دیوانی عدالتوں کو نفرت انگیز تقاریر کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے، سزا کے طور پر ہرجانہ عائد کرنا چاہیے: سپریم کورٹ کے سابق جج آر ایف نریمن
نئی دہلی، نومبر 12: یہ دعوی کرتے ہوئے کہ فوجداری قانون کو بعض اوقات انتخابی طور پر حرکت میں لایا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن فالی نریمن نے جمعہ کو مشورہ دیا کہ دیوانی عدالتوں کو نفرت انگیز تقاریر کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے اور سزای دینی چاہیے۔
نریمن نے کہا ’’نفرت انگیز تقریر ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہے۔ جس لمحے کوئی شہری نفرت انگیز تقاریر کے خلاف درخواست کرتا ہے، عدالت بنیادی فرض کی وجہ سے نہ صرف ایک اعلامیہ اور حکم امتناعی جاری کر سکتی ہے، بلکہ وہ تعزیری ہرجانہ بھی عائد کر سکتی ہے۔‘‘
سابق جج نے کہا کہ ایسا قدم ملک میں بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بہت آگے جا سکتا ہے۔
نریمن نے ’’حقوق، فرائض، ہدایتی اصول: بنیادی کیا ہے؟‘‘ کے موضوع پر 13 ویں وی ایم ترکونڈے میموریل لیکچر دیتے ہوئے یہ مشورہ دیا۔ اس تقریب کا اہتمام ترکونڈے میموریل فاؤنڈیشن نے بمبئی ہائی کورٹ کے سابق جج وی ایم ترکونڈے کے اعزاز میں کیا تھا۔
بار اینڈ بنچ نے رپورٹ کیا کہ اپنی جمعہ کی تقریر میں نریمن نے بھائی چارے کے پانچویں بنیادی فرض کے جذبے کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
انھوں نے کہا کہ اس ملک کے ہر فرد کے وقار کو یقینی بنانے اور اس قوم کی سالمیت اور اتحاد کو یقینی بنانے کا واحد آئینی طریقہ اخوت ہے۔ انھوں نے کہا ’’میرے مطابق بھائی چارہ اس قوم کے لیے خاص طور پر اس وقت بہت اہم ہے۔‘‘
انھوں نے 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے حکم کی بھی تعریف کی جس میں اس نے دہلی، اتراکھنڈ اور اتر پردیش میں پولیس کو ہدایت دی تھی کہ نفرت انگیز تقریر کے معاملات میں مجرموں کے مذہب سے قطع نظر اور شکایت کا انتظار کیے بغیر کارروائی کریں۔
حکم میں جسٹس کے ایم جوزف اور ہرشیکیش رائے کی بنچ نے مشاہدہ کیا تھا کہ حالیہ کچھ مذہبی اجتماعات میں اقلیتی برادریوں کے خلاف بیانات چونکا دینے والے تھے۔