چوتھی پاس راجہ تیسری فیل وزیر
اروند کیجریوال کی سنائی گئی ڈرامائی کہانی کا گیارہ ماہ بعد نتیجہ
ڈاکٹر سلیم خان
مہنگائی اور بدعنوانی جیسے مسائل کے حل کے لیے حکم راں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری
اروند کیجریوال نے اپنی گرفتاری سے ٹھیک گیارہ ماہ قبل دہلی کے ایوان اسمبلی میں ایک یادگار تقریر کی تھی جس کو ایک کروڑلوگوں نے توعام آدمی پارٹی کے یو ٹیوب چینل پر دیکھا اور دوسرے چینلس پر دیکھنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ نے در اصل ’چوتھی پاس راجہ ‘ کے عنوان سے ایک کہانی سنائی تھی۔ اس میں کہیں بھی مودی یا کیجریوال کا نام نہیں لیا گیا تھا مگر ساری دنیا سمجھ گئی کہ کب کس کاذکر ہورہا ہے۔ اس تقریرکے بعدغالباً کیجریوال کی گرفتاری کا فیصلہ ہوگیا ہوگا اب صرف موقع کا انتظار تھا جو گیارہ ماہ کے بعد آیا اور چوتھی پاس راجہ نے اپنے تیسری فیل سپہ سالار کے مشورے پر ا سے عملی جامہ پہنا دیا ۔ اس کی وجہ وزیر اعظم کے اندر انتخابی کامیابی کے حوالے سے خود اعتمادی کا فقدان ہے۔ان کو اپنی شکست نظر آنے لگی ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ اگر ہار گئے تو لوگ کہیں گے چھپن انچ کی چھاتی اس وقت کہاں چلی گئی تھی جب ان کی ناک کے نیچے ایک وزیر اعلیٰ کھلے عام توہین کررہا تھا ؟ اس سوال نے شاید جب انہیں بہت ستایا تو انہوں نے وزیر اعلیٰ پر ہاتھ ڈال دیا اور وہ راتوں رات ہیرو بن گئے۔ اس طرح ثابت ہوگیا کہ کہانی کا ’چوتھی پاس راجہ ‘ کون ہے؟
یہ متنازعہ فسانہ بہت پرانا ہے ۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے 2014 کے انتخابات سے قبل اپنے حلف نامہ میں لکھا تھا کہ انہوں نے سن 1978 میں دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور 1983 میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اروند کیجریوال نے اس بابت وضاحت کی درخواست کی تو گجرات یونیورسٹی نے نریندر مودی کے ایم اے سندیافتہ ہونے کی تائید کردی ۔ اس کے برعکس دہلی یونیورسٹی نے بی اے کی ڈگری سے متعلق خاموشی اختیار کرلی۔ اب سوال یہ پیدا ہوگیا کہ بی اے کے بغیر ایم اے کیسے ہوگیا خیر مودی ہے تو ممکن ہے۔ مئی 2016 میں عام آدمی پارٹی نے یہ دعویٰ کرکے ہنگامہ مچا دیا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کے پاس بی اے کی جعلی ڈگری ہے۔ عآپ کا الزام تھا کہ نہ تو وزیراعظم نے دہلی یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور نہ ڈگری لی ۔ اس سنگین الزام پر وزیراعظم کے دفتر کوسانپ سونگھ گیا اس نےاس معاملے میں چپی سادھ لی ۔
اروند کیجریوال کی جانب سے درخواست کے جواب میں سنٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے وزیر اعظم کے دفتر کے ساتھ دلی اور گجرات یونیورسٹیوں کو مودی کی ڈگریاں فراہم کرنے کا حکم دےدیا ۔ اس کے بعد گجرات یونیورسٹی نے فوری طور پر وزیر اعظم مودی کی ڈگری اپنی ویب سائٹ پر ڈال دی، لیکن ساتھ ہی انفارمیشن کمیشن کے حکم کو اصولی طور پر چیلنج بھی کردیا۔ حکم راں جماعت کے آنجہانی وزیرخزانہ ارون جیٹلی اور امیت شاہ نے بھی ڈگری کی نقول پریس کانفرنس میں شیئر کرکے دعویٰ کردیاکہ وزیر اعظم کے پاس دہلی یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی اور گجرات یونیورسٹی سےانٹائر پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگریاں ہیں۔ اروند کیجریوال نے ان دستاویزات میں موجود ’واضح تضادات‘ کو اجاگر کیا کیونکہ انٹائر پولیٹیکل سائنس نام کا کوئی سبجیکٹ ہی پڑھایا نہیں جاتا اور ڈگری میں استعمال ہونے والے فونٹس ڈگری پر ثبت شدہ تاریخ تک ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح جھوٹ کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹ گئی ۔
اس معاملے میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مصداق گجرات یونیورسٹی نے چیف انفارمیشن کمشنر کی ڈگری شیئر کرنے والے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی دلیل یہ تھی کہ ہر شخص خودتو اپنی سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کر سکتا ہے، لیکن کوئی تیسرا شخص ڈگری نہیں مانگ سکتا جبکہ وہ پبلک ڈومین میں ہو۔ اس معاملہ کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ گجرات یونیورسٹی کو اعتراض تو سی آئی سی پر تھا مگر گجرات کی ہائی کورٹ نے دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو نریندر مودی کی ڈگری کی تفصیلات مانگنے پر 25,000 روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ وزیر اعظم کو کسی بھی بڑے عوامی مفاد کی عدم موجودگی میں اپنی تعلیمی ڈگریاں دکھانے کے معاملے میں آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8 (1) (ای) اور (جے) کی شقوں کے تحت انکشاف سے استثنیٰ حاصل ہے۔
معروف سماجی کارکن اور وکیل پرشانت بھوشن نے گجرات عدالت کے فیصلے پر لکھا تھا : ’لاجواب! گجرات ہائی کورٹ نے پی ایم او اور یونیورسٹیوں وغیرہ کو ’انٹائر پولیٹیکل سائنس‘ میں مودی کی ڈگری کی کاپیاں پیش کرنے کے لیے سی آئی سی کے حکم کو برطرف کر دیا۔کچھ جج آر ٹی آئی قانون کی اے بی سی نہیں جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام امیدواروں کو اپنی ڈگریاں ظاہر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
کیا وزیراعظم پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔‘پرشانت بھوشن نے یہ بھی لکھا تھا ، ’غیر تعلیم یافتہ ہونا کوئی جرم نہیں اور نہ ہی یہ کوئی شرم کی بات ہے۔ لیکن حلف نامہ دے کر جھوٹ بولنا کہ میں نے بی اے اور ایم اے مکمل سیاسیات میں کیا ہے ، یقیناً ایک جرم ہے۔ اس کے بعد اپنی مبینہ ڈگری کو ملک کے عوام سے چھپانا بڑی شرم کی بات ہے۔‘ ایک رکنی بنچ کے جسٹس ویشنونے دورانِ سماعت کہا تھا کہ ’اروند کیجریوال کا آر ٹی آئی کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعلیمی ڈگری حاصل کرنے پر اصرار ان کی دیانت داری اور مقصد کے متعلق شک پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ (ڈگریاں) پہلے سے ہی عوامی ڈومین میں ہیں۔‘
عدالت نے تو اروند کیجریوال کی نیت کو کھنگالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی مگر اس فیصلے پر خودانہوں نے ٹویٹ کرکے پوچھ لیا تھا کہ ’کیا ملک کو یہ جاننے کا حق نہیں ہےکہ وزیر اعظم کتنے پڑھے ہوئے ہیں؟عدالت میں ڈگری دکھائے جانے کی پرزور مخالفت کیوں کی گئی اور ان کی ڈگری دیکھنے کا مطالبہ کرنے والے پر جرمانہ لگا دیا گیا یہ کیا ہو رہا ہے؟ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے وزیر اعظم ملک کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔‘ اس تبصرے پر گجرات یونیورسٹی نے اروند کیجریوال کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرکے کہا کہ انہوں نے یونیورسٹی کی شبیہ بگاڑی ہے۔ یہ وہی یونیورسٹی ہے جس کا نام روشن کرنے کے لیے کچھ ہندتوا نواز دہشت گردوں نے نماز پڑھنے والے غیر ملکی طلباء پر حملہ کردیا۔ اس حملے کو بلا واسطہ جائز ٹھیراتے ہوئے وائس چانسلر نےمظلوم طلباءکے لیے تربیت پر زور دے کر حملہ آور وں کو کلین چٹ دے دی۔ ایسے میں کیجریوال کو اسے بدنام کرنے کی کیا ضرورت ؟ گجرات کا ڈنکا تو ویسے بھی پوری دنیا میں بجتا ہے۔
اروند کیجریوال نے جو’چوتھی پاس راجہ ‘ کی کہانی سنائی اس کے پس منظر کوسمجھنے کے لیے یہ طویل تمہید ضروری ہے۔ کہانی کے اندر راجہ کا شخصی تعارف اس طرح کرایا گیا تھا کہ ’وہ بہت مغرور اور بدعنوان تھا‘۔کیجریوال نے جب کہا کہ ’ میری کہانی میں کوئی ملکہ نہیں۔ وہاں صرف بادشاہ ہے‘ تو لوگ سمجھ گئے اشارہ کہاں ہے لیکن جب وہ بولے ’ اسے پڑھائی میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ اس نے چوتھی کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ وہ گاؤں کے قریب ریلوے اسٹیشن پر گھر کا خرچہ چلانے کے لیے چائے بیچتا تھا۔ اس لڑکے کو تقریریں کرنے کا بہت شوق تھا اور وہ کسی بھی مسئلے پر ایک بار بولنا شروع کرتا تورکتا ہی نہیں تھا ۔ وہ لڑکا بڑا ہوکر ایک عظیم ملک کا چوتھی پاس راجہ بن گیا‘‘ تو سب لوگ سمجھ گئے کہ کس کی بات ہورہی ہے۔ اس کے بعد تفصیل کے ساتھ کیجریوال نےچوتھی پاس راجہ کی جعلی ڈگری کا قضیہ بیان کرنے کے بعد کہاتھا کہ ’’ ایک دن کچھ لوگ چوتھی پاس بادشاہ کے پاس گئے اور بولے نوٹ بندی سے کرپشن اور دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ راجہ نے رات 8 بجے ٹی وی پر آکر نوٹ بندی کا اعلان کردیا ۔اس کی وجہ سے دہشت گردی توختم نہیں ہوئی اورنہ کرپشن ختم ہوا مگر وہ عظیم ملک تباہ ہو کر 10-20 سال پیچھے چلا گیا۔
وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ پھر ایک دن کچھ لوگ چوتھی پاس بادشاہ کے پاس گئے اور کہا کہ یہ کسان قانون پاس کرو، کھیتی بہت بڑی ہو جائے گی۔ ان پڑھ بادشاہ کو کوئی عقل نہ تھی، اس نے دستخط کر کے کسانوں کے تین کالے قانون پاس کر دیے ۔ ملک بھر سے کسان سڑکوں پر آگئے۔ ایک سال کے احتجاج میں 750 سے زیادہ کسانوں کی موت ہو گئی۔ آخر کار بادشاہ کو تینوں کالے قوانین واپس لینے پڑے‘‘۔ اس کے بعد یہ حملہ ذاتی نوعیت کا ہوگیا اورکیجریوال بولے’ ایک دن بادشاہ کو لگا کہ پتہ نہیں کتنے دن بادشاہ رہے گا ۔ اس نے اپنی زندگی غربت میں گزاری تھی۔ اسے لگا کہ پیسہ کمانا چاہیے۔ پیسہ کیسے کمایا جائے۔ میں پیسے کماؤں گا تو عوام میں امیج خراب ہوجائے گی۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو بلایا۔ اس نےدوست سے کہا کہ میں بادشاہ ہوں، میں تم کو تمام سرکاری ٹھیکے دوں گا۔ نام تمہارا ہو گا اور پیسہ میرا ہوگا۔ تم کو تمام رقم پر 10% کمیشن ملے گا۔ دوست نے اتفاق کیا۔ اس کے بعد دونوں نے مل کر ملک کو خوب لوٹا‘‘ اس کے بعد کہانی میں بنکوں کو لوٹنے کا طریقۂ کار تفصیل سے بیان کیا گیا تھا ۔
اروند کیجریوال آگے کہتے ہیں ’ بینکوں کو لوٹنے کے بعد راجہ اور ان کے دوست نے ملک خریدنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے اس نے ملک کے چھ ہوائی اڈے خریدے۔ پھر بجلی کمپنیوں کو خرید کر پورے ملک میں بجلی کی قیمتیں بڑھا دیں اور پولیس بھیج کر پرائیویٹ کمپنی مالکان سے ان کی کمپنیاں بھی چھین لی گئیں‘‘۔چوتھی پاس راجہ کی اندھیر نگری میں چوپٹ راج کی تصویر کشی کیجریوال نے اس طرح کی تھی ’’ پورے ملک میں مہنگائی کا راج تھا۔ پہلے ایل پی جی کی قیمت 400 روپے فی سلینڈر تھی۔ لیکن چوتھی پاس راجہ کے آنے کے بعد یہ 1100 روپے ہو گیا۔ پہلے پٹرول کی قیمت 71 روپے فی لیٹر تھی، اس کے بعد97 روپے فی لیٹر ہو گیا۔ پہلے ڈیزل کی قیمت 57 روپے فی لیٹر تھی جو 90 روپے ہو گئی ۔ دودھ پہلے 46 روپے فی لیٹر تھا جو 66 روپے ہو گیا ۔ اس بادشاہ نے چھوٹے بچوں کا دودھ چھین لیا۔ سرسوں کا تیل 90 روپے فی لیٹر تھا جو 214 روپے ہو گیا ‘‘۔
اختتام کے قریب کہانی کا منظر بدلتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں ’’ لوگ بادشاہ کے خلاف آواز اٹھانے لگے تو اس نے کہا کہ جو میرے خلاف بولے گا میں اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دوں گا۔ اگر کسی نے بادشاہ کا کارٹون بنایا تو اسے بھی جیل بھیج دیا گیا۔اگر کسی نے بادشاہ کا نام غلط لیا تووہ بھی جیل چلا گیا۔ ایک ٹی وی چینل کے مالک نے بادشاہ کے خلاف لکھا تو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایک جج نے بادشاہ کے خلاف حکم صادر کیا تو اسے بھی جیل جانا پڑا۔ ججوں، صحافیوں، تاجروں، صنعت کاروں میں سے راجہ نے کسی کو نہیں بخشا اور ایک عظیم ملک کہاں پہنچ گیا۔‘‘ اس کہانی میں اب ایک نیا موڑ آتا ہے ۔اروند کیجریوال نے کہا تھا ’’ اس ملک کے اندر ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ اس ریاست کا وزیر اعلیٰ اپنے لوگوں کا بہت خیال رکھتا تھا ۔ وہ کٹر ایماندار، محب وطن ا ور تعلیم یافتہ تھا‘‘۔
آگے چل کر اروند کیجریوال نے اس وزیر اعلیٰ کے کارنامے بیان کرتے ہوئے کہاتھا’’ اس نے اپنے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے بجلی مفت کر دی۔ اس کے بعد چوتھی پاس راجہ دیوانہ ہو گیا۔ اس نے وزیر اعلیٰ کو بلا کر کہا ، تمہاری ہمت کیسے ہوئی بجلی مفت کرنے کی؟ بادشاہ نے تمام پاور کمپنیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسے لگا کہ اگر یہ وزیر اعلیٰ بجلی مفت کرنے لگے تو میرا بوریا بستر گول ہوجائے گا۔ میری پاور کمپنیاں لُٹ جائیں گی۔ بادشاہ نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ خبردار،وزیر اعلیٰ نے اتفاق نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ نے غریب کے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے لیے سرکاری اسکولوں کی مرمت شروع کر دی۔ چوتھی پاس راجہ نے اسکول کی مرمت کا کام روکنے کے لیے کہا، لیکن وزیر اعلیٰ نے اتفاق نہیں کیا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے مفت علاج کے لیے محلہ کلینک کھولے تووہ بالکل دیوانہ سا ہو گیا‘‘۔اب کہانی اپنے کلائمکس میں داخل ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے’’ آہستہ آہستہ عوام کو پتہ چلا کہ بادشاہ کیسا ہے؟ ایک دن لوگوں نے اس کو اکھاڑ پھینک دیا اور ایک ایمان دار اور محب وطن آدمی کو وہاں بٹھا دیا۔ اس کے بعد ملک سے مہنگائی ختم ہوئی اور ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا‘‘۔
وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی بیان کردہ کہانی اس بات کی ترغیب دینے والی تھی کہ اگر آپ کے ملک میں مہنگائی سمیت دیگربہت سے مسائل ہوں اور سب کچھ غلط ہو رہا ہو تو سب سے پہلے یہ چیک کریں کہ کہیں آپ کا بادشاہ ناخواندہ تو نہیں ہے۔ اگر ملک کو بے روزگاری جیسے مسائل نے گھیر رکھا ہو تو دیکھیں کہ کہیں آپ کے راجہ کا کوئی دوست تو نہیں ہے۔ اگر ہے تو پہلے اپنے بادشاہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو ورنہ مسائل کا کوئی حل نہیں ہو گا۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بہت سوچ سمجھ کر یہ کہانی سنانے کے لیے دہلی کے ایوان کا خصوصی اجلاس طلب کیا تھا اس لیے کہ وہاں من کی بات کھل کر بولنےپر آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ حزب اختلاف شور شرابہ کرکے بھی اسے روک نہیں سکتا اور نہ مائک کو بند کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں بیٹھااسپیکر بھی جھاڑو بردار ہے۔ یہ خطاب اگر باہر کیا جاتا تو اروند کیجریوال گھر نہیں جیل جاتے لیکن بالآخر انہیں پابند سلاسل ہونا ہی پڑا ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال عام آدمی پارٹی ’انڈیا‘ نامی وفاق کا حصہ ہے۔ اس لیے کیجریوال کو حزب اختلاف کے تقریباً تمام قائدین کی حمایت حاصل ہوگئی اور ان کے حق میں بیانات کا تانتا بندھ گیا کیونکہ گرفتاری کی تلوار توسبھی کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ مودی کی شدید خواہش ہے کہ پوتن اور شی جن پنگ کی مانند اکیلے انتخاب لڑ کرکم جونگ یا حسینہ واجد کی طرح کامیابی کا پرچم لہرا دیں ۔ ایسے میں راہل گاندھی کا ایکس میسیج قابل توجہ ہے کیونکہ اس میں محض گرفتاری کی مذمت کے ساتھ اس کے مقصد اور وجہ کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ انہوں نے لکھا ’’ڈرا ہوا آمر ، ایک مری ہوئی جمہوریت بنانا چاہتا ہے۔ میڈیا سمیت سبھی اداروں پر قبضہ، پارٹیوں کو توڑنا، کمپنیوں سے ہفتہ وصولی، اہم اپوزیشن پارٹی کا اکاؤنٹ فریز کرنا بھی ’اَسُری شکتی‘ (بری طاقت) کے لیے کم تھا، تو اب منتخب وزرائے اعلیٰ کی گرفتاری بھی عام بات ہو گئی‘‘۔ اس بیان میں کیا ہورہا ہے؟ اور کیوں ہورہا ہے ؟ ان دونوں سوالات کا جواب موجود ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام چوتھی پاس راجہ کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں ۔ اس کی پھر سے تاج پوشی کرتے ہیں یا سر سے تاج ہٹا دیتے ہیں ۔
***
یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال عام آدمی پارٹی ’انڈیا‘ نامی وفاق کا حصہ ہے۔ اس لیے کیجریوال کو حزب اختلاف کے تقریباً تمام قائدین کی حمایت حاصل ہوگئی اور ان کے حق میں بیانات کا تانتا بندھ گیا کیونکہ گرفتاری کی تلوار توسبھی کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ مودی جی کی شدید خواہش ہے کہ پوتن اور شی جن پنگ کی مانند اکیلے انتخاب لڑ کرکم جونگ یا حسینہ واجد کی طرح کامیابی کا پرچم لہرا دیں ۔ ایسے میں راہل گاندھی کا ایکس میسیج قابل توجہ ہے کیونکہ اس میں محض گرفتاری کی مذمت کے ساتھ اس کے مقصد اور وجہ کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ انہوں نے لکھا ’’ڈرا ہوا آمر ، ایک مری ہوئی جمہوریت بنانا چاہتا ہے۔ میڈیا سمیت سبھی اداروں پر قبضہ، پارٹیوں کو توڑنا، کمپنیوں سے ہفتہ وصولی، اہم اپوزیشن پارٹی کا اکاؤنٹ فریز کرنا بھی ’اَسُری شکتی‘ (بری طاقت) کے لیے کم تھا، تو اب منتخب وزرائے اعلیٰ کی گرفتاری بھی عام بات ہو گئی‘‘۔ اس بیان میں کیا ہورہا ہے؟ اور کیوں ہورہا ہے ؟ ان دونوں سوالات کا جواب موجود ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام چوتھی پاس راجہ کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں ۔ اس کی پھر سے تاجپوشی کرتے ہیں یا سر سے تاج ہٹا دیتے ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024