مغربی بنگال میں آباد ہے ایک چھوٹا سا ‘چین’
رہن سہن سے پوری طرح جھلکتی ہے چینی تہذیب لیکن ’پھر بھی دل ہے ہندوستانی ‘
افروز عالم ساحل
جب آپ مغربی بنگال کے ٹنگرا علاقے میں داخل ہوں گے تو یہاں کی دیواروں کے کتبوں کو دیکھ کر چین کے کسی گاؤں یا شہر میں ہونے کا گمان کریں گے۔ یہاں دیواروں پرآویزاں سرخ بتیاں، ریسٹورینٹ، قبرستان یا مذہبی مقامات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ یہاں چینی تہذیب سے وابستہ ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ 40 سال کے ڈومینک کہتے ہیں کہ ہمارے دادا برٹش انڈیا کے دور میں بزنس کے سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ انہیں یہ ملک اتنا پسند آیا کہ وہ یہاں سے پھر کبھی لوٹ کر نہیں گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ میرے والد کی پیدائش اسی علاقے میں ہوئی تھی اور میری بھی پیدائش اسی کولکاتا شہر میں ہوئی ہے۔ ہمیں کبھی کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن کچھ برسوں سے ہماری پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی شہری ہونے کے باوجود محض چینی ناک نقشہ کی وجہ سے ہمیں کئی بار اپنے ہی ہندوستانی شہریوں کے ذریعے امتیازی سلوک کا شکار ہونا پڑا ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ ڈومینک اب سویڈش شہری ہیں۔ 16 سال پہلے وہ وہاں جاکر بس گئے لیکن ان کے والدین ابھی بھی کولکاتا کے ٹنگرا علاقے میں ہی رہتے ہیں جسے یہاں ’چائنا ٹاؤن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان سے ہی ملاقات کے لیے وہ لاک ڈاؤن سے پہلے انڈیا آئے تھے اور فی الحال وہ یہیں مقیم ہیں۔ ڈومینک ہندی، بنگلہ اور یہاں تک کہ بھوجپوری زبان بھی کافی بہت اچھی بولتے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں ڈومینک نے کہا کہ وہ 16 سال سے باہر ضرور ہیں لیکن انڈیا سے تعلق برقرار ہے۔ ان 16 سالوں میں چیزیں بہت بدل گئی ہیں۔
مغربی بنگال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں یہاں کے لوگوں کی دلچسپی پر بات کرتے ہوئے ڈومینک نے کہا کہ ہمارے لوگ سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ پوچھنے پر کہ آپ کو مودی پسند ہیں یا ممتا بنرجی؟ اس پر ڈومینک کہتے ہیں کہ اگر میں ایمانداری سے کہوں تو پہلے جیوتی باسو پسند تھے اور اب مجھے ممتا دیدی بیحد پسند ہیں۔ انہیں اور ان کے کام کو ہی ہم دیکھتے آئے ہیں۔ قریب 65 سال کے لیو سینگ چی کو بھی مودی بالکل پسند نہیں ہیں۔ وہ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں واضح طور پر کہتے ہیں، ’مجھے یہاں اب کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔
آپ کو بتا دیں کہ 1946 میں ان کے دادا انڈیا یہاں آئے تھے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ لیو کے پاس انڈیا کا پاسپورٹ اور شہری ہونے سے متعلق تمام دستاویز موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں انڈین شہری ہونے کا ہر فرض پورا کرتا ہوں، پوری پابندی کے ساتھ ٹیکس بھی ادا کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود ہم انڈیا میں کہیں بھی جاتے ہیں تو لوگ ہمیں انڈین کے بجائے چینی شہری سمجھتے ہیں۔ ہر سامان کا دام دُگنا مانگتے ہیں۔ حالانکہ لیو خود بھی یہاں بزنس کرتے ہیں۔ ان کا فرنیچر کا کارخانہ ہے جو اب بند ہونے کے قریب ہے۔
کوویڈ کے دور کی خاص پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کہنے والوں کو کون روک سکتا ہے۔ مگر ان کی پریشانیاں ان کی باتوں سے صاف جھلک رہی تھیں۔ ان کے ڈر کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب راقم الحروف ان کے ہی ایک پڑوسی کے ساتھ ان کے فلیٹ پر پہنچا تو دن کے وقت بھی ان کے دروازے پر قفل پڑا ہوا تھا اور ہمارے پہنچنے پر بھی قفل نہیں کھولا گیا بلکہ پوری بات چیت بند دروازے سے ہی ہوئی۔ ان کی بہو کہتی ہیں کہ ہم لوگ یہیں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں دفن ہوں گے۔ ہم چینی نہیں بلکہ ہندوستان کے شہری ہیں۔ اب یہاں حکومت جس پارٹی کی بھی رہے، اس سے ہمیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ ہندوستان کے حالات سے پوری طرح واقف ہیں اپنی طویل گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پہلے سی اے اے و این آر سی کے نام پر مسلمانوں پر حملہ کیا گیا اور اب کسانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چائنا ٹاؤن میں چینی نئے سال کا جشن
چین کا نیا سال اس بار 12 فروری کو کولکاتا کے اس چائنا ٹاؤن میں کافی دھوم دھام سے منایا گیا۔ یہاں کے Pei May Chinese High School میں دو روزہ کلچرل پروگرام و فوڈ فیسٹیول کا بھی انعقاد کیا گیا۔ حالانکہ کورونا کا اثر یہاں واضح طور پر نظر آیا۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے یہاں موجود چینی نژاد نوجوانوں سے گفتگو کی، اگرچہ یہاں زیادہ تر نوجوان میڈیا سے بات کرنے سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جب انہیں یقین دلایا گیا کہ ہم آپ کا نام اور تصویر شائع نہیں کریں گے تب ان نوجوانوں نے ان کو درپیش مسائل پر کھل کر اپنی رائے رکھی۔
ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہیں چینی نہ سمجھا جائے، ہم سب انڈین ہیں اور انڈین ہی رہنا چاہتے ہیں ہم یہاں کے شہری ہیں، ہندی میں بات کرتے ہیں، پھر بھی ہمیں انڈین نہیں مانا جاتا ہے۔ ایک نوجوان نے کہا کہ دیگر لوگوں کی طرح ہم بھی کورونا سے ڈرے ہوئے تھے، لیکن ہمارا دوسرا ڈر یہ تھاکہ یہاں کے لوگ ہم سے ڈرے ہوئے تھے، وہ ہمیں ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ہم ہی کورونا وائرس ہیں۔ اس نوجوان کے بعد تو سب نے اپنی اپنی کہانیاں سنانی شروع کیں۔ ان کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کا گھر سے نکلنا بے حد مشکل ہو گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں راہ چلتے لوگوں کی نہ صرف گالیاں، بلکہ پتھر بھی سہنے پڑے۔ اس سے پہلے انہوں نے کبھی اپنی شکل وصورت کی وجہ سے اس طرح کی تفریق کا سامنا نہیں کیا تھا۔ لوگ انہیں کورونا کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ انہی میں سے ایک نوجوان نے بتایا کہ ’ہم نے ان حالات کا برا نہیں مانا ہمارا رویہ کسی کے لئے بھی خراب نہیں رہا بلکہ ہمیں کوئی ضرورتمند نظر آیا تو ہم نے اس کی مدد بھی کی۔ لیکن کچھ لوگوں نے ہمارے بارے میں اتنا خوف پھیلا دیا تھا کہ لوگ ہم سے مدد لینے کو بھی تیار نہیں تھے۔ پھر بھی ہم نے انسانیت کی خدمت کا کام جاری رکھا لوگوں میں اپنے متعلق بے یقینی کی کیفیت کو دورکرنے کی پوری کوشش کی۔
یہ کوشش کس طرح سے کی؟ اس سوال پر ایک خاتون کہتی ہیں کہ ہم میں سے کئی نوجوانوں نے اپنے ٹی شرٹ پر یہ پیغام چھپوایا کہ ’میں کورونا وائرس نہیں ہوں، میری پیدائش اسی کولکاتا شہر میں ہوئی ہے اور میں کبھی چین نہیں گئی۔‘ ان نوجوانوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے پہلے اسی اسکول کیمپس میں ہمارے اس جشن میں تقریباً پورے کولکاتا کے لوگ شامل ہوتے تھے، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا اور ہمیں اب بھی ڈر ہے کہ یہاں بھی سماج دشمن عناصر آکر ہنگامہ نہ کھڑا کر دیں۔
چینی نژاد لوگوں میں سیاسی ماحول کے بارے میں سوال پوچھنے پر یہ نوجوان بتاتے ہیں کہ سال 2019 میں ممتا بنرجی کی پارٹی نے یہاں کے دیواروں پر چینی زبان میں اپنی انتخابی تشہیر کی تھی، تب بی جے پی نے اسے اتنا بڑا ایشو بنا دیا کہ یہاں کے مقامی لیڈروں نے اسے مٹا کر ہی دم لیا۔ ہماری سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ زبان سے کس کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے۔
الہ آباد کے رہنے والے 60 سال کے جے پی شکلا کہتے ہیں کہ ’اب ہندوستان اور چین کے بدلتے رشتوں کی وجہ سے یہاں حالات کافی بدل گئے ہیں۔ ان چینی نژاد لوگوں کے دلوں میں کافی ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ اپنا نیا سال کافی دھوم دھام سے مناتے تھے، لیکن اس بار اس کا ایک فیصد بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔‘ مسٹر شکلا ایک چینی نژاد مالک کی لیدر فیکٹری کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور گزشتہ 15 سالوں سے اسی چائنا ٹاؤن علاقے میں رہ رہے ہیں۔
کتنی ہے ان کی آبادی؟
کولکاتا کے اس چائنا ٹاؤن علاقے میں چینی لوگوں کی کتنی آبادی ہے؟ اس سوال پر ڈومینک کہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے چین کے نہیں، بلکہ انڈیا کے شہری ہیں۔ یہ سب یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دادا-پردادا کا تعلق چین سے ضرور تھا، لیکن انہوں نے وہاں سب کچھ چھوڑ کر یہاں رہنا زیادہ پسند کیا۔
ڈومینک کا ماننا ہے کہ یہاں کے شہری ہونے کے باوجود ملک کے بدلتے حالات میں چینی نژاد لوگوں کی تعداد کافی کم ہوئی ہے۔ کافی سارے لوگ دوسرے ملکوں کو چلے گئے ہیں۔ کولکاتا میں بھی جب ٹینری و دیگر فیکٹریوں کو حکومت نے بان تلہ علاقے میں شفٹ کیا تو ہماری بھی کچھ آبادی وہاں شفٹ ہوگئی اور کچھ لوگ یہاں کام نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے دوسرے شہروں میں بھی منتقل ہوئے ہیں۔
منتقل ہونے والوں میں 73 سال کے پی لیون بھی ہیں۔ لیون اب ہریانہ کے شہر گڑگاؤں میں رہتے ہیں۔ لیکن ان کے خاندان کے کچھ ارکان ابھی بھی اس چائنا ٹاؤن میں قیام پذیر ہیں۔ مسٹر لیون چینی نئے سال کا جشن منانے کے لئے کولکاتا آئے ہوئے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں کہتے ہیں کہ یہاں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن اب یہاں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع کافی کم ہوئے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے یہاں کے شہری ہونے کے باوجود ہمیں کوئی سرکاری نوکری نہیں ملتی۔ اس لئے نوجوانوں کو باہر جانا پڑ رہا ہے۔ میری بیٹی کی نوکری گڑگاؤں میں لگی تو مجھے وہاں جانا پڑا۔ گڑگاؤں میں ہمارے سماج کے کافی لوگ ہیں۔ ہم لوگ وہاں ہندی ہی بولتے ہیں۔ اگر اعداد و شمار کی بات کریں تو 1951 کی مردم شماری میں کولکاتا میں چینی نژاد لوگوں کی تعداد 5710 بتائی گئی تھی۔ اس کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا، لیکن ایک رپورٹ کے مطابق 1991 کے بعد کی مردم شماری میں حکومت نے ان کی تعداد بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ ڈومینک کے مطابق اس وقت کولکاتا میں چینی نژاد لوگوں کی تعداد 3 ہزار کے آس پاس ہے۔
چائنیز کالی مندر، چرچ اور بودھ ٹیمپل
کولکاتا کے اس چائنا ٹاؤن علاقے میں چائنیز کالی مندر کے ساتھ ساتھ چرچ بھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چائنیز کالی مندر میں چڑھاوے کے طور پر لوگ نوڈل چڑھاتے ہیں۔ سال 1998 میں یہاں بودھ ٹیمپل بھی قائم ہوا، اس میں یہاں کے رکن اسمبلی اقبال احمد کا کافی اہم رول رہا۔ اسی علاقے میں رہنے والے ایلین کرسٹوفر ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتاتے ہیں کہ وہ چین میں تقریباً آٹھ سال تک رہے ہیں۔ وہاں کے زیادہ تر لوگ عموماً کسی بھی دھرم کو نہیں مانتے۔ میں نے چین کے کسی بھی شہر میں کسی چائنیز کالی ماتا کی مندر نہیں دیکھی ہے۔ دراصل یہاں انڈیا کا اثر ہے، حالانکہ یہاں بھی چینی نژاد لوگوں کو اس سے کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔
یہاں چینی نژاد لوگوں کا الگ قبرستان بھی ہے۔ ان قبروں کا سائز کافی چھوٹا ہے۔ اس بارے میں بات کرنے پر لیو سینگ چی بتاتے ہیں کہ ہم میں سے چاہے کسی مذہب کو مانے لیکن موت کے بعد زیادہ تر لوگ پہلے دفن کئے جاتے ہیں اور پانچ سال بعد ان قبروں سے ان کی ہڈیاں نکالی جاتی ہیں انہیں صاف کر کے سیسیے یا ماربل کے برتن میں رکھ کر دوبارہ مٹی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب یہی ان کی قبر ہوتی ہے۔
یہاں بڑی تعداد میں ہیں چائنیز ریسٹورنٹ
اس علاقے میں چائنیز ریسٹورنٹس کی ایک بڑی تعداد ہے اور پورے کولکاتا کے لوگ چائنیز ذائقے کا لطف لینے یہاں آتے ہیں۔ حالانکہ چین میں کورونا پھیلنے کے ساتھ ہی یہاں کے حالات پوری طرح سے بدل گئے ہیں۔ لاک ڈاؤن میں بند ہوئے کئی ریسٹورنٹس ابھی تک کھل نہیں سکے ہیں۔ کھانے والوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔
40 سال کے یانگ چی بتاتے ہیں کہ کبھی یہاں دیر رات گئے تک رونق رہتی تھی، لیکن اب یہاں سب کچھ پھیکا پڑ گیا ہے۔ کورونا نے سب کچھ بدل ڈالا ہے۔ یہاں حالات نوٹ بندی کے بعد سے ہی بگڑنے لگے تھے۔ رہی سہی کسر جی ایس ٹی نے پوری کر دی۔ اب کسی کو نہیں معلوم کہ یہاں کے حالات کب بہتر ہوں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں بدلتے حالات میں یہاں کے نوجوان اب یہاں رہنا پسند نہیں کر رہے ہیں۔ سب دیگر ممالک کا رخ کرنے کی سوچنے لگے ہیں۔ قریب 50 فیصد آبادی یہاں سے دوسرے ملکوں کا رخ کر چکی ہے۔
ایلین کرسٹوفر کہتے ہیں کہ ہمارے علاقوں میں جن کھانوں کو چائنیز کہہ کر پیش کیا جاتا ہے اس کا تعلق چین سے بالکل بھی نہیں ہے۔ وہاں میں نے ایسا کھانا کسی بھی شہر میں نہ دیکھا اور نہ کھایا ہے۔ یہاں کچھ ریسٹورنٹس ہیں چین کے لوگ چلا رہے ہیں اور ان کے کچھ کھانے چینی کھانوں کی طرح ہیں۔
کیا ہے اس چائنا ٹاؤن کی تاریخ؟
چین اور کولکاتا کا رشتہ کافی پرانا ہے۔ قدیم زمانے سے ہی ان میں گہرا ربط رہا ہے۔ متعدد چینی مسافر، ماہر تعلیم، سفارتکار، بودھ بھکشو اور تاجر بنگال آتے رہے ہیں۔ حالانکہ کچھ سال یہاں رہنے کے بعد وہ واپس اپنے آبائی وطن لوٹ گئے۔ لیکن سب سے پہلے 1781 میں جو مسافر یہاں آئے تھے وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے اور اس کے بعد بہت سارے چینی شہریوں نے ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور بیشتر لوگوں نے یہاں بسنے کو ترجیح دی۔ یہ سلسلہ 1962 تک بدستور چلتا رہا۔ 1962 میں ہندوستان اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کے بعد کولکاتہ میں چینی ہجرت پر مکمل پابندی لگی اور یہاں سے بہت سے چینیوں نے کینیڈا، آسٹریلیا، امریکہ وغیرہ کی طرف دوبارہ ہجرت کی۔ شروع میں چین سے آئے ہوئے لوگوں نے بندرگاہ کولکاتا میں مزدوروں کے طور پر کام شروع کیا تھا۔ آگے چل کر ان لوگوں نے ڈینٹسٹ، چمڑے اور سلک کی تجارت شروع کی۔ کئی چینیوں نے اسی چائنا ٹاؤن میں چمڑے کے کارخانے (ٹینریز) بھی کھول لی تھیں لیکن اب دھیرے دھیرے یہ کارخانے بھی بند ہونے لگے ہیں۔
***
ایلین کرسٹوفر بتاتے ہیں کہ وہ چین میں تقریباً آٹھ سال تک رہے ہیں۔ وہاں کے زیادہ تر لوگ عموماً کسی بھی دھرم کو نہیں مانتے۔ میں نے چین کے کسی بھی شہر میں کسی چائنیز کالی ماتا کی مندر نہیں دیکھی ہے۔ دراصل یہ انڈیا کی تہذیب کا اثر ہے، حالانکہ یہاں بھی چینی نژاد لوگوں کو اس سے کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021