کانگریس فاشسٹ طاقتوں کے خلاف لڑے گی، ملکارجن کھڑگے نے پارٹی صدر کا انتخاب جیتنے کے بعد کہا

نئی دہلی، اکتوبر 19: ملکارجن کھڑگے نے بدھ کو پارٹی کے نئے صدر کے طور پر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ کانگریس ان ’’فاشسٹ طاقتوں‘‘ کے خلاف متحد ہو کر لڑے گی جو فرقہ پرستی کی آڑ میں ملک کے اداروں پر حملہ کر رہی ہیں۔

کھڑگے نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’ہمیں ان تباہ کن طاقتوں کے خلاف لڑنا ہے۔ ہمیں سڑکوں سے لے کر پارلیمنٹ تک لڑنا پڑے گا اور بوتھ لیول کے کارکنوں کو زیادہ جدوجہد کرنی پڑے گی۔‘‘

کھڑگے، گاندھی خاندان کے وفادار، ترواننت پورم کے ایم پی ششی تھرور کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے، جو G-23 گروپ کے رکن ہیں جنھوں نے پارٹی میں تنظیمی اصلاحات کی کوشش کی تھی۔ تاہم انتخابات سے پہلے تھرور نے دعویٰ کیا تھا کہ ایسا کوئی گروپ موجود نہیں ہے۔

بدھ کے روز اعلان کردہ انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کھڑگے کو 9,385 ووٹوں میں سے 7,897 ووٹ ملے جب کہ تھرور کو 1,072 ووٹ ملے۔ پارٹی کی سنٹرل الیکشن اتھارٹی کے چیئرپرسن مدھوسودن مستری نے کہا کہ 416 ووٹ غلط پائے گئے۔

کرناٹک سے تعلق رکھنے والے 80 سالہ کھڑگے 26 اکتوبر کو دو دہائیوں میں پہلے غیر گاندھی کانگریس صدر کے طور پر عہدہ سنبھالیں گے۔ ایسا آخری موقع 1997 میں تھا جب سیتارام کیسری نے شرد پوار اور راجیش پائلٹ کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔

پریس کانفرنس میں نو منتخب صدر نے کہا کہ کانگریس نے جمہوریت کے ساتھ ساتھ آئین کو بھی مضبوط بنایا ہے۔ لیکن حکمران نظام جمہوریت کو تباہ کر رہے ہیں، آئین اور ملکی اداروں پر حملہ کر رہے ہیں۔

کھڑگے نے کہا ’’کانگریس نے اپنی تنظیمی سطح پر انتخابات کروا کر جمہوریت کو مضبوط کرنے کی مثال دی ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت باتیں تو بہت کرتی ہے لیکن کوئی کام نہیں کرتی۔ انھوں نے مزید کہا ’’اگر میں ان کی حقیقت کو چار الفاظ میں بیان کروں تو یہ کھوکلا چانا باجے گھانا [خالی برتن زیادہ شور مچاتے ہیں] ہوگا۔‘‘

کھڑگے نے کہا کہ آج ہندوستان کو درپیش سب سے بڑے مسائل قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری، امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی آمدنی کے تفاوت کے ساتھ ساتھ بی جے پی حکومت کی طرف سے پھیلائی جا رہی نفرت ہیں۔

دریں اثنا تھرور نے کہا کہ کانگریس کے صدارتی انتخابات نے پارٹی کارکنوں کو آنے والے انتخابات میں بی جے پی کی طرف سے درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے جوش دیا ہے۔

تھرور نئی دہلی میں کھڑگے کی رہائش گاہ گئے اور انھیں جیت پر مبارکباد دی۔ انھوں نے کہا ’’وہ ایک سینئر لیڈر ہیں اور ہمیشہ پارٹی کی رہنمائی کریں گے۔ میں بہت خوش ہوں کیوں کہ 1,000 سے زیادہ مندوبین نے مجھے ووٹ دیا۔ ہمارے کارکن ہی ہماری پارٹی کا اصل فخر ہیں۔‘‘

تھرور نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کا احیا شروع ہو گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ تبدیلی پر تعمیری بات چیت سے پارٹی کو مستقبل میں مدد ملے گی۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس کی سبک دوش ہونے والی صدر سونیا گاندھی نے بھی کھڑگے کو ان کی جیت پر مبارکباد دی۔ گاندھی اپنی بیٹی اور کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کے ساتھ کھڑگے کے گھر گئیں۔

ان کے بیٹے اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی نے کھڑگے کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے نئے سربراہ ہندوستان کے جمہوری وژن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’’ان کا وسیع تجربہ اور نظریاتی وابستگی پارٹی کی اچھی خدمت کرے گی کیوں کہ وہ اس تاریخی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں۔‘‘

حالاں کہ نتائج کا اعلان ہونے سے پہلے ہی گاندھی نے کھڑگے کو کانگریس کا نیا سربراہ کہا۔ انھوں نے آندھرا پردیش میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ’’میں کانگریس صدر کے کردار پر تبصرہ نہیں کر سکتا، یہ مسٹر کھڑگے کے لیے ہے کہ وہ اس پر تبصرہ کریں۔ صدر فیصلہ کریں گے کہ میرا کردار کیا ہے… اور مجھے کہاں تعینات کیا جائے گا۔‘‘

سرکاری اعلان سے پہلے ہی تھرور نے اپنی شکست تسلیم کی اور کہا کہ ’’جمہوری مقابلہ‘‘ تبدیلی پر ایک صحت مند اور تعمیری بحث کا باعث بنا ہے۔

رکن پارلیمنٹ نے کہا ’’کانگریس کا صدر بننا ایک بہت بڑا اعزاز، بڑی ذمہ داری ہے، میں ملکارجن کھڑگے کے لیے اس کام میں کامیابی کی خواہش کرتا ہوں۔ پارٹی کے مندوبین کا فیصلہ حتمی ہے اور میں اسے قبول کرتا ہوں۔ ایک ایسی پارٹی کا رکن بننا ایک اعزاز کی بات ہے جو اپنے کارکنوں کو اپنا صدر منتخب کرنے کی اجازت دیتی ہے۔‘‘

17 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں 9,500 سے زیادہ مندوبین نے تھرور اور کھڑگے کے درمیان انتخاب کرنے کے لیے اپنے مینڈیٹ کا استعمال کیا تھا۔

اس سے قبل بدھ کے روز تھرور کیمپ نے مطالبہ کیا تھا کہ اتر پردیش کے تمام بیلٹ کو غلط قرار دیا جائے۔ انھوں نے ریاست میں پولنگ میں ’’سنگین بے ضابطگیوں‘‘ کا الزام لگایا۔

بدھ کی صبح کانگریس کی سنٹرل الیکشن اتھارٹی کو لکھے ایک خط میں تھرور کے چیف الیکشن ایجنٹ سلمان سوز نے متعدد بے ضابطگیوں کا الزام لگایا ہے، جیسے بیلٹ بکس کے لیے غیر سرکاری مہروں کا استعمال اور اتر پردیش میں پولنگ بوتھوں پر غیر مجاز افراد کی موجودگی۔

سوز نے یہ بھی لکھا کہ تھرور کیمپ کو لکھنؤ میں ’’ووٹر فراڈ‘‘ کا شبہ ہے کیوں کہ پولنگ کے دن شہر میں موجود مندوبین کے ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سوز نے شکایت کی کہ اتر پردیش میں پولنگ ایجنٹوں کو ووٹنگ کی سمری شیٹ نہیں دی گئی جیسا کہ طریقۂ کار میں لازمی قرار دیا گیا تھا۔