سرحد پر چین کی مستقل مداخلت، مودی کی خاموشی تشویشناک: کانگریس
نئی دہلی، دسمبر 3: کانگریس نے کہا کہ چینی فوج ہندوستانی علاقے کے اندر مستقل شیلٹر بنا کر ملک کی سالمیت کو چیلنج کر رہی ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اس معاملے پر خاموش ہیں اور ان کی خاموشی تشویشناک ہے۔
ہفتہ کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینتے نے کہا کہ چینی فوج نے سرحد پر ڈیپسانگ اور ڈیم چوک میں مستقل مراکز قائم کر رکھے ہیں لیکن حکومت انہیں بے دخل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی لداخ میں دراندازی کو مستقل کرنے کی کوشش میں چین نے ڈیپسانگ میں 200 مستقل پناہ گاہیں قائم کی ہیں اور یہ تمام پناہ گاہیں ایل اے سی کے 15-18 کلومیٹر کے اندر بنائی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کی اس دراندازی کے حوالے سے جو سیٹلائٹ تصاویر سامنے آئی ہیں ان میں صاف نظر آرہا ہے کہ اس نے سرحد پر پل، ریڈوم، مائیکرو ویو ٹاور وغیرہ قائم کر رکھے ہیں۔ ڈیپسانگ کا علاقہ اہم ہے اور یہیں سے سیاچن میں تعینات فوجیوں کا ضروری سامان سپلائی کیا جاتا ہے اور یہاں سے ٹینک آتے رہتے ہیں۔
ترجمان نے کہا، “مودی حکومت چین کی دراندازی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسٹر مودی نے 15 نومبر کو انڈونیشیا کے دارالحکومت بالی میں چینی صدر شی جن پنگ سے مصافحہ کیا اور 18 دن بعد اطلاعات کے مطابق شمالی لداخ کے ڈیپسانگ علاقے میں چین کی دراندازی برقرار ہے اور وہ ہماری سرزمین پر 200 پناہ گاہیں بنا چکا ہے اور چین ڈیپسانگ میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ چین اس علاقے میں اپنی مداخلت اور تجاوزات کو مستقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’یہ ہماری سرزمین ہے اور یہاں چین کی موجودگی ہماری علاقائی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ پناہ گاہیں فوجیوں کو سردی سے بچانے کے لیے بنائی گئی ہیں اور اسی طرح کے شیلٹرز سیاچن گلیشیئر میں بھی ہندستانی فوج لگاتی رہی ہے، تاکہ فوجی ہڈیوں کو ٹھٹھرا دینے والی سردی میں ایک جگہ آرام سے رہ سکیں کیونکہ ان شیلٹرز کے درجہ حرارت کو اپنے موافق بنایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو بتانا چاہیے کہ وہ چین کی ان حرکات پر خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے۔