بے گناہوں کا قتل، من گھڑت مقدمات، یوپی حکومت کی ظلم کی تمام حدیں پار، اے پی سی آرکی رپورٹ

عدالت عظمیٰ سے سی اے اے کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ جلد سنانے اور متاثرین سے انصاف کا مطالبہ

افروز عالم ساحل

گزشتہ 16 فروری 2022ء کو ’اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس‘(APCR) کی جانب سے نئی دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ’The Struggle for Equal Citizenship in Uttar Pradesh and its Costs: A saga of omnibus FIRs, Loot, Arrests and Harassment of Muslim minority ‘ کے زیر عنوان ایک رپورٹ جاری کی گئی۔ اس رپورٹ میں اتر پردیش میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کے دوران درج تمام ایف آئی آر، لوٹ مار، گرفتاریوں اور مسلم اقلیت کو ہراساں کرنے کی کہانی درج ہے۔

اس رپورٹ کو ملک کے معروف وکلاء، صحافی اور جہدکاروں کے ہاتھوں جاری کیا گیا جن میں رہائی منچ کے صدر ایڈووکیٹ محمد شعیب، دہلی یونیوسٹی کے پروفیسر اپوروانند، کاروان میگزین کے پولیٹیکل ایڈیٹر ہرتوش سنگھ، اے پی سی آر کے نیشنل سکریٹری ندیم خان، ہیومن رائٹس ریسرچر ایمان خان، ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ صفورا زرگر اور لکھنؤ ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ نجم الثاقب کے نام شامل ہیں۔ اس موقع سے ایک پریس کانفرنس بھی رکھی گئی تھی جس میں ان حضرات نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے اس رپورٹ پر اظہارِ خیال کیا۔

اے پی سی آر کے نیشنل سکریٹری ندیم خان نے اس پریس کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جو ظلم کی داستان سال 2019ء میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کو کچلنے کے لیے لکھی گئی تھی وہ آج بھی ہمارے خیالوں میں زندہ ہے اور اس کی جواب دہی طے کرنے کے لیے اے پی سی آر نے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ وہیں صفورا زرگر نے کہا کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے دوران ان کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جو ڈیٹا پبلک ڈومین میں ہونا چاہیے اسے حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر چھپایا گیا ہے اور پولیس کی کارروائیوں کا شکار ہونے والے لوگوں میں ابھی بھی خوف پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ کھل کر اپنی آپ بیتی سنانے سے ڈر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس رپورٹ کے ذریعے سچائی اجاگر ہوگی اور انصاف کی امید پیدا ہو گی۔

کیا کہتی ہے یہ رپورٹ؟

اس رپورٹ میں جمہوری طریقے سے پرامن احتجاج کرنے والے نہتے شہریوں پر اتر پردیش حکومت کے جانب سے کیے جانے والے ظلم وجبر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ رپورٹ کہتی ہے کہ آج بھی ریاستی حکومت پر کوئی جواب دہی اور جرمانہ مقرر نہیں ہے۔ خوفناک جبر کے دو سال گزرنے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے نہ تو مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کی کوئی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی نقصان اٹھانے والے لواحقین کو۔ اب تک مظاہرین کے خلاف پولیس کے مظالم کی غیر جانب دارانہ تحقیقات شروع کرنے کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی۔ جبکہ مظاہرین کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

یہ رپورٹ اعداد وشمار کے حوالے سے واضح طور پر بتاتی ہے کہ تقریباً پانچ ہزار نامزد افراد اور ایک لاکھ سے زیادہ نامعلوم افراد کے خلاف قریب 350 ایف آئی آر پورے اتر پردیش میں درج کی گئی ہیں۔ یعنی یہ رپورٹ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں اتر پردیش حکومت کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل گریما پرساد کے ذریعہ پیش کردہ اعداد وشمار کو غلط بتاتی ہے، کیونکہ گریما پرساد کے مطابق، ’پورے اتر پردیش میں 833 مظاہرین کے خلاف 106 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔‘ APCR کی اس رپورٹ کے مطابق، تقریباً تین ہزار افراد (زیادہ تر مسلمان) کو من گھڑت الزامات کے تحت بغیر کسی قانونی کارروائی کے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔ یہ رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ سال 2019ء میں 19 دسمبر کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آل انڈیا مظاہروں کی پہلی کال پر اتر پردیش کے ریاستی انتظامیہ نے تقریباً تین ہزار لوگوں کو ’احتیاطی‘ نوٹس بھیج کر ڈرایا تاکہ انہیں احتجاج کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔ اسی دن تقریباً 3305 افراد کو حراست میں لیا گیا اس طرح دو ہی دنوں میں یہ تعداد بڑھ کر 5400 تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد کئی لوگوں کے نام جھوٹے الزامات کے ساتھ ایف آئی آر میں درج کرلیے گئے۔

یہ رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصانات کی پابجائی کے لیے بغیر کسی قانونی کارروائی کے دس اضلاع میں 3.55 کروڑ روپے کی وصولی کے لیے 500 سے زائد ریکوری نوٹسیں جاری کی گئیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ میں اتر پردیش کی حکومت کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل گریما پرساد نے بتایا کہ ’’274 افراد کو وصولی کی نوٹسیں جاری کی گئی تھیں۔ 274 نوٹسوں میں سے 236 میں وصولی کے احکام جاری کیے گئے تھے جبکہ 38 معاملوں کو بند کر دیا گیا تھا۔‘ اب ان نوٹسوں کو یو پی حکومت نے واپس لے لیا ہے۔ حالانکہ APCR کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف ضلع کانپور میں تقریباً 15 خاندان، جن میں زیادہ تر یومیہ مزدوری کرنے والے ہیں، قانونی عمل سے بے خبر ہیں جبکہ ہر ایک نے 13,476 روپے ادا کیے ہیں۔ یہ رپورٹ سب سے اہم بات یہ بتاتی ہے کہ سی اے اے مظاہروں کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن میں پولیس کی بربریت کے نتیجے میں 23 بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں۔

کیا ہیں اس رپورٹ کی سفارشات؟

— ریاستی حکومت کو فوری طور پر ایف آئی آر درج کیے گئے، گرفتار کیے گئے، حراست میں لیے گئے لوگوں کی تعداد کے بارے میں ایک جامع بیان جاری کرنا چاہیے۔ بیان میں ریکوری کے لیے بھیجی گئیں نوٹسوں، منسلک جائیدادوں اور اگر نیلام کی گئی ہیں تو ان کی تفصیلات کا احاطہ کیا جانا چاہیے۔ ان تمام کیسز کی صورتحال کے بارے میں تفصیلی رپورٹ کے ساتھ اس ڈیٹا کو برسرعام پیش کیا جانا چاہیے۔

— ایک لاکھ سے زائد تمام من گھڑت مقدمات کو جو نامعلوم پرامن سی سی اے مخالف مظاہرین کے خلاف درج کیے گئے ہیں فوری اور غیر مشروط طور پر واپس لیے جائیں۔

— پولیس کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو ایک جامع معاوضہ پیکج دیا جائے۔ معاوضے ان لوگوں کو بھی دیے جائیں جو پولیس کارروائی کی وجہ سے عارضی یا مستقل معذوری کا شکار ہوئے ہیں۔

— غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ، UAPA، قومی سلامتی ایکٹ (NSA) جیسے سخت، غیر آئینی، اور غیر جمہوری قانون کی منسوخی کے لیے شہریوں، ارکان پارلیمنٹ، قانونی ماہرین اور کارکنوں کے ساتھ قومی سطح پر فوری بات چیت ہونی چاہیے کیونکہ ان سیاہ قوانین کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے وہ بھی جمہوریت کو کچلنے کے لیے۔

— سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران ہونے والے تشدد کے بارے میں کسی بھی انکوائری میں اس کے دائرہ کار میں حکمراں جماعت کے ارکان کے تشدد کو ہوا دینے میں ملوث ہونے کے الزامات کو شامل کرنا چاہیے۔ فسادی، جو ریلیوں اور احتجاجی مقامات میں داخل ہوئے اور پھر تشدد، پتھراؤ اور دیسی ساختہ آتشیں اسلحے کا استعمال کیا، سی اے اے مخالف مسلم مظاہرین کی دکانوں کو نذر آتش کیا، مسلم علاقوں میں توڑ پھوڑ کی اور گھروں میں گھس کر تباہی مچائی، ان کے کردار پر آزادانہ تحقیقات ہونا چاہیے۔

— سپریم کورٹ کو سی اے اے کے آئینی جواز پر سوال کھڑا کرنے والی درخواستوں کی جلد از جلد سماعت کرنی چاہیے اور معاملے کو جلد از جلد نمٹانا چاہیے۔ یہ ایکٹ جو آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کو منسوخ کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) ایک غیر نفع بخش اور غیر سرکاری تنظیم ہے جو سال 2006ء میں معاشرے کے پسماندہ طبقات کے حقوق کی دفاع کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اے پی سی آر کا نیٹ ورک ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے جو عدل وانصاف کے فروغ کے لیے انتھک جدوجہد میں مصروف ہے۔ ساتھ ہی یہ تنظیم نفرت کے خلاف بھی سرگرم ہے اور ملک میں نفرت کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے طویل عرصے سے لڑ رہی ہے۔

***