بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن محمود کا کہنا ہے کہ سی اے اے ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے
نئی دہلی، نومبر 2: بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن محمود نے منگل کو کہا کہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کا داخلی اور قانونی معاملہ ہے۔
یہ قانون بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ غیر مسلم مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں رہ رہے ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔
اس متنازعہ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں 200 سے زائد درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیتا ہے اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو قانون کے سامنے مساوات سے متعلق ہے۔
عدالت ان درخواستوں کی سماعت 6 دسمبر سے شروع کرے گی۔
پیر کو محمود نے پریس کلب آف انڈیا کے زیر اہتمام ایک نیوز کانفرنس میں اس قانون کے بارے میں بات کی۔
اس تقریب میں انھوں نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے تبصروں کو بھی دہرایا کہ بنگلہ دیش میں ہندو مذہب کی پیروی کرنے والوں کو اقلیتی برادری نہیں سمجھا جانا چاہیے کیوں کہ وہ ملک کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے آئین کے مطابق سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں میں کچھ جنونی گروہ ہیں جو جنون کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور مذہبی گروہوں میں ہم آہنگی کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
انجوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے ہندوؤں کی حمایت کی ہے اور وہ اچھی پوزیشن میں ہیں۔ محمود نے مزید کہا کہ حکمران جماعت کے ارکان گذشتہ سال جیسے فسادات سے بچنے کے لیے کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اکتوبر 2021 میں بنگلہ دیش کے کومیلا ضلع میں درگا پوجا پنڈال میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس کے بعد ہندوؤں کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد کم از کم سات افراد ہلاک اور 41 کو گرفتار کر لیا گیا۔
اقوام متحدہ نے ہندوؤں پر ہوئے حملوں پر تنقید کی تھی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ یہ تشدد ملک میں بڑھتے ہوئے اقلیت مخالف جذبات کی علامت ہے۔