کالجیم سسٹم ’انتہائی مبہم‘ ہے، حکومت کو ججوں کا تقرر کرنا چاہیے: وزیر قانون
نئی دہلی، اکتوبر 18: مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے پیر کو کہا کہ ہندوستانی، ججوں کی تقرری کے کالجیم نظام سے ناخوش ہیں اور آئین کی روح کہتی ہے کہ حکومت کو یہ کام کرنا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہفتہ وار میگزین پنچ جنیہ کے ذریعہ منعقدہ ایک تقریب میں رجیجو نے کہا کہ حکومت نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے مہینوں بعد پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ قومی عدالتی تقرری کمیشن ایکٹ کو ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے 2015 کے فیصلے سے ناخوش ہے۔
اس قانون میں چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، وزیر قانون اور چیف جسٹس اور وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے نامزد کردہ دو دیگر نامور افراد پر مشتمل ایک باڈی کے ذریعے عدالتی تقرریاں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن کو کالجیم سسٹم کو تبدیل کرنا تھا، جس کے تحت سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔
پیر کو رجیجو نے کہا کہ کالجیم نظام کے ذریعے ججوں کی تقرری کا عمل ’’بہت مبہم‘‘ ہے۔
انھوں نے کہا ’’… ہندوستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی ایسا رواج نہیں ہے کہ جج اپنے بھائیوں کو جج مقرر کرتے ہوں۔‘‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جج ہی ’’یہ فیصلہ کرنے میں مصروف ہیں کہ اگلا جج کون ہوگا۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’ان کا بنیادی کام انصاف دینا ہے، جو اس طرز عمل کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔‘‘
رجیجو نے دعویٰ کیا کہ بہت سے موجودہ ججوں نے انھیں غیر رسمی طور پر بتایا ہے کہ قومی عدالتی تقرری کمیشن قانونی تقرریوں کے لیے بہترین آپشن ہوگا اور حکومت کو اس نظام کو واپس لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں یہاں کوئی قطعی بات نہیں کہہ رہا کیوں کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور حکومت وقت آنے پر کسی بھی ایسے اقدام پر ضرور غور کرے گی جو عدلیہ اور قوم کے مفاد میں ہو۔‘‘
واضح رہے کہ ایک ماہ میں یہ دوسرا موقع ہے جب وزیر قانون نے کالجیم سسٹم پر سوال اٹھایا ہے۔ پچھلے مہینے ادے پور میں قانونی معاملات پر منعقدہ ایک کانفرنس میں انھوں نے کہا تھا کہ کالجیم نظام پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
رجیجو نے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں وزیر قانون کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کالیجیم نظام کی وجہ سے زیر التوا ہیں۔