کلکتہ ہائی کورٹ نے شہر کے کچھ حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا
نئی دہلی، اکتوبر 12: کلکتہ ہائی کورٹ نے بدھ کے روز مغربی بنگال کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور کولکاتا کے پولیس کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ شہر میں ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیں۔
9 اکتوبر کو کولکاتا کے اقبال پور، مومن پور اور میور بھنج علاقوں سے مسلمانوں کے میلاد النبی کے تہوار کے ایک دن بعد فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز ہائی کورٹ فرقہ وارانہ جھڑپوں کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعہ انکوائری کی مانگ کرنے والی دو درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔ عدالت نے کہا کہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت مرکز کو ایک لازمی رپورٹ کی ضرورت ہے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا مرکزی ایجنسی کی طرف سے تحقیقات کی ضرورت ہے۔
عدالت نے تاہم مشاہدہ کیا کہ چوں کہ ریاستی حکومت کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ علاقے میں موجودہ صورت حال پرامن ہے، اس لیے مرکزی فورس کی تعیناتی کی ضرورت نہیں ہے۔
جسٹس جوئےمالیہ بغچی اور اپوربا سنہا رائے پر مشتمل ایک ڈویژن بنچ نے بدھ کے روز ریاستی حکومت سے بھی پوچھا کہ کیا جھڑپوں کے دوران بم دھماکوں کے بارے میں مرکز کو اطلاع دینے کی لازمی اطلاع دینے کی پیروی کی گئی تھی۔
بنچ نے نوٹ کیا کہ ریاست کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس معاملے میں درج پانچ میں سے تین پہلی اطلاعاتی رپورٹس دھماکہ خیز مواد ایکٹ کے تحت تھیں۔
اتوار کو ہونے والی جھڑپوں کے بعد کولکاتا پولیس نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت ممنوعہ احکامات جاری کیے تھے جو کہ 10 اکتوبر کو تین دن کے لیے علاقے میں جمع ہونے پر پابندی لگاتے ہیں۔ دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق کولکاتا پولیس نے کہا ہے کہ تشدد کے سلسلے میں 41 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
کولکاتا پولیس کے ایک نامعلوم اہلکار نے بدھ کو اخبار کو بتایا ’’ہم متاثرہ علاقوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ شام سے اقبال پور علاقے سے کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ صورت حال پرامن ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔‘‘