برازیل: سابق صدر جیر بولسونارو کے حامیوں نے صدارتی محل، سپریم کورٹ پر دھاوا بولا
نئی دہلی، جنوری 9: اے ایف پی کی خبر کے مطابق لوئیز اناسیو لولا دا سلوا کے صدر بننے کے آٹھ دن بعد۔ برازیل کے سابق صدر جیر بولسونارو کے سینکڑوں حامیوں نے اتوار کو ملک کی کانگریس، صدارتی محل اور سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا۔
پیلے اور سیاہ لباس میں ملبوس مظاہرین نے کانگریس کی چھت پر چڑھائی کی اور سلوا کو روکنے کے لیے فوجی مداخلت کا مطالبہ کرنے والا پوسٹر لہرایا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کچھ مظاہرین نے صدارتی محل کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے فرنیچر پھینکا، کانگریس کے کچھ حصوں کو سپرنکلر سسٹم سے بھر دیا اور سپریم کورٹ کے کئی کمروں میں توڑ پھوڑ کی۔
تشدد کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس فائر کی جس کا ابتدا میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بعد ازاں حکام نے ہیلی کاپٹروں سے آنسو گیس کے گولے برسائے گئے۔
تاہم اتوار کی شام تک تشدد جاری رہا۔
تشدد پر تبصرہ کرتے ہوئے لولا نے بولسونارو پر الزام لگایا کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار کے اختتام کے بعد انتخابی دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے ایک بے بنیاد مہم کی قیادت کی ہے۔ لولا نے کہا ’’یہ نسل کشی کرنے والا … میامی سے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سابق صدر کی مختلف تقریریں اس تشدد کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔‘‘
بولسونارو، جنھوں نے ابھی تک شکست تسلیم نہیں کی ہے، انتخابات کے بعد ریاستہائے متحدہ کی ریاست فلوریڈا چلے گئے ہیں۔
صدر نے اتوار کو زور دے کر کہا کہ فسادیوں کو ڈھونڈ کر سزا دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ان غنڈوں نے، جنھیں ہم جنونی فاشسٹ کہہ سکتے ہیں، انھوں نے وہ کیا جو اس ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا بولسونارو نے ٹویٹر پر یہ بتانے سے پہلے کہ وہ لولا کے ذریعے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی ’’تردید‘‘ کرتے ہیں، تقریباً چھ گھنٹے تک فسادات کے بارے میں خاموش رہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پرامن احتجاج جمہوریت کا ایک حصہ ہے، لیکن عوامی عمارتوں پر حملہ کرنا ’’حد سے گزرنا‘‘ ہے۔
تشدد کے درمیان لولا نے دارالحکومت برازیلیا میں وفاقی مداخلت کا اعلان کرتے ہوئے ایک فرمان پر دستخط کیے اور حکومت کو امن و امان کی بحالی کے لیے خصوصی اختیارات دیے۔
اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں لولا نے بولسونارو کے 49.7 فیصد ووٹ کے مقابلے میں 50.3 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم بولسونارو نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور برازیل کے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی درستگی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ ان کے الزامات کے بعد ان کے وفاداروں نے لولا کو صدر کا کردار سنبھالنے سے روکنے کے لیے فوجی بغاوت کا مطالبہ کیا تھا۔
برازیل میں تشدد نے 2021 میں ملک میں صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد ریاستہائے متحدہ کے دارالحکومت میں ہونے والے فسادات کی یاد تازہ کردی ہے۔
2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ہارنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے 6 جنوری 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل کمپلیکس پر دھاوا بول دیا تھا۔
دریں اثنا دنیا بھر کے رہنماؤں نے برازیلیا میں تشدد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احترام کرنا چاہیے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ انھیں تشدد پر گہری تشویش ہے۔ انھوں نے کہا کہ جمہوری روایات کا ہر کسی کو احترام کرنا چاہیے۔ ’’ہم برازیل کے حکام کو اپنی مکمل حمایت فراہم کرتے ہیں۔‘‘
ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ جنوبی امریکی ملک میں ’’جمہوریت اور اقتدار کی پرامن منتقلی پر حملے‘‘ کی مذمت کرتے ہیں۔
بائیڈن نے کہا ’’برازیل کے جمہوری اداروں کو ہماری مکمل حمایت حاصل ہے اور برازیل کے عوام کی مرضی کو مجروح نہیں کیا جانا چاہیے۔ میں [لولا] کے ساتھ کام جاری رکھنے کا منتظر ہوں۔‘‘
یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے لولا کی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ’’منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے ذریعے لاکھوں برازیلیوں کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق چلی کے صدر گیبریل بورک نے کہا کہ یہ تشدد ’’جمہوریت پر بزدلانہ اور گھٹیا حملہ‘‘ ہے۔