برین کمپیوٹر انٹرفیس کا کامیاب تجربہ

ٹکنالوجی کی دنیا ایک اور انقلابی پیش رفت کے قریب

از: زعیم الدین احمد حیدرآباد

انسانی دماغ اور مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے انسانی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ کی توقع
ٹکنالوجی نے انسانوں پر کتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ٹکنالوجی زندگی کے ہر شعبے حیات کا جزوِ لاینفک بن چکی ہے، چاہے وہ طبی میدان ہو یا تعلیمی میدان، اقتصادی میدان ہویا سیاسی میدان، کھیل کا میدان ہو کہ سیاحت ہر جگہ ٹکنالوجی کا استعمال ہونے لگا ہے۔ انسان نے اس قدر ترقی کی ہے کہ وہ اب مریخ پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہے اور وہاں زندگی گزارنے کے خوب دیکھ رہا ہے۔ وہ چاند پر اپنی کمندیں ڈال چکا ہے اور وہاں سیر و تفریح کرنا چاہتا ہے۔ اس نے پہلے ہی خلاؤں میں تحقیقاتی اور تجرباتی مراکز قائم کر دیے ہیں اور اب وہ ستاروں و سیاروں کی حرکتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان ہر طرف سے ٹکنالوجی میں گھرا ہوا ہے اور ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایسے ایسے حیرت انگیز کارنامے انجام دے رہا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حال ہی ایلان مسک کے ایک نیورا لینک نامی ادارے نے ایک سائنسی تجربہ کر کے ساری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا جسے بی سی آئی یعنی "برین کمپیوٹر انٹرفیس” کہا جاتا ہے۔ اس تجربے میں انسانی دماغ اور کمپیوٹر کے ملاپ سے کس طرح کے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کی تحقیق کی گئی۔ اس ٹکنالوجی سے قبل یعنی اے آئی "آرٹیفشل انٹیلیجنس” سے پہلے صرف انسانی دماغ کا استعمال ہوتا تھا، گو کہ اس اے آئی کی تخلیق بھی انسانی دماغ ہی کے نتیجے میں ہوئی ہے، لیکن جب ان دونوں یعنی انسانی دماغ اور اے آئی کے ملاپ ہوا تو اس سے انسانی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ آئیے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ اے آئی ہے کس بلا کا نام ہے؟
مصنوعی ذہانت اے آئی ٹکنالوجی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے، جس میں کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے پروگرامنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اے آئی کا کمپیوٹر پروگرامنگ اور اس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہی کام اس ٹکنالوجی سے عام طور پر انسانی ذہن کیا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر بصری ادراک، تقریر کی شناخت، فیصلہ سازی اور لفظی ترجمہ جیسی چیزیں اور وہ تمام چیزیں جن کے لیے عام طور پر انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن اب کمپیوٹر پروگرام کو اس قابل بنایا گیا ہے وہ ان کاموں کو حل کرنے کے لیے اپنی ذہانت اور صلاحیت کا استعمال کرے، اسی کو اے آئی کہا جاتا ہے۔ چند سائنسدانوں اور ریاضی دانوں کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا کہ ایک ایسا کمپیوٹر ہونا چاہیے جو اپنے آپ سوچے، اور اپنے آپ ہی فیصلہ کرے، اسی خیال کے تحت ان سائنسدانوں نے جون 1965 میں ڈارٹ ماؤتھ کے مقام پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا اور اس خیال پر گفتگو کا آغاز کیا۔ ایک ایسے کمپیوٹر کی ایجاد کے بارے میں جو حقیقت میں سوچ سکتا تھا، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کیسے کام کرے گا، اس کے کیا خدو خال ہوں گے، اس کی صورت کیسے ہوگی، وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے اس کی ابتداء کیسے کی جائے، لیکن ان کی آپس کی گفتگو نے ان کے دلوں میں ایسی چنگاری پیدا کردی جس نے بالآخر اے آئی کی صورت میں دنیا کو ایک نئی جہت دی گئی۔ "ڈارٹ ماؤتھ ورکشاپ” کے بعد سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، اس خیال کی تکمیل میں بڑے نشیب و فراز آئے کہ سائنس دانوں نے اے آئی کمپیوٹر تیار کرنے کا خیال ہی ترک کر دیا اور چند سالوں تک اس بابت کوئی کام نہیں کیا گیا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس پر بڑی پیش رفت ہوئی ہے، اسی پیش رفت نے آج دنیا کو اے آئی کی شکل میں ایک ذہین کمپیوٹر کی صورت میں ایجاد کر کے دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال آج ہمارے چاروں طرف مختلف میدانوں میں مختلف طریقوں سے ہو رہا ہے، اس نے ہماری دنیا بدل کر رکھ دی ہے اور ہماری زندگیوں کو زیادہ آسان اور دلچسپ بنا دیا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی دماغ کے ساتھ ٹکنالوجی کے مل جانے سے انسانی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، انسان نے اپنے ایجاد کردہ سائنسی آلات کی مدد سے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں، اس نے ان سائنسی آلات کی مدد سے کاموں کو آسان اور تیز رفتار کردیا ہے۔ مثال کے طور ہمارے والدین جمع تفریق و ضرب کے لیے اپنے ذہن کا استعمال کرتے تھے، وہیں اس دور میں کیلکولیٹر کا استعمال ہو رہا ہے جو انسانی دماغ سے کئی گنا زیادہ تیز اور درست کام کرتا ہے، پھر اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کمپیوٹر کا استعمال ہونے لگا، اس آلے نے مزید آسانیاں پیدا کر دیں۔ کیلکولیٹر سے کہیں زیادہ کام اس آلے کے ذریعے کیا جانے لگا ہے۔ آج کے دور میں اے آئی کا استعمال ہو رہا ہے، جب انسانی دماغ اور اے آئی ساتھ مل کر کام کرنے لگیں گے تو سوچیں کہ کس رفتار سے اور کس آسانی سے کاموں انجام پائیں گے؟ نہ صرف انجام پائیں گے بلکہ ان کی درستگی کئی گنا بڑھ جائے گی اور حیرت انگیز کارنامے انجام پانے لگیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ٹکنالوجی انسانی ہاتھوں میں آلات کے طور پر استعمال ہوگی تب انسانی دماغ کی صلاحیت، اس کی قوت اور اس کی ثمرآ وری میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔
اب تحقیق کا موضوع یہ ہو چلا ہے کہ اگر انسانی دماغ کو کمپوٹر سے مربوط کردیا جائے گا تو کیا ہو گا اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اس بات پر تحقیق کی جارہی ہے، اسی کو "برین کمپیوٹر انٹرفیس” کہا جاتا ہے۔ اسی تحقیق کے تحت الان مسک کے ادارے نیورا لنک انسانی دماغ میں ایک چھوٹی "چپ” داخل کرنے کا منصوبہ کر رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ الان مسک نے اعلان کیا ہے کی وہ آئندہ چھ ماہ میں انسانی دماغ میں چپ داخل کرنے کے تجربے پر عمل درآمد کرنے والے ہیں، اس سے متعلق اجازت ناموں کے لیے وہ درخواستیں داخل کر چکے ہیں۔ امریکہ کے محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو انہوں درخواست بھی دی ہے۔ انہوں کہا ہے کہ یف ڈی اے سے اب تک کی گفتگو بہت حوصلہ افزا رہی ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف انسانی دماغ میں ہی چپ داخل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے، بلکہ اس کا ارادہ انسانی جسم کے مزید دو حصوں میں بھی چپ لگانے کا ہے، مثال کے طور اگر کسی شخص کو لقوہ ہو گیا ہو تو اس شخص کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک چپ داخل کی جائے گی تاکہ وہ اس کی مدد سے اپنے جسم کے غیر متحرک اعضاء کو حرکت دے سکے۔ سننے میں یہ کوئی دیو مالائی قصہ لگ رہا ہے لیکن مستقبل قریب میں یہ حقیقت بن جانے والا ہے، یہ اسی طرح ہے جیسے آج کار بغیر کسی ڈرائیور کے چل رہی ہے، کیوں کہ اس کے اندر ایک چپ ہے جو ڈرائیور سے ذیادہ درست کار کو چلاتی ہے۔ ٹکنالوجی کے اس دور میں کوئی چیز بعید از قیاس نہیں ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ایک ڈاکٹر امریکہ یا جرمنی سے بھارت میں مقیم کسی دل کے مریض کا آپریشن کرے گا؟ لیکن آج یہ ٹکنالوجی سے ممکن ہو پایا ہے۔ دوسری چپ ایسے شخص کے اندر داخل کی جائے گی جو اندھا ہو، چاہے وہ پیدائشی اندھا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک چپ داخل کی جائے گی جس کی مدد سے اس شخص کے آنکھوں کی رگوں میں حرکت پیدا ہو گی اور وہ دنیا دیکھ سکے گا۔
پہلے اس کا تجربہ بندر پر کیا گیا۔ نیورالنک کے دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اس بندر کو پیش کیا گیا جس پر تجربات کئے گئے تھے، پریس کانفرنس میں دکھایا گیا کہ کس طرح یہ بندر بڑی آسانی سے بغیر کسی آلے کو ہاتھوں میں لیے کمپیوٹر پر ویڈیو گیم کھیل رہا تھا۔ یہ اس لیے ممکن ہو پایا کیوں کہ اس کے دماغ میں ایک چپ داخل کر دی گئی تھی جو کمپیوٹر کو احکامات جاری کرتی ہے جس کی مدد سے وہ ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔ غور کیجیے کہ ایک جانور جس کو ویڈیو گیم سے کچھ بھی واقفیت نہیں وہ ویڈیو گیم کھیل سکتا ہے تو حضرت انسان کیا نہیں کر سکتا؟ الان مسک کا اے آئی سے متعلق اپنا ایک نظریہ ہے، وہ کہتا ہے کہ اے آئی انسان سے زیادہ طاقتور ہو گیا ہے اور وہ انسانی صلاحیتوں کو نگلتا جا رہا ہے، اگر اس اے آئی سے آگے بڑھ کر انسانی دماغ کا کام کرنا مطلوب ہو تو انسانی دماغ کے ساتھ کمپیوٹر انٹرفیس کا ہونا ضروری ہے۔ اسی نظریہ کے تحت وہ مختلف تجربات کرتا رہتا ہے۔ اگر انسانی دماغ کا کمپیوٹر سے انٹرفیس ہوجاتا ہے تو یقیناً بڑے حیرت انگیز کارنامے وقع پذیر ہوں گے۔ امید کرتے ہیں کہ برین کمپیوٹر انٹرفیس کے تجربات اور یہ ٹکنالوجی انسانی معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہوگی، اس کے ذریعے سے دنیا کو ایک نئی جہت ملے گی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام آئے گی۔
***

 

***

 اگر انسانی دماغ کا کمپیوٹر سے انٹرفیس ہوجاتا ہے تو یقیناً بڑے حیرت انگیز کارنامے وقوع پذیر ہوں گے۔ امید کرتے ہیں کہ برین کمپیوٹر انٹرفیس کے تجربات اور یہ ٹکنالوجی انسانی معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہوگی، اس کے ذریعے سے دنیا کو ایک نئی جہت ملے گی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام آئے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022