مرکزی حکومت نے قطب مینار کی مغل مسجد میں نماز کی مخالفت کی
نئی دہلی، جولائی 26: مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں قطب مینار کمپلیکس میں موجود مغل مسجد میں نماز پڑھنے کے مطالبے کی مخالفت کی ہے۔ مرکز کی طرف سے پیش ہوئے ایڈووکیٹ کیرتیمان سنگھ نے دہلی ہائی کورٹ میں کہا کہ یہ مسجد ایک محفوظ یادگار ہے اور یہ معاملہ فی الحال ساکت عدالت میں زیر التوا ہے۔
تاہم وقف بورڈ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ساکت عدالت میں معاملہ قطب مینار کمپلیکس میں ہی دوسری مسجد قوۃ الاسلام کا ہے نہ کہ مغل مسجد کا۔ انھوں نے دلیل دی کہ مغل مسجد محفوظ یادگاروں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
نیوز 18 کی رپورٹ کے مطابق اس دوران انھوں نے کہا کہ نماز پڑھنے سے روکا جانا یک طرفہ، غیر قانونی اور من مانا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد مرکزی حکومت کے وکیل نے ہائی کورٹ سے بحث جاری رکھنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔ جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
قابل ذکر ہے کہ 15 مئی کو نماز پر پابندی کے فیصلے کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے چیلنج کیا تھا۔ وقف کی جانب سے ہائی کورٹ میں معاملے کی جلد سماعت کا ذکر بھی کیا گیا۔ کہا گیا تھا کہ مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا حکم جاری کیا گیا ہے لیکن اس سے قبل ہر روز نماز ادا کی جارہی تھی۔ اس دوران وقف کے وکیل نے کہا کہ قطب کمپلیکس میں واقع مسجد وقف کی ملکیت ہے، لیکن اے ایس آئی نے اچانک نماز پر پابندی لگا دی۔
غور طلب ہے کہ قطب مینار احاطے میں ہندو اور جین دیوتاؤں کی مورتیوں کی بحالی کے مطالبے کو لے کر کچھ دنوں سے جاری تنازعہ کے درمیان دہلی وقف بورڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ مسجد میں ہمیشہ نماز ہوتی رہی ہے لیکن اے ایس آئی نے اسے رکوا دیا۔ بورڈ نے دوبارہ مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی ہے۔