آن لائن ہراساں کرنے کو سائبرکرائم کا درجہ دیتے ہوئے اس کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔