کیا حکومت ایک خاص برادری کے گھروں کو قانونی طریقۂ کار پر عمل کیے بغیر مسمار کررہی ہے؟، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے پوچھا
نئی دہلی، اگست 8: پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے پیر کو پوچھا کہ کیا ہریانہ کے تشدد سے متاثرہ اضلاع میں مسماری کی مہم ’’نسلی صفائی کی ایک مشق‘‘ تھی؟
ہائی کورٹ نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب اس نے نوح میں انہدام کی مہم پر روک لگا دی، جو گذشتہ ہفتے وہاں پھوٹنے والے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف کارروائی کے طور پر چلائی جا رہی تھی۔ عدالت نے میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور ہرپریت کور جیون کی ایک ڈویژن بنچ نے ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج کے حوالے سے ایک میڈیا رپورٹ کو نشان زد کیا جس میں وج نے کہا تھا کہ بلڈوزر کارروائی ’’علاج‘‘کا حصہ ہے، جب کہ حکومت فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات کر رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ اس کے نوٹس میں آیا ہے کہ ہریانہ حکومت ’’طاقت کا استعمال کر رہی ہے اور صرف اس وجہ سے عمارتوں کو گرا رہی ہے کہ گروگرام اور نوح میں کچھ فسادات ہوئے ہیں۔‘‘
بنچ نے مزید کہا ’’بظاہر بغیر کسی انہدام کے حکم اور نوٹس کے قانون کی طرف سے قائم کردہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر، امن و امان کے مسئلے کو عمارتوں کو گرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امن و امان کے مسئلہ کی آڑ میں کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی عمارتوں کو گرایا جا رہا ہے اور ریاست کی طرف سے نسلی صفائی کی مشق کی جا رہی ہے؟‘‘
عدالت نے کہا کہ آئین ملک کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر کوئی انہدامی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس نے ہریانہ حکومت سے کہا کہ وہ حلف نامہ داخل کرے جس میں بتایا جائے کہ نوح اور گروگرام میں گذشتہ دو ہفتوں میں کتنی عمارتیں منہدم کی گئیں۔
بنچ نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ بتائے کہ کیا انہدام سے پہلے کوئی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ اس نے کہا، ’’اگر آج اس طرح کی کوئی بھی مسماری کی جانی ہے، اگر قانون کے مطابق طریقہ کار پر عمل نہ کیا جائے تو اسے روک دیا جائے‘‘۔
کئی منہدم کی گئی عمارتوں کے مالکان نے کہا ہے کہ انھیں شہری حکام کی طرف سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔
تاہم نوح کے ڈپٹی کمشنر دھیریندر کھڈگتا نے کہا کہ اس سے قبل کئی بار مالکان کو نوٹس بھیجے گئے تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ مسماری ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب تشدد میں اس کے مالکان کے ملوث ہونے کے بارے میں شبہات ہیں۔