لیفٹیننٹ گورنر کو ’’حکومت‘‘ قرار دینے والے نئے قانون کے خلاف درخواست پر دہلی ہائی کورٹ نے مرکز اور دہلی حکومت کو نوٹس بھیجا
نئی دہلی، مئی 24: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے روز لیفٹیننٹ گورنر کو مزید اختیارات دینے والے حال ہی میں نافذ کیے گئے قانون کو مسترد کرنے کی درخواست پر مرکز اور دہلی حکومت سے جواب طلب کیا، جس قانون میں لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل کو مؤثر طریقے سے قومی دارالحکومت میں ’’حکومت‘‘ قرار دیا گیاہے۔
چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس جیوتی سنگھ کے بنچ نے یہ نوٹس عام آدمی پارٹی کے ایک رکن نیرج شرما کے ذریعے دائر عرضی پر جاری کیا، جس میں دہلی ترمیمی ایکٹ 2021 کو غیر آئینی قرار دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
لائیو لاء کے مطابق شرما نے اپنی درخواست میں کہا کہ یہ قانون آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس کے آرٹیکل 14 (مساوات کا حق) اور 21 (زندگی کا حق اور ذاتی آزادی) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ترمیم نے سپریم کورٹ کے اس سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دہلی کی منتخب حکومت اپنے دائرۂ اختیار میں فیصلے لے سکتی ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کے بغیر ان پر عمل درآمد کرسکتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’دہلی کی منتخب حکومت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ وزرا کی کونسل کے فیصلوں سے متعلق تمام فائلوں کو لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجنا پڑے گا۔ اس سے حکومت کی خود مختار شکل پیدا ہوگی۔‘‘
درخواست میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ آئین میں لازمی وفاقی ڈھانچہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پارلیمنٹ کو دہلی اسمبلی کی طرح آزاد قانون ساز ایوان کے تعلق سے قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے تاکہ وہ اس کی کارروائی کو چلانے کے لیے اصول وضع کرے۔
معلوم ہو کہ نئی قانون سازی کے مطابق دہلی میں مرکزی حکومت کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ یہ قانون یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ جس قانون میں دہلی کے کام کو اہمیت حاصل ہے اس میں ’’حکومت‘‘ کی اصطلاح کا مطلب لیفٹیننٹ گورنر ہے نہ کہ منتخب حکومت۔ مزید برآں اس قانون سازی میں دہلی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی انتظامی اقدام اٹھانے سے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کی رائے لے۔
صدر رام ناتھ کووند نے حزب اختلاف کے سخت احتجاج کے دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظوری کے بعد 28 مارچ کو اس متنازعہ بل کو اپنی منظوری دے دی تھی، جس کے تعلق سے حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ مجوزہ اصلاحات ہندوستان کی جمہوریت کے وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہیں۔