افروز عالم ساحل
میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مسجدوں میں سے ایک ’گرانڈ چملیجا مسجد‘ کے صحن میں کھڑا ہوں جسے موجودہ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بے شمار مخالفتوں کے باوجودقائم کیا ہے۔ یہ ترکی کی سب سے بڑی مسجد ہے اور استنبول میں سیاحوں کے لیے پرکشش مقامات میں سے ایک ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں جتنی مسجدیں دیکھی ہیں ان میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ آج کے دور میں بھی ایسی مسجد تعمیر کی جاسکتی ہے یہ سوچنا بھی ذرا مشکل سا لگتا ہے۔ اس مسجد کی خوبصورتی اور اس کے ساتھ جڑی باقی چیزوں کے بارے میں جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ آپ کو جان کر یقیناً خوشی ہوگی کہ اس مسجد کا ڈیزائن دو ترک خواتین آرکیٹیکٹس ’بہار میزراک‘ اور ’ ہائریئے گل توتو‘ نے تیار کیا تھا۔
استنبول کی سب سے اونچی پہاڑی ’چملیجا پہاڑی‘ پر بنی اس مسجد کے اندر پچیس ہزار سے زائد مسلمان کندھے سے کندھا ملا کر ایک ساتھ نماز ادا کر سکتے ہیں، حالانکہ مجموعی طور پر اس مسجد میں 63 ہزار سے زائد افراد کے ایک ساتھ نماز پڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔
آپ کو بتادیں کہ اس ’چملیجا پہاڑی‘ کو ’استنبول کی چھت‘ مانا جاتا ہے۔ سمندر کی سطح سے اس کی اونچائی 250 میٹر سے زائد ہے۔ جب میں مسجد کے باہر صحن میں کھڑا تھا تو سامنے کا نظارہ دیکھنے کے لائق تھا۔ جی چاہتا تھا کہ اسے بس یونہی دیکھتا رہوں۔ میرے سامنے آبنائے باسفورس کا جو قدرتی نظارہ تھا، ایسا دلکش نظارہ شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ ایک پل کے لیے میرے اندر کا فوٹوگرافر جاگ گیا اور سوچتا رہا کہ کاش! ایک بہترین کیمرہ میرے پاس بھی ہوتا۔ موبائل کیمرے سے فوٹو کھینچنا تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس خوبصورت قدرتی نظارے کی توہین کررہا ہوں۔
یہاں آکر ایسا لگا کہ یہ جگہ مجھے ابدیت اور موت دونوں کا احساس دلا رہی ہے۔ ایک طرف سامنے بہتا باسفورس ہمیں بہہ جانے کا احساس دلارہا ہے تو دوسری جانب اس اونچی پہاڑی پر بنی یہ مسجد رکنے اور مراقبہ کی یاد دلاتی ہے۔ انہی احساسوں کے درمیان میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ چھ سات سال پہلے جب یہاں یہ مسجد نہیں تھی، تو پھر کیا تھا؟ ریسرچ کرنے پر پتہ چلا کہ تب یہاں اس پہاڑی پر کچھ نہیں تھا، سوائے دیودار کے درخت کے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سورج کی روشنی زمین کی سطح تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔ دیودار کا یہ جنگل استنبول کے ابتدائی آبادکاروں کی کوششوں کا نتیجہ تھا اور قدیم رومن اور بازنطینی ادوار میں نمایاں تھا۔ عثمانی بادشاہوں نے اس علاقے کو موسم گرما میں سیرگاہ کے طور پر منتخب کر رکھا تھا۔ اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اسکودر میں واقع اس جگہ نے قسطنطیہ کی فتح کو دیکھا ہے اور اس کا گواہ رہا ہے۔
ماضی کی ان باتوں سے نکل کر میں پھر سے حال کے دور میں آچکا تھا۔ اور پھر سے مسجد اور یہاں کے خوبصورت نظاروں میں کھو گیا۔ اس مسجد کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ صدر ایردوان نے اس کے لیے کسی مذہبی نام کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اس کا نام اسی پہاڑی کے نام پر ’گرانڈ چملیجا مسجد‘ رکھ دیا۔ حالانکہ ایردوان کے ناقدین کا ماننا ہے کہ صدر ایردوان نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تاکہ مستقبل میں آنے والی نسلیں اسے ’ایردوان کی مسجد‘ کہیں اور انہیں اس مسجد کی وجہ سے یاد کیا جائے۔
آپ کو بتادیں کہ استنبول کے ایشیائی حصے میں واقع اس مسجد کا افتتاح صدر رجب طیب ایردوان نے 3 مئی 2019 کو نماز جمعہ ادا کرکے کیا۔ اس موقع سے صدر ایردوان نے دنیا کو امن کا پیغام دیا اور کہا کہ اب ہم ایک نازک موڑ پر ہیں جہاں ہمیں اسلامی امن کے پیغامات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع سے انہوں نے عالمی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اب واضح مؤقف اپنانے کی اپیل بھی کی۔ صدر ایردوان اس دور میں نیوزی لینڈ اور سری لنکا میں مذہبی مقامات پر ہوئے حالیہ حملوں کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ اس موقع سے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہماری قوم نے جہاں پوری تاریخ میں ہر میدان میں عظیم افسانے لکھے ہیں، وہیں اس نے فن تعمیر میں بھی بے مثال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہماری مسجدوں کے گنبد ہمارے فن کی نایاب ترین مثال ہیں۔ ہماری مساجد، جو ہم نے اپنے جغرافیہ پر ’’ایک قوم، ایک پرچم، ایک وطن، ایک ریاست‘‘ کے جذبے کے ساتھ جو مہریں لگائی ہیں، قیامت تک ہماری روحوں کو خوراک فراہم کرتی رہیں گی۔ مجھے امید ہے کہ یہ مسجد جو ہم نے استنبول کی سب سے خوبصورت پہاڑیوں میں سے ایک چملیجا پر بنائی ہے، ایک ایسی گواہی ہوگی جو ہماری قوم پر صدیوں تک روشنی ڈالے گی۔‘
اس افتتاحی تقریب میں البانیہ اور گنی کے صدر کے علاوہ یونان، لیبیا، مصر، تیونس، سینیگال، قزاقستان، آذربائیجان، ازبکستان، فلسطین، قطر اور ایران سمیت مختلف ممالک کے سربراہوں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔
اس طرح سے استنبول جو اپنی مساجد کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے، اب اس میں ’گرانڈ چملیجا مسجد‘ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے اور یہ استنبول کے حسن میں چار چاند لگا رہی ہے۔
اس مسجد کی بنیاد چھ اگست 2013 کو رکھی گئی تھی۔ اس طرح اس کی تعمیر میں چھ سال لگے۔ سچ پوچھیے تو سترہ ہزار مربع میٹر کے رقبے پر چھ سال میں ترکی کی سب سے بڑی مسجد بنانا ایک مشکل کام تھا، وہ بھی تب جب اس کام کی مخالفت بھی ہورہی ہو اور اس کام میں ہر طرح سے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش بھی کی جارہی ہو، لیکن اس کے باوجود صدر ایردوان نے نہ صرف اپنے دور حکومت میں اپنے سامنے اس مسجد کو کھڑا کیا بلکہ اس کا افتتاح بھی کردیا۔
اس مسجد کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ مسجد ہمیں عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تعلم کی ضرورت کا بھی احساس دلاتی ہے۔ یہ مسجد صرف نماز پڑھنے کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہاں آکر آپ لائبریری میں کتابیں بھی پڑھ سکتے ہیں اور چائے ناشتے کا لطف بھی لے سکتے ہیں۔ وہیں آرٹ اور کیلیگرافی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہاں ایک میوزیم اور آرٹ گیلری بھی موجود ہے، جہاں آئے دن طرح طرح کے آرٹ ورکشاپ منعقد کیے جاتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں 1071 افراد کی گنجائش والا ایک کانفرنس ہال بھی ہے۔ اس مسجد کے بیسمنٹ میں کار پارکنگ بھی بنائی گئی ہے، جہاں ایک ساتھ 3500 کاریں کھڑی کی جا سکتی ہیں۔
یہاں لگے ایک بورڈ سے پتہ چلا کہ یہاں ایک لائبریری بھی موجود ہے، میری پہلی خواہش اسے ہی دیکھنے کی ہوئی چنانچہ میں لائبریری میں تھا۔ اور سچ کہوں تو اتنی خوبصورت لائبریری میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ حالانکہ یہاں زیادہ تر کتابیں ترکی زبان میں ہی ہیں، انگریزی زبان میں کتابیں کافی کم ہیں۔ باقی زبانوں میں کتاب نظر ہی نہیں آتی ہے۔ ویسے استنبول میں میں نے محسوس کیا کہ یہاں جگہ جگہ لائبریریاں ہیں اور یہ لائبریریاں باذوق نوجوانوں سے ہمیشہ بھری رہتی ہیں، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے نوجوان موبائل پر زیادہ وقت نہیں گزارتے اور ہندوستان کے مقابلے میں یہاں انٹرنیٹ بھی کافی مہنگا ہے۔ مسجد کی اس لائبریری نے عوام کے پڑھنے کے لیے کھلتے ہی اعداد وشمار رکھنا شروع کر دیا۔ لائبریری کی جانب سے جاری اعداد وشمار کو جان کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ شروع کے ڈھائی مہینوں میں ہی 71 ہزار 735 لوگوں نے اس لائبریری کا دورہ کیا، 3,519 کتابیں لوگوں نے پڑھنے کے لیے اس لائبریری سےعاریتاً لیں۔ جن میں سے دو ہزار 53 کتابیں 18 سال سے کم عمر کے بچوں نے پڑھنے کے لیے نکلوائیں۔
مسجد کی اس لائبریری کا افتتاح تو صدر رجب طیب ایردوان نے 3 مئی 2019 کو ہی کردیا تھا، لیکن عام لوگوں کے لیے اسے 10 جون 2019 کو کھولا گیا۔ اس موقع سے ’استنبول مسجد اینڈ کلچرل سروس یونٹس فاؤنڈیشن اینڈ سسٹاننابلیٹی‘ کے صدر ایرگین کولونک نے بڑی ہی دلچسپ بات کہی، ’میں نے اپنے دوستوں سے پوچھا، ’ہمیں ایک بڑی لائبریری بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘ تو ان کا جواب تھا کتابوں کو شیلفوں پر ترتیب دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے، اگر آپ کے پاس ماحول ہے تو ڈھیروں کتابیں آتی ہیں اور شیلفوں پر قطار میں لگ جاتی ہیں۔ اہم بات یہ نہیں ہے کہ لائبریری کے شیلف پر کیا ہے، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان شیلفوں سے کتنے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔‘ کاش! ایرگین کولونک کی اس بات کو ہندوستان کے ہمارے ساتھی سمجھ پاتے کہ صرف اپنے اداروں و تنظیموں کے دفتر میں کتابیں سجا کر رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، بہتر ہے کہ ان کتابوں سے ہمارے لوگ مستفید ہوں۔ کاش! میں اپنے شہر کے ان بھائیوں کو ایک بار لاکر استنبول کی یہ لائبریری دکھا پاتا جو میری لائبریری مہم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
یہ لائبریری پیر سے سنیچر تک صبح ساڑھے نو بجے سے شام کے پانچ بجے تک ہی کھلی رہتی ہے۔ یہاں پڑھنے والے طلبہ کا مطالبہ ہے کہ لائبریری دیر رات تک کھلی رکھی جائے۔ اس پر انتظامیہ کی طرف سے بیان آیا ہے کہ ’اگر حالات ہمیں مجبور کرتے ہیں تو ہم لائبریری کے وقت کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ٹرانسپورٹیشن کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔‘ اتوار کو یہ لائبریری بند رہتی ہے۔ اس لائبریری میں تین سیکشن ہیں۔ بچوں کے لیے الگ جگہ ہے، وہیں ریسرچ اسکالروں کے لیے ایک خاص جگہ مختص کی گئی ہے۔ اس طرح یہ مسجد ایک ایسے کمپلیکس کے طور پر کام کر رہی ہے، جس میں سماجی، ثقافتی اور تعلیمی اکائیوں کے ساتھ ساتھ عبادت گاہ بھی شامل ہے۔
میری دوسری خواہش یہاں کا میوزیم کی دیکھنے کی تھی، جس کے بارے میں ایرگین کولونک نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’اس میوزیم میں بے حد خوبصورت کاموں کی نمائش کی جائے گی۔ یہ میوزیم ایک بہت ہی خاص میوزیم ہو گا۔ ساتھ ہی یہ میوزیم بھی ایک ڈیجیٹل میوزیم ہو گا۔ میوزیم میں داخل ہونے کے بعد، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کسی تاریخی راہداری میں داخل ہو گئے ہیں۔ آپ کو ضعف اور بصری طور پر بہت سی معلومات ملیں گی۔‘ لیکن ابھی تک اس میوزیم کا افتتاح نہیں کیا گیا ہے، خبر ہے کہ جلد ہی صدر ایردوان اس میوزیم کا افتتاح کر سکتے ہیں تب میری کوشش ہوگی کہ آپ کو اس میوزیم کے بارے میں بتاؤں۔
خیر، مسجد کی لائبریری میں وقت گزارنے کے بعد دل میں خیال آیا کہ کاش! یہاں ایک کپ گرماگرم چائے مل جاتی۔ چائے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ لائبریری سے باہر نکلتے ہی سامنے ایک کیفے نظر آیا۔ اس کے اندر جانے پر احساس ہوا ہے کہ بیٹھ کر گپ شپ کرنے کے لیے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہو سکتی۔ بے حد شاندار کرسیوں پر یہاں بیٹھ کر چائے یا ٹرکش کافی پینے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ یہی نہیں، اگر آپ کا دل اندر بیٹھنا نہیں چاہتا تو آپ باہر گارڈن کی کرسیوں پر بیٹھ کر بھی چائے کی چسکیوں کا لطف لے سکتے ہیں۔
چائے اور یہاں کے خاص طرح کے کیک سے لطف اندوز ہونے کے بعد میں ایک بار پھر گراؤنڈ فلور سے فرسٹ فلور پر آچکا تھا۔ یہاں مسجد میں داخل ہونے کے لیے کئی دروازے ہیں۔ یہاں مجھے باہر کھانے پینے کی چیزیں نظر آئیں۔ میں حیران تھا کہ کیا یہ بھی کوئی ہوٹل ہے، لیکن قریب جانے پر معلوم ہوا کہ یہاں ’ترکی دیانت فاؤنڈیشن‘ کی استنبول یونٹ کی جانب سے دس دنوں کا ایک ’چیریٹی بازار‘ لگایا ہے، جہاں کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور خواتین کے لیے کپڑے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ یہاں یہ بھی لکھا تھا کہ اس ’چیریٹی بازار‘ کی آمدنی ریاستی تحفظ کے تحت بچوں کے لیے استعمال کی جائے گی۔ حالانکہ یہاں کپڑوں و دیگر اشیا کی قیمت استنبول کے دوسرے بازاروں سے کافی کم معلوم ہو رہی تھی۔
مسجد کے اندرونی صحن میں داخل ہوتے ہی ایک دکان ہے، جہاں قرآن کے ساتھ ساتھ اسلامی کتابیں، ٹوپی، بے حد خوبصورت کیلیگرافی اور پینٹنگ وغیرہ فروخت کی جاتی ہیں۔ یہاں مسجد میں عورتوں کے لیے خاص انتظام ہے۔ چونکہ اس مسجد کو دو خواتین آرکیٹیکٹس نے ڈیزائن کیا ہے، اس لیے یہ مسجد پوری طرح سے ’خاتون دوست‘ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں خواتین کے وضو کرنے کے لیے علیحدہ جگہ، نماز کی جگہوں کے لیے علیحدہ لفٹ اور بچوں کی دیکھ بھال کا انتظام شامل ہے۔ خواتین کے لیے علیحدہ نماز کی جگہ مسجد کے مرکزی ہال میں واقع ہے اور اس میں چھ سو سے زائد خواتین ایک ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اگر کوئی خاتون مختصر لباس میں آئی ہو تو مسجد میں اس کے لیے گاؤن رکھے ہوئے ہیں جسے پہن کر وہ نماز پڑھ سکتی ہے۔
سب سے زیادہ حیرانی یہاں جوتے رکھنے کے لیے بنی الماریوں کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ الگ الگ خانوں میں یہاں ایک ساتھ ہزاروں جوتے رکھے جا سکتے ہیں اور آپ کے جوتے رکھتے ہی اندر لگی لال لائٹ جل جائے گی، تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ اندر کسی نے آپ سے پہلے جوتا رکھ دیا ہے۔ ان خانوں میں نمبر بھی لکھے ہوئے ہیں تاکہ واپس لوٹتے وقت آپ کو زیادہ پریشان نہ ہونا پڑے۔
اب میں مسجد کے اندر تھا۔ حالانکہ دن ہونے کی وجہ سے مسجد کے اندر کی تمام لائٹیں بند تھیں، پھر بھی اندر کا نظارہ دیکھنے کے لائق تھا، گنبد سے باہر کی روشنی چھن کر آرہی تھی اور پوری مسجد کو روشن کر رہی تھی۔ اس مسجد کی سجاوٹ، جسے ہم جمالیات اور فکر کی آخری کڑی کے طور پر بیان کر سکتے ہیں، ہمیں اسلامی فن کے عظیم ماضی اور روشن مستقبل کے بارے میں سنجیدہ مطالعہ پیش کرتا ہے۔ مسجد کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والے روایتی فنون کے قدیم طریقوں کو آج کی ٹکنالوجی کے ساتھ جس طرح ملایا گیا ہے، وہ بھی ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ یہاں ’’روشنی، رنگ، شیشہ، آرائش اور خطاطی‘‘ یعنی سب کچھ سوچ سمجھ کر لگایا گیا ہے تاکہ آپ جب مسجد کے اندر داخل ہوں تو روحانیت کو محسوس کر سکیں۔
یہی نہیں، یہاں موجود ہر چیز کا اپنا ایک الگ مقصد ہے۔ جیسے اس مسجد میں چھ مینار ہیں اور مانا جاتا ہے کہ ان چھ میناروں کا ڈیزائن اور تعمیر ترک مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے ماخوذ ہے۔ ان چھ عقائد میں خدا کی وحدانیت، فرشتوں اور آسمانی کتابوں پر اعتقاد، انبیاء، قیامت، اور خدا کی تخلیقات شامل ہیں۔ وہیں گنبد کی 72میٹر کی اونچائی ان 72اقوام کے تنوع کو ظاہر کرتی ہے جو ترکی میں امن و آشتی سے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اس مسجد کا گنبد 34 میٹر تک پھیلا ہوا ہے، جو استنبول شہر کی نمائندگی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ استنبول میں کار پلیٹ نمبر 34سے شروع ہوتا ہے۔ مسجد میں لکھے گئے خدائی ناموں کی تعداد 16 ہے جو ترکی کے 16 صوبوں کے مساوی ہے۔ اس مسجد کی سب سے خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے تمام معیارات اور حفاظتی اصولوں کی مکمل پابندی کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ عمارت زلزلہ جیسے بحران کے وقت رہنے کے لیے ایک اچھی جگہ ثابت ہو سکتی ہے۔ زلزلہ جیسی آفت کے وقت میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو پناہ دینے کی گنجائش کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
اس مسجد کے قریب ایک بے حد شاندار پارک ہے جہاں بیٹھنا اور ٹہلنا اپنے آپ میں ایک الگ خوبصورت احساس پیدا کرتا ہے۔ یہاں پیدل سفر کا بھی اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ مسجد کو دیکھنے کے بعد اگر آپ تھک گئے ہیں تو اس پارک کے سبز اور پھولوں سے بھرے ماحول آپ کو پھر سے ترو تازہ کر دیں گے۔ میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ موسم بہار میں اس پارک کا ایک الگ ہی نظارہ ہوتا ہے۔ یہاں آکر خوبصورت فطرت کو دیکھنا اور پرندوں کی اڑان کا لطف اٹھانا، دل کو سکون دیتا ہے۔ اس پارک کے قریب کے علاقے میں مختلف ریستوراں اور کیفے موجود ہیں، جہاں بہترین ٹرکش کھانوں کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہی نہیں، ٹیلی ویژن، ریڈیو اور میڈیا اداروں اور خبر رسانی سسٹم کو خدمات فراہم کرنے والی ’چملیجا ٹاور‘ اس پارک سے بے حد قریب نظر آتا ہے۔ یہ وہی ٹاور ہے، جس کا افتتاح صدر ایردوان نے 29 مئی 2021 کو کیا۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اونچائی کے معاملے میں یہ ’چملیجا ٹاور‘ پیرس کے ’ایفل ٹاور‘ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ’چملیجا ٹاور‘ کی بلندی 365 میٹر ہے اور سمندر کی سطح سے یہ 583 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس ٹاور کی تعمیر مارچ 2016 میں شروع ہوئی، اور یکم جون 2021 سے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ ترکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ یوروپ کا سب سے اونچا ٹاور ہے۔ 49 منزلہ یہ ٹاور صبح دس بجے سے رات نو بجے کے درمیان کھلا رہتا ہے۔ اس کے 39ویں منزل پر ایک کیفے اور 40ویں منزل پر ایک ریستوراں بھی ہے، جہاں بیٹھ کر کھانے پینے کا لطف لیا جا سکتا ہے۔ اس ٹاور میں داخلے کی فیس 60 ترک لیرا ہے جبکہ طلبہ 30 ترک لیرا دے کر اس میں جا سکتے ہیں۔
جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے، اس ’گرانڈ چملیجا مسجد‘ کا نظارہ الگ ہی ہوتا ہے۔ جب یہ مسجد روشنی سے نہاتی ہے تو بڑا ہی دلکش منظر ہوتا ہے۔ آبنائے باسفورس سے پانی کے جہاز میں سفر کرنے کے دوران اس کی خوبصورتی کو دیکھ چکا ہوں۔ لیکن آج میری خواہش تھی کہ رات تک یہاں رکا جائے اور رات کی روشنی میں اس مسجد کی خوبصورتی کو دیکھا جائے لیکن موسم میں بڑھتی سردی نے مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
گھر آنے کے بعد یاد آیا کہ اس مسجد میں میں نے کئی جگہوں پر ترکی زبان میں Ne mutlu imanla inşa edip, ibadetle ihya eden gönüllere لکھا ہوا دیکھا تھا، اس کا مطلب جب میں نے اپنے ایک ساتھی سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس کا مطلب ہے ’مبارک ہیں وہ دل جو ایمان سے استوار کرتے ہیں اور عبادت سے زندہ کرتے ہیں۔‘ کاش! اللہ ہمارے ملک کے تمام مسلمانوں کے دل کو ایمان سے استوار کرنے کے ساتھ ساتھ عبادت سے زندہ کردے۔ اور ہم یہ احساس کر پاتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قوم عبادت کے ساتھ ساتھ تعلم و تعلیم کو بھی اہمیت دیتی ہے۔ خاص طور پر ترک نوجوانوں کی طرح خود کو موبائل سے دور رہ کر کتابوں کے لیے وقت نکالنا ہماری ترجیحات میں شامل ہو جائے۔
***
چملیجا مسجد کے قریب ایک بے حد شاندار پارک ہے جہاں بیٹھنا اور ٹہلنا اپنے آپ میں ایک الگ خوبصورت احساس پیدا کرتا ہے۔ یہاں پیدل سفر کا بھی اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ مسجد کو دیکھنے کے بعد اگر آپ تھک گئے ہیں تو اس پارک کے سبز اور پھولوں سے بھرے ماحول آپ کو پھر سے ترو تازہ کر دیں گے۔ میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ موسم بہار میں اس پارک کا ایک الگ ہی نظارہ ہوتا ہے۔ یہاں آکر خوبصورت فطرت کو دیکھنا اور پرندوں کی اڑان کا لطف اٹھانا، دل کو سکون دیتا ہے۔ اس پارک کے قریب کے علاقے میں مختلف ریستوراں اور کیفے موجود ہیں، جہاں بہترین ٹرکش کھانوں کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021