عراق میں تصادم ، 15 کی موت، 350 سے زائد زخمی
نئی دہلی، اگست 30: عراقی دارالحکومت بغداد میں سیکورٹی فورسز اور ایک طاقتور شیعہ عالم کے حامیوں کے درمیان تصادم میں کم از کم 15 افراد کی موت اور تقریباً 350 دیگر زخمی ہو گئے۔ بدامنی کی صورتحال کے پیش نظر ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
منگل کو حکام نے بتایا کہ مقتدیٰ الصدر کے حامی مظاہرین کے صدارتی محل پر دھاوا بولنے کے بعد سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔ صدر کے سیاست سے ریٹائرمنٹ لینے کے اعلان کے بعد پیر کو تشدد بھڑک گیا اور یہ رات بھر جاری رہا۔
ایران نے عراق کے ساتھ اپنی تمام سرحدیں بند کر دی ہیں اور کویت نے اپنے شہریوں سے فوری طور پر ملک چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے اس تعلق سے بتایا ہے کہ عراق کے نگراں وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے امن کی اپیل کی ہے اور کئی دیگر شہروں میں بدامنی کے بعد فوج نے ملک گیر کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فریقین کے درمیان رات بھر سڑکوں پر فائرنگ ہوتی رہی۔ اس دوران بڑے بارودی مواد سے حملے بھی ہوئے۔ حالیہ برسوں میں عراقی دارالحکومت میں تشدد کا یہ سب سے بدترین واقعہ ہے۔
بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ زیادہ تر لڑائی شہر کے گرین زون کے گرد مرکوز رہی جہاں سرکاری عمارتیں اور غیر ملکی سفارت خانے واقع ہیں۔
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ تشدد امن بریگیڈ کے ارکان، صدر کی وفادار ملیشیا اور عراقی فورسز کے درمیان ہوا۔
بی بی سی نے ایک بین الاقوامی ایجنسی کے حوالے سے بتایا کہ ”ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر کے 15 حامیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور تقریباً 350 دیگر مظاہرین زخمی ہوگئے ہیں”۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیریس کے ترجمان نے کہا کہ وہ عراق میں ہونے والے واقعات سے فکر مندہیں اور صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ صدر کے معاون، نگران وزیراعظم نے کابینہ کی میٹنگیں معطل کر دی ہیں اور بے جا مداخلت کرنے اور تشدد کو روکنے کی اپیل کی ہے۔