مرکزی حکومت نے 13 اضلاع کے عہدیداروں کو تین پڑوسی ممالک سے تعلق رکھنے والی ’’اقلیتی برادری‘‘ کے افراد کو شہریت دینے کا اختیار دیا
نئی دہلی، مئی 29: مرکزی وزارت داخلہ نے جمعہ کو گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے 13 اضلاع میں حکام کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اقلیتی برادری کے ممبروں کی شہریت کی درخواستوں کو قبول کرنے، توثیق اور منظوری کے اختیارات دینے کا ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
وزارت نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ ’’اقلیتی برادری‘‘ میں ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی شامل ہوں گے، جو تین پڑوسی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور مذکورہ بالا ریاستوں میں مقیم ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ نوٹیفکیشن شہریت ایکٹ 1955 کی موجودہ دفعات کے تحت جاری کیا گیا ہے، کیوں کہ ابھی تک شہریت ترمیمی قانون کے قواعد وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ دسمبر 2020 میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے قواعد وضع نہیں کیے جاسکتے ہیں اور ’’ویکسینیشن شروع ہونے اور کورونا سائیکل ٹوٹنے کے بعد‘‘ اس عمل پر ایک بار پھر غور کیا جائے گا۔
گجرات میں موربی، راجکوٹ، پٹن اور وڈوڈرا، چھتیس گڑھ میں درگ اور بلودا بازار، راجستھان میں جالور، اُدے پور، پالی، بارمر اور سروہی، ہریانہ میں فرید آباد اور پنجاب میں جالندھر کے ضلع کلکٹرز کو شہریت کی درخواستوں کی تصدیق کے عمل کو انجام دینے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔
اسی طرح کے اختیارات ہریانہ اور پنجاب کے ہوم سکریٹریز کو بھی دیے گئے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں متعلقہ ضلعی کلکٹر اور ہوم سکریٹری سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آن لائن رجسٹر کے ساتھ ساتھ اصل رجسٹر کو بھی برقرار رکھیں، جس میں ہندوستان کے شہری کی حیثیت سے اندراج شدہ شخص کی تفصیلات موجود ہوں اور اس عمل کے سات دن کے اندر مرکزی حکومت کو اس کی ایک کاپی پیش کریں۔
دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق سینٹر نے کچھ اضلاع کے سلسلے میں 2018 میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، اترپردیش اور دہلی کے کلکٹرز اور ہوم سکریٹریز کو بھی اسی طرح کے اختیارات دیے تھے۔
معلوم ہو کہ 11 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت ترمیمی قانون بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی چھ اقلیتی مذہبی جماعتوں کے مہاجرین کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ ہندوستان میں چھ سال تک رہے ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔ اس میں مسلمانوں کو چھوڑنے پر اس کی وسیع پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے اور ناقدین کا ماننا ہے کہ این آر سی کے ساتھ اس کا استعمال مسلمانوں کی شہریت اور ان کے حقوق چھیننے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔