چند آزاد اور بے خوف آوازوں کے سامنے آمریت لرزہ براندام

لوک سبھا کے انتخابی مہم کو ہندو بنام مسلم کی جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش ناکام!

نور اللہ جاوید، کولکاتا

سوشل میڈیا کی پہنچ اور تخلیق کاروں کی تعداد میں اضافے کے باعث سچائی اور حقائق تک پہنچنا آسان ہوگیا
کارپوریٹ گھرانوں کی ملکیت والا قومی میڈیا اور بکاؤ صحافی بتدریج بے اثر ہونے لگے
عالمگیریت اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں مسلم فوبیا کے خاتمے کے لیے دوسروں پر بھروسے کے بجائے مسلمانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی چاہیے
لوک سبھا انتخابات کے لیے تیسرے مرحلے کی پولنگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اس درمیان وزیر اعظم مودی اور دیگر لیڈر اپنے انتخابی جلسوں میں اور بی جے پی کی سوشل میڈیا کی فوج نے کانگریس کے انتخابی منشور کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مسلسل جھوٹ اور نفرت پھیلاتے رہے جس کے باعث یہ اندیشہ ہونے لگا تھا کہ انتخابی مہم ’’ہندو بنام مسلم‘‘ میں تبدیل ہوجائے گی تاہم، اب تک بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی منشا کے مطابق انتخابی مہم پر فرقہ واریت کا رنگ غالب نہیں ہو سکا ہے۔ ملک کےسب سے مقبول لیڈر ہونے کے دعویدار وزیر اعظم مودی کی باتوں پر عوام یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی شبیہ ایک ایسے لیڈر کی رہی ہے جو ایجنڈہ طے کرتے ہیں اور ان کے ہی ایجنڈے پر اپوزیشن جماعتیں چلتی ہیں مگر اس مرتبہ یہ جادو نہیں چل رہا ہے اور ان کی پارٹی بی جے پی کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو اپنے طور پر چلاتی ہے اور وہ سوشل میڈیا کی کنگ ہے۔وزیر اعظم مودی کے ایکس ہینڈل پر سب سے زیادہ فالوور ہیں اس کے باوجود فرقہ واریت پر مبنی ایشوز اور ایجنڈے عوام میں قبولیت حاصل نہیں کر پا رہے ہیں آخر کیوں؟4؍ جون کو کیا نتائج آئیں گے یہ وقت ہی بتائے گا تاہم، ملک کے سب سے بڑے انتخابات کے تئیں عوام میں وہ جوش و خروش نہیں ہے جو گزشتہ 2014 اور 2019 میں نظر آیا تھا۔ فضاوں میں مودی مودی کے گونجنے والے نعروں میں اعتماد اور یقین کا فقدان ہے۔ سوال کیا جا رہا ہے کہ عرب ممالک سے دوستی پر فخر کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم مودی آخر اس نچلی سطح تک اتر کر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے پر مجبور کیوں ہوئے؟ رام جنم بھومی تحریک کے دوران بھی مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت اور حقارت کا اظہار نہیں کیا جا رہا تھا جو آج وزیر اعظم اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے بی جے پی کے لیڈر کر رہے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے ہوتے ہیں اور وہی ایجنڈے طے کرتی ہیں۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابتدا میں جس جنگ کو یک طرفہ کہا جا رہا تھا اور ’400 پار‘ کے نعروں کی جو گونچ تھی وہ عوامی مسائل، روزگار، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، طاقتور حلقے کی اقتدار پر مضبوط گرفت، کسانوں کے مسائل و مطالبات اور غریب عوام پر مرکوز اپوزیشن جماعت بالخصوص کانگریس اور ان کے لیڈر راہل گاندھی کی مہم نے مودی کے فرقہ واریت کے ایجنڈے کو ناکام بنا دیا ہے۔ راہل گاندھی کی تقریروں میں ایک دھار ہے۔ وہ عام لوگوں کے دلوں پر دستک دے رہے ہیں۔ وہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ آج اقتدار سے کون فیض یاب ہو رہا ہے۔ اس میں شیڈول ٹرائب، شیڈول کاسٹ، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی حصہ داری کہاں ہے؟ وہ اقتدار میں آنے کے بعد انصاف اور حصہ داری کی یقین دہانی کراتے ہیں اور ساتھ ہی یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں اس نفرت سے انہیں کیا مل رہا ہے۔
تاہم یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کا نفرتی ایجنڈا آج اگر کام نہیں کر رہا ہے تو اس کے پیچھے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر موجود چند آزاد اور بے خوف آوازیں ہیں جو دھمکیوں کو خاطر میں لائے بغیر ایک ملک و قانون کے تئیں ایک وفادار شہری ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں ۔یہ آواز یں اس قدر مضبوط اور مستحکم ہیں کہ ان کے طرز استدلال اور مضبوط بیانیہ کے سامنے نیشنل میڈیا جو ’’گودی میڈیا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے وہ پست ہوتا ہوا نظر آرہا ہے یا پھر اس کو بھی سوشل میڈیا کی پیروی کرنی پڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ان چند آوازوں کی خصوصیات کیا ہیں اور یہ کون لوگ ہیں؟ ان کی آواز اتنی مضبوط کیوں ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں سوشل میڈیا کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ بھارت میں یوٹیوب اور سوشل میڈیا کی رسائی کس قدر ہے؟ آج اگر انٹرنیٹ اور یوٹیوب کی رسائی گھر گھر تک ہوچکی ہے تو پھر مسلم دانشور اور تنظیمیں مسلم فوبیا کے خاتمے اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والے جھوٹ اور تاریخی مسلم شخصیات اور مسلم ادروں کو بد نام کرنے والی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا اس میڈیم سے استفادہ کر رہی ہیں۔
ملک میں سوشل میڈیا کی رسائی اور اس کے اثرات
عالمگیریت اور ڈیجیٹلائزیشن سے دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔سوشل میڈیا سے لے کر چاٹ رومز اور فوری پیغام رسانی تک کے انداز تبدیل ہو چکے ہیں۔ ’’ڈیجیٹل 2023: انڈیا رپورٹ‘‘ کے مطابق 2023 میں ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی کل تعداد 188.25ملین تک پہنچ گئی ہے جبکہ دسمبر 2022 میں یہ تعداد 186.90 ملین تھی۔ یعنی چند مہینوں میں 1.77 فیصد فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔مئی 2024 تک کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بھارت میں انٹرنیٹ صارفین کے تعداد 200 ملین تک پہنچ جائے گی۔ دو دہائی قبل یوٹیوب کا آغاز ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ یوٹیوب آج بھارت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سوشل میڈیا ہے۔ ملک میں یوٹیوب کی رسائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آکسفورڈ اکنامکس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستانی یوٹیوبرز نے 2020 میں 6,83,900 ملازمتوں کی تخلیق میں مدد کی ہے۔ اور ملکی معیشت میں 6,800 کروڑ روپے حصہ داری ادا کی ہے۔ 90 فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباریوں نے یوٹیوب کے ذریعہ مارکیٹ میں رسائی حاصل کی اور اپنے کلائنٹ بیس کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کی۔2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک لاکھ سے زائد سبسکرائبرز سے لطف اندوز ہونے والے یوٹیوب چینلز کی تعداد تقریباً چالیس ہزار ہے جو کہ سال 2020 کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز کی تعداد میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یوٹیوب کے سی ای او سوسن ووجکی کہتے ہیں کہ ’بھارت ویڈیو اسٹریمنگ سروس کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا ہوا سامعین پورٹل ہے۔ بھارت دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جن میں سامعین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یوٹیوب آج صارفین کے لیے مواد استعمال کرنے کا پہلا اسٹاپ بن گیا ہے۔ بھارت میں یوٹیوب کے 95 فیصد صارفین مقامی زبانوں میں مواد استعمال کرتے ہیں ۔یوٹیوب پر تخلیق کاروں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ متاثر کن افراد نوجوان ہیں اور سامعین سے براہ راست بات کرتے ہیں۔ وہ روزمرہ کی متعلقہ چیزوں پر عام طور پر ہندی میں ویڈیوز بناتے ہیں اور مہینے میں اوسطاً 12-15 ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں۔ وہ صنفی توازن اور جغرافیائی طور پر متنوع سامعین کی پسند سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
حالیہ شائع ہونے والے ایک مقالہ Indian Election Changing political outreach in 2024 Influencer collaboration on YouTube: جسے جیوئے جیت پال، رودرشن مکھرجی اور سارہ خان نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ چوں کہ یوٹیوب اور اس کے تخلیق کاروں کا اثر قومی میڈیا سے زیادہ ہے اس لیے 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے کئی مہینے قبل ہی سیاست دانوں نے مشہور یوٹیوبروں کو انٹرویو دینا شروع کر دیا تھا۔ اس مقالے میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں نے اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر زیادہ انٹرویوز دیے ہیں۔ اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں موجودہ حکومت پر تنقیدی مواد پوسٹ کرنے والے اکاؤنٹس کی تعداد میں بھی مجموعی طور پر کمی آئی ہے۔ جب کہ بی جے پی کے حامی مواد کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ مشیگن یونیورسٹی میں ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر جویوجیت پال کہتے ہیں کہ یہ صورت حال حکومت کی کھلے عام تنقید کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے ہچکچاہٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔دوسری طرف پولرائزنگ مواد یا پھر حکومت کی حمایت والے مواد پر مبنی ویڈیوز لوڈ کرنے میں خطرات کم ہیں۔پال کہتے ہیں کہ حکومت کے ذریعہ سوشل میڈیا پر کنٹرول کرنے کی کوشش ہے اور یہ جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔ 3؍ مئی کو دنیا بھر میں پریس کی آزادی کے لیے خصوصی دن کا اہتمام کیا گیا ۔رپورٹر ود آوٹ بارڈر کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں بھارت کی پریس کی آزای کے رینک میں دو پوائٹ کی بہتری آئی ۔گزشتہ سال 2023 میں پریس کی آزادی کے معاملے میں 180 ممالک میں بھارت 161ویں پوزیشن پر تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ 2014 میں بھارت کا رینک 140 تھا یعنی محض دس سالوں میں 20 رینک کی گراوٹ درج کی گئی۔اسی طرح جموں وکشمیر میں طویل مدت تک انٹرنیٹ پر پابندی اور گزشتہ سال منی پور میں انٹرنیٹ کی بندش کے بعد بھارت سب سے زیادہ انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ بھارت میں سوشل میڈیا مکمل طور پر آزاد اور محفوظ ہے تاہم، روایتی میڈیا کے مقابلے میں آزاد اور زیادہ اثردار ہے ۔گوگل ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں نے 2021 اور 2022 کے دوران انتخابی اشتہارات پر تقریباً 800 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات میں 1200ملین ڈالر خرچ کیے جانے کا تخمینہ ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قومی میڈیا کا اسپیس اپوزیشن جماعتوں کے لیے تنگ ہوگیا ہے، لہٰذا یہ سوال کوئی معنی نہیں رکھتا ہے کہ سوشل میڈیا پر نمائندگی کس پارٹی کی زیادہ ہے اور کس کی کم ہے ۔چوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی بات پہنچانا زیادہ آسان ہے اس لیے سیاسی جماعتوں میں سوشل میڈیا کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اب بی جے پی کی طرح تمام سیاسی جماعتوں میں سوشل میڈیا سیل ہے اور وہ بہت ہی منظم طریقے سے کام کرتا ہے۔
بی بی سی انگریزی نے ایک دن قبل ہی Lok Sabha 2024 :The influencers driving India’s big election کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیرا عظم مودی نے سوشل میڈیا کی طاقت کا احساس کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات سے قبل دلی میں ایک ایوارڈ شو کا اہتمام کیا جس میں سوشل میڈیا انفلونسر کو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔اس رپورٹ میں چند سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا ذکر کیا ہے جو اپنے سبسکرائبرز کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے لیے پیڈ مہم چلارہے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج سوشل میڈیا کتنا بڑی طاقت بن گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر چند بے خوف اور آزاد آوازیں
صحافی آکاش بنرجی جو ’’دی دیش بھکت‘‘ نام سے یوٹیوب چلاتے ہیں اور طنزیہ انداز میں مودی بھکتی کو بے نقاب کرتے ہیں، دلیل دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے چند ایسے تخلیق کار ہیں جو قومی میڈیا سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں ۔وہ یوٹیوبر دھرو راٹھی کے ایک ویڈیو ’’کیا ہندوستان ایک آمریت میں تبدیل ہورہا ہے؟‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس ویڈیو میں براہ راست حکومت سے سوالات کیے ہیں اور اسے اب تک تقریباً 24 ملین مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔اس ویڈیو کے بعد آمریت کی اصطلاح سیاسی مہم کا حصہ بن گئی ہے۔آکاش بنرجی کہتے ہیں کہ ایک یوٹیوبر ہونے کے ناطے ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ کھڑکی کھولیں اور یہ جانچ کریں کہ واقعی بارش ہو رہی یا نہیں ہے بلکہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ کھڑکی کھولیں اور باہر ایک نظر ڈالیں اور لوگوں کو بتائیں کہ سیاہ بادل قریب آ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں ۔جرمن میں مقیم دھرو راٹھی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صحافیانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے ایک محقق کے طور پر حقائق سے باخبر کرتے ہیں، سچائی کے حق میں دلیلوں کا انبار لگا دیتے ہیں۔لوک سبھا انتخابات کے موسم میں انہوں نے کئی ویڈیوز اپلوڈ کیے ہیں۔ ان ویڈیوز نے بی جے پی کے پورے انتخابی بیانیہ کو متاثر کر دیا ہے۔ بنگال اور آسام میں کئی مقامات پر دھرو راٹھی کی ویڈیوز کو گاوں والوں نے اجتماعی طور پر دیکھا گیا ہے۔دھرو راٹھی اس معاملے میں تنہا نہیں ہیں بلکہ حالیہ دنوں میں نیشنل چینل سے جبراً فارغ کر دیے جانے کے بعد چند صحافیوں نے روزگار کے لیے نظریاتی سمجھوتہ کیے بغیر یوٹیوب کے ذریعہ اپنی صحافت کو جاری رکھا ہے۔ ان میں رویش کمار، ساکشی سنگھ، اجیت انجم، ابھیسار شرما، پرسون واجپئی جیسے افراد نمایاں ہیں۔ان کے علاوہ دی وائر، نیوز لانڈری، دی نیوز منٹ، اسکرول ڈاٹ کام، سب رنگ اور دیگر ویب سائٹوں اور ان کے یوٹیوب چینلوں نے قومی میڈیا سے ہٹ کر الگ قسم کی رپورٹنگ کی ہے۔اس کی وجہ سے وہ ناظرین میں مقبول ہیں۔ چنانچہ ہندو مسلم پر مشتمل ٹی وی بحثوں اور رات دن مودی مودی، بی جے پی بی جے پی کا رٹ لگانے اور اپوزیشن کو تنقیدوں کا ہدف بنائے جانے کی قومی میڈیا کی روش سے ناظرین تھک چکے ہیں ۔کیوں کہ جھوٹ اور نفرت کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ ایک مدت کے بعد وہ اپنی چمک و دمک کھو دیتی ہے۔چنانچہ گزشتہ دس سالوں میں ٹی وی چینلوں اور مودی حامی پرنٹ میڈیا نے جس طریقے سے عوامی مسائل اور ایشوز کو در کنار کرکے جذباتی ایشوز، اکثریت نوازی، مسلم دشمنی اور طاقتوروں کی طرف داری کی ہے اس کی وجہ سے عام لوگوں میں مایوسی پھیلی ہے۔ اس سال جنوری سے لے کر اپریل تک کتنے دلتوں کا قتل ہوا ہے اس سے متعلق بھارت کے میڈیا میں کوئی خبر نہیں ہے جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے اس پر تفصیلی خبریں شائع کی ہیں۔اسی طرح کسانوں کے ایشوز اور خود کشی کے واقعات پر رپورٹنگ بھی غائب ہے۔ پہلے اخباروں میں زراعت پر رپورٹنگ کرنے کے لیے صحافی رکھے جاتے تھے مگر آج ثقافت وکلچر اور انٹرٹینمنٹ کے لیے صحافی مقرر کیے جاتے ہیں۔ ممبئی میں منعقد ہونے والے فیشن ویک کے لیے ملک بھر سے 400 صحافی جمع ہوتے ہیں مگر یہاں سے چند سو کلو میٹر دور ودربھ کے علاقے میں اسی مدت میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات سامنے آنے کے بعد محض تین چار صحافی گراونڈ رپورٹنگ کے لیے پہنچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رویش کمار اور دھرو راٹھی جیسے یوٹیوبرز اور صحافی عوامی مسائل اور ایشوز جب کوئی ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں تو گھنٹوں میں لاکھوں ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتےہیں اور سوشل میڈیا میں جلد ہی ان کے ویڈیوز وائرل ہوجاتے ہیں۔وزیر اعظم مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور سے متعلق جب بھی کھلے عام دروغ گوئی کی اور اس کے بہانے مسلمانوں کے خلاف ملک کے دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات کو خوف زدہ کرنے اور ان میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی تو ان آزاد اور بے خوف آوازوں نے سامنے آکر سچائی کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے کئی قومی نیوز چینلز جو آنکھ بند کرکے وزیر اعظم کی تائید کرتے تھے وہ بھی بولنے پر مجبور ہوگئے کہ کانگریس کے انتخابی منشور کے حوالے سے وزیر اعظم مودی جھوٹ بول رہے ہیں ۔وزیر اعظم کے جھوٹ کے خلاف ان صحافیوں نے بھی سوالات کھڑے کیے ہیں جن کی شناخت ہی مودی حامی کے طور پر تھی اور وہ اس پر فخر بھی کرتےتھے اورمودی کی طرف داری کو راشٹرواد سے جوڑتے تھے ۔اشارہ آج تک نیوز چینل میں پولیٹکل ایڈیٹر سدھیر چودھری کی طرف ہے۔بی جےپی صدر جے پی نڈا سے انٹرویو کے دوران انہوں نے وزیر اعظم کے دعووں کی پول کھول دی اور کئی سوالات کھڑے کردیے کہ کانگریس کے انتخابی منشور میں کہیں بھی مسلم کا لفظ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی منگل سوتر کو چھیننے کی بات کہی گئی تو پھر اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔آج تک نیوز چینل کے ہی ایک صحافی نے کانگریس کے انتخابی منشور کے خلاف کانگریس کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے طلباء کی ایک جماعت کو بے نقاب کردیا کہ کس طرح بی جے پی نے ان کو یہاں لاکر احتجاج کروارہی تھی۔ جب صحافی نے مظاہرے میں شریک طالب علم سے سوال کیا کہ وہ کس لیے جمع ہوئے ہیں اور ان کا کانگریس کے خلاف احتجاج کس ایشوز پر ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ المیہ یہ ہے کہ ان طلباء کے ہاتھوں میں جو بینر تھے بیشتر طالب علم ان پر لکھے ہوئے نعروں کو تک نہیں پڑھ پا رہے تھے۔ان طالب علموں میں سے بیشتر گریجویٹ یا پھر پوسٹ گریجوٹ تھے۔اس سےتعلیمی اداروں کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔انڈرگریجوٹ طالب علم انگریزی ایک پیراگراف تک نہیں پڑھ پارہے ہیں۔یہ طلباء کسی دیہی علاقے سے نہیں آئے تھے بلکہ نوئیڈا میں قائم بلند و شاندار عمارت پر مشتمل پرائیوٹ گلاوٹھیا یونیورسٹی کے طلباء تھے جو بھاری فیس دے کر یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پرائیوٹ یونیورسٹیوں کا استعمال کتناآسان ہو گیا ہے۔
مودی کی اندھا دھند حمایت کی لیے مشہور اور ملک کے قدیم ترین نیوز چینلوں میں سے ایک ’’زی نیوز ‘‘جس کے مالک سبھاش چندرا کا کروڑوں روپے کا قرضہ مودی حکومت نے معاف کیا ہے، اس کے کوریج میں بھی حیران کن تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق زی نیوز پر مودی کے لائیو تقاریر کے دورانیے کو کم کردگیا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کی بھی تقاریر لائیو نشر کی جارہی ہیں ۔اسی طرح ملک کے سینئر صحافیوں میں سے ایک شیکھر گپتا جو انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر ہیں، ان کا کانگریس اور راہل گاندھی کے سخت ترین ناقدین میں شمار ہوتا ہے، وہ بھی اپنے حالیہ کالم اور یوٹیوب پروگرام میں راہل گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے نظر آئے۔اس کے علاوہ انڈین ایکسپریس کی کالم نگار اور سینئر صحافی تولین سنگھ مودی کے مداحوں میں سے ایک ہیں ۔انہوں نے مودی کی شخصیت پر کتاب بھی لکھی ہے۔ انہوں نے کانگریس کے انتخابی منشور پر معاشی نقطہ نظر سے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کانگریس کا انتخابی منشور غربت کا خاتمہ کرنے بجائے غریبوں کو غریب رکھنے کی حکمت پر مبنی ہے۔انہوں نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ جب ملک کی دولت عوام میں تقسیم کردی جائے گی توملک میں انفراسٹرکچرکی تعمیر کیسے ہوگی۔ائیرپورٹوں کی تعمیر کیسے ہوگی؟ اسی طرح اپنے ایک اور کالم میں انہوں نے وزیر اعظم کی شبیہ پر تفصیلات بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دیہی علاقوں میں عوام کی نظروں میں وزیر اعظم کی کوئی منفی شبیہ نہیں ہے۔مخالفین کے پاس بھی وزیر اعظم سے متعلق کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔اگرچہ تولین سنگھ اس کی وضاحت نہیں کی کہ انہوں ملک کن علاقوں کا دورہ کیا اور کن علاقوں کے دیہی شہریوں سے ملاقات کی ہے یا پھر انہوں نے اے سی والے کمرے میں بیٹھ کرخود اندازے لگالیے ہیں؟ مگر آج 5؍ مئی کے شمارے میں انہوں نے حیرت انگیز طور پر لندن میں مقیم اپنے مسلم بیٹے آتش تاثیر (جنہوں نے مشہور انگریزی میگزین ’’مودی ڈیوائڈر کے عنوان سے 2019 میں میگزین کے لیے کور اسٹوی لکھی تھی) کے الفاظ کو دہراتے ہوئے مودی کو بھارت کو تقسیم کرنے والا لیڈر قرار دیا ہے۔انہوں نے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مودی نے جس طرح سے ہمارے اپنے ہی مسلمان شہریوں کو شیطان بنایا ہے، اس سے وزیراعظم کے دفتر کی بے عزتی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں انڈونیشیا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، اس لیے ہمارے مسلمان شہریوں کو ’درانداز‘ کہنا غیر ذمہ دارانہ، جھوٹا اور انتہائی خطرناک ہے۔ پھر مودی کا تبصرہ تھا کہ کس طرح کانگریس پارٹی ہندوستانی خواتین سے سونا اور ’منگل سوتر‘ چرائے گی اور اس دولت کو ’زیادہ بچے پیدا کرنے والوں‘ میں دوبارہ تقسیم کرے گی۔ یہ اس کے الما میٹر سے آتا ہے۔ میرے پاس ایک بار آر ایس ایس کے بہت سے دوست تھے اور دہلی میں شاکھا کے بعد کے پنجابی ناشتے پر مجھے پتہ چلا کہ وہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی ملک بننے کے بارے میں پاگل تھے کیونکہ مسلمانوں نے ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کیے تھے۔ جو کچھ ایک عام سنگھی کہہ سکتا ہے وہ وزیر اعظم نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی کہنا چاہیے کیونکہ وہ سب کی نمائندگی کرنے والا ہوتا ہے‘‘
شیکھر گپتایا پھر تولین سنگھ اور قومی نیوز چینلوں کی رپورٹنگ میں تبدیلی کے بعد یہ سوالات پوچھے جانے لگے ہیں کہ کیا میڈیا کے رخ میں تبدیلی آرہی ہے؟ کیا یہ مودی کی رخصتی کے آثار ہیں یا پھر راہل گاندھی اور کانگریس کو لے کر میڈیا کی سوچ میں تبدیلی کا عکس ہے؟ ظاہر ہے کہ ان سوالوں کاکوئی بھی واضح جواب قبل از وقت ہے تاہم تعداد کے اعتبار سے انتہائی کم ہیں مگر آزاد اور بے خوف چند آوازوں نے جس طریقے سے سچائی کو سامنے لایا اور جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے اس نے عوام کے دل و دماغ کو متاثر کیا ہے۔اس میں جہاں ان یوٹیوبروں کی ایمان داری اور سب سے بڑھ کر سچائی کو سامنے لانے کے حوصلے کا اہم کردار ہے۔ ایسی بے خوف اور آزاد آوازوں کا تحفظ اور حمایت ملک کے ہر باشعور شہری کی ذمہ داری ہے۔
مسلم فوبیا کے خاتمے کے لیے مسلم تنظیمیں اور مسلمان کیا کر رہے ہیں؟
آج یوٹیوب اور انٹرنیٹ ملک کے ہر ایک گھر اور ہر ایک فرد تک پہنچ چکا ہے اور اخبارات اور ٹی وی کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے تو اس اسپیس میں ملک کے 20فیصد مسلمان کہاں ہیں؟ اگرچہ گوگل اور انٹرنیٹ اتنا آزاد نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں مگر قومی میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی پہنچ آسان ہے اور آج کے سیاسی ماحول میں زیادہ اہم ہے۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ سوشل میڈیا پر بطور تخلیق کار مسلمانوں کا کیا رول ہے؟ ہم نے گزشتہ شماروں میں بھی فلم اور ہندتو موسیقی کے متعلق لکھا تھا کہ اگر موسیقی اور فلم و آرٹ کے ذریعہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے تو ہمیں اس کا جواب دینا چاہیے۔ آج ملک میں یوٹیوب تخلیق کاروں کی تعداد میں اور اس کے ناظرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔رپورٹ کے مطابق آج ملک کے 70 فیصد شہری کسی بھی چیز سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے یوٹیو ب کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اگر بھارت کا کوئی شہری اپنی مادری زبان بنگلہ، ملیالم، تمل، کنڑ، تیلگو اور اڑیہ جیسی علاقائی زبان میں مسلم تاریخ اور مسلمانوں سے معلومات حاصل کرنے کے لیے یوٹیوب کا رخ کرتا ہے تو کیا یوٹیوب پر قابل اعتماد مواد اسے مل جائے گا؟ جب کہ قرآن کریم میں 1400 سو سال قبل مسلم امّت کی توجہ معاصر کے اعتبار سے تیاریاں کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ ارشاد خداوندی ہے ۔وَاَعِدّْوْا لَہْمْ مَّا اسْتَطَعتْم مِّن قُوَّۃٍوَّ مِنْ رِّبَاطِ الخَیلِ تْرْھِبُونَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِن دُونِہِم لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ اَللّہُ یَعْلَمُہُمْ ( اورتم جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو، اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کروگے جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔(انفال آیت 60:) قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر میں مولانا محمد شفیعؒ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ
’’چوں کہ جہاد کا اصل مقصد اسلام اور مسلمانوں کا دفاع ہے، دفاع ہر زمانہ اور ہر قوم کا جدا ہوتا ہے اس لیے آں حضرت ﷺ نے فرمایا جاھدوا المشرکین باموالکم و انفسکم و ألسنتکم اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح دفاع و جہاد ہتھیاروں سے ہوتا ہے بعض اوقات زبان سے بھی ہوتا اور قلم بھی زبان کے ہی حکم میں ہے۔اسلام اور قرآن سے کفر و الحاد کے حملوں اور تحریفوں کی مدافعت زبان یا قلم سے یہ بھی اس صریح نص کی بنا پر جہاد میں داخل ہے‘‘مولانا نے آگے لکھا ہے کہ ’’ تْرْھِبُونَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُم قلم سے یہی مراد ہے۔ سامان جنگ و دفاع جمع کرنے کا اصل مقصد قتل و قتال نہیں بلکہ کفرو شرک کو زیر کرنا اور مرعوب و مغلوب کردینا ہے۔ وہ کبھی صرف زبان سے ہوگا یا قلم سے بھی ہوسکتا ہے اور بعض اوقات اس کے لیے قتل و قتال ضروری ہوتا ہے۔ جیسی صورت حال ہو اس کے مطابق دفاع کرنا فرض ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت سے متعلق لکھا ہے کہ ’’ یہ اس تیاری کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ کے اور تمہارے دشمنوں پر تمہار ی دھاک اور ہیبت قائم رہے تاکہ تمہیں نرم چارہ سمجھ کر وہ تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔یہاں مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اللہ کا دشمن ٹھیرایا گیا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی جنگ جس سے بھی تھی اللہ کے دین کے لیے تھی اس میں کسی اور چیز کا کوئی دخل نہ تھا۔‘ مولانا اصلاحی مزید لکھتے ہیں: ’’قرآن نے یہاں مسلمانوں کو حاضر سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے ان دشمنوں کی طرف بھی ایک اشارہ کر دیا ہے جو مستقبل قریب یا مستقبل بعید کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں تاکہ مسلمان دور تک نگاہ رکھ کر منصوبہ بندی کریں‘‘۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیت اور اس سے متعلق مفسرین کی تشریح کے تناظر میں اگر خود احتسابی کی جائے کہ ڈیجیٹلائزیشن سے ہم کس قدر استفادہ کر رہے ہیں؟ مسلمانوں کی تاریخ،تہذیب و ثقافت پر حملے کا صحیح اور معترض کے زبان میں جواب دینے والوں کی تعداد کیا ہے؟ صرف بھارت کے تناظر میں ہی یوٹیوب پر موجود انفلوئنسز کا تجزیہ کیا جائے تو مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔کیا اداروں اور تنظیموں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ نوجوانوں کی تربیت کریں؟ گزشتہ سطور میں جن انصاف پسند اور لبرل خیالات کے حاملین کے نام آئے ہیں وہ یقیناً اس اندھیر نگری میں امید کی کرن ہیں مگر یہ بات ذہن نشیں رہے کہ وہ ہر میدان اور ہروقت مسلمانوں کی لڑائی نہیں لڑسکتے۔ بہت سارے لبرل اور انصاف پسند افراد ہیں جو اکثر ایشوز پر مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں، مسلمانوں کے استحصال اور ظلم کے خلاف تحریک اول دستہ میں ہوتے مگر بہت سارے ایسے ایشوز ایسے بھی ہیں جن میں ان کی ذہنیت بھی وہی ہے جو دائیں بازو والوں کی ہے۔ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنی لڑائی، اپنا موقف اور اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت ذمہ داری خود اٹھانی ہو گی۔
***

 

***

 آج یوٹیوب اور انٹرنیٹ ملک کے ہر ایک گھر اور ہر ایک فرد تک پہنچ چکا ہے اور اخبارات اور ٹی وی کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے تو اس اسپیس میں ملک کے 20 فیصد مسلمان کہاں ہیں؟ اگرچہ گوگل اور انٹرنیٹ اتنا آزاد نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں مگر قومی میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی پہنچ آسان ہے اور آج کے سیاسی ماحول میں زیادہ اہم ہے۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ سوشل میڈیا پر بطور تخلیق کار مسلمانوں کا کیا رول ہے؟ ہم نے گزشتہ شماروں میں بھی فلم اور ہندتو موسیقی کے متعلق لکھا تھا کہ اگر موسیقی اور فلم و آرٹ کے ذریعہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے تو ہمیں اس کا جواب دینا چاہیے۔ آج ملک میں یوٹیوب تخلیق کاروں کی تعداد میں اور اس کے ناظرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔رپورٹ کے مطابق آج ملک کے 70 فیصد شہری کسی بھی چیز سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے یوٹیو ب کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اگر بھارت کا کوئی شہری اپنی مادری زبان بنگلہ، ملیالم، تمل، کنڑ، تیلگو اور اڑیہ جیسی علاقائی زبان میں مسلم تاریخ اور مسلمانوں سے معلومات حاصل کرنے کے لیے یوٹیوب کا رخ کرتا ہے تو کیا یوٹیوب پر قابل اعتماد مواد اسے مل جائے گا؟ جب کہ قرآن کریم میں 1400 سو سال قبل مسلم امّت کی توجہ معاصر کے اعتبار سے تیاریاں کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ ارشاد خداوندی ہے ۔وَاَعِدّْوْا لَہْمْ مَّا اسْتَطَعتْم مِّن قُوَّۃٍوَّ مِنْ رِّبَاطِ الخَیلِ تْرْھِبُونَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِن دُونِہِم لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ اَللّہُ یَعْلَمُہُمْ ( اورتم جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو، اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کروگے جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔(انفال آیت: 60)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024