’’مطالعہ: نکات، جہات، اشارات‘‘

طلبہ برادری میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے والی ایک مفید کتاب

ڈاکٹر امتیاز احمد
اسسٹنٹ پروفیسر (سماجیات)
نظامت فاصلاتی تعلیم
(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد)

انسان کے علمی وفکری ارتقا میں مطالعے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ۔جس طرح جسم انسانی کی تندرستی کے لیے مادی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عقل انسانی کی صحت اور پختگی کے لیے مطالعہ لازمی ہے۔ چونکہ انسانی سماج بہت ہی پیچیدہ (Complicated) ہے اور انسانی اعمال کے محرکات بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اس لیے سماج کی پیچیدگی اور اعمال کے محرکات کو سمجھنے کے لیے ایسے اذہان کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف زاویوں سے غور وفکر کر سکیں اور پیچیدہ مسائل کا حل پیش کر سکیں۔ مطالعہ انسان کی اس ضرورت کی تکمیل میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ مطالعہ انسانی ذہن کی گرہیں (Knots) کھولتا ہےاور ذہنی افق (Mental Horizon) کی توسیع کرتا ہے۔ مطالعہ کی اس اہمیت کے پیش نظر دسمبر 2002 میں ماہ نامہ رفیق منزل نے ”مطالعہ نمبر“ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھا۔ زیر تبصرہ کتاب بعنوان ”مطالعہ: نکات، جہات، اشارات“ اسی مطالعہ نمبر کی کتابی شکل ہے جسے شمشاد حسین فلاحی اور عرفان وحید صاحبان نے مرتب کیا ہے اور وہائٹ ڈاٹ پبلشرز، نئی دہلی نے فروری 2022 میں شائع کیا ہے۔
ایسے وقت میں جب کہ لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق بہت تیزی سے کم ہورہا ہے بالخصوص طلبہ برادری کی بڑی اکثریت میں سوشل میڈیا کے غیر معمولی استعمال اور دیگر اسباب سے کتب بینی کا ذوق مفقود ہو رہا ہے، وہائٹ ڈاٹ پبلشرز، نئی دہلی نے اس کتاب کی اشاعت کے ذریعے طلبہ برادری کی رہنمائی کا کام کیا ہے۔ وہائٹ ڈاٹ پبلشرز، نئی دہلی کی یہ کوشش قابل تحسین ہے۔ اس کتاب میں مطالعے کی اہمیت وافادیت، مطالعہ کرنے کے تکنیکی طریقے، مختلف علوم اور شعبوں سے متعلق فہرست کتب، ان شعبہ جات کی نشان دہی جن میں تحریک اسلامی کو علمی کام کرنے کی ضرورت ہے اور مطالعہ وتحقیق کے بنیادی ماخذ وغیرہ سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
کتاب 340 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 39 مضامین شامل ہیں۔ مضامین کی ترتیب الگ الگ عنوانات کے تحت کی گئی ہے مثلاً مطالعہ-ضرورت، اہمیت، جہات کے عنوان کے تحت کچھ مضامین ہیں تو ’درسیات کا مطالعہ‘ کے تحت 7 اہم مضامین ملیں گے۔اسی طرح ’تحریک اور دعوت‘ کے ضمن میں ڈاکٹر عبدالحق انصاری اور مولانا عبدالرشید عثمانی کے قیمتی مضامین سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا اور ”مطالعہ اسلامیات“ میں مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا فاروق خان کی رہنمائی میسر ہو گی۔
کتاب کی ابتدا ایک اہم مضمون بعنوان ’مطالعے کا شوق کیسے پیدا کیا جائے‘ از جناب سید سعادت اللہ حسینی سے ہوتی ہے۔ مصنف نے اس میں مطالعے کی تحریک پیدا کرنے والے عوامل کو تفصیل سے بیان کیا ہے نیز، اس راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کی نشاندہی اور اس کے تدارک کے حوالے سے مفید نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے مطابق اچھے اور علمی ماحول سے ہی انسان کے اندر مطالعے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے علمی ماحول بنانے کی شعوری کوشش ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں ”علمی ماحول پیدا کرنے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ مطالعے کو لوگوں کی ضرورت بنا دیا جائے۔ اگر مطالعہ ضرورت بن جائے اور اس کا احساس لوگوں کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خود مطالعے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ضرورت پیدا کرنے اور اس کا احساس پیدا کرنے کے لیے سب سے اہم محاذ دعوتی کام ہے۔ دعوتی کام کے نتیجے میں خود بخود لوگوں کو مختلف نظریاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ نظریاتی مسائل اور چیلنجز انہیں مطالعے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ “اس کے علاوہ مطالعے کے لیے ماحول سازی کی ضمن میں چند مشورے دیے ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو پڑھنے لکھنے کا ایک اچھا ماحول بن سکتا ہے۔
”اسلامی مطامیات کا مطالعہ“ پر لکھتے ہوئے مولانا فاروق خاں نے قرآن واحادیث کے دلائل سے علم دین کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس تعلق سے نہایت مختصر اور جامع نصاب پیش کیا ہے۔ یہ نصاب ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہو گا جنہیں عربی مدارس سے باقاعدہ علم دین حاصل کرنے کا موقع مل سکا ہے۔ اس نصاب کی روشنی میں اگر اسلامی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو فرد دین کی اچھی معلومات حاصل کر سکتا ہے اور مجموعی طور پر دین کا مزاج سمجھنے میں یہ نصاب کافی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ”تحریک اسلامی کی علمی ضرورت“ کے عنوان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم ماضی میں تحریک اسلامی کے علمی کام پر غور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بدلتے دور میں نئے تقاضوں کے مطابق تحریک اسلامی کی علمی ضروریات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ گفتگو کے آغاز میں مصنف نے ان سوالات کو اٹھایا ہے جن کی معنویت عصر حاضر میں کافی اہم معلوم ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”سب سے پہلی چیز جو محتاج گفتگو ہے وہ اسلام کے اجتماعی فکر کا وہ پہلو ہے جو آج پوری دنیا میں خاص طور پر زیر بحث ہے۔ میری مراد اسلام کی سیاسی فکر سے ہے۔ اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے؟ یہ کن بنیادوں پر قائم ہے؟ اس کا جمہوریت سے کیا تعلق ہے؟ کیا چیزیں اسلام کے سیاسی نظام اور مغرب کے جمہوری نظام میں مشترک ہیں اور کیا چیزیں مختلف؟ آج کے دور میں مغرب کے جمہوری نظام کے مقابلے میں اسلام کا سیاسی نظام کن معنوں میں بہتر ہو گا؟ اس کی کیا چیزیں ہمارے ملک اور پوری دنیا کے کے لیے کشش کا باعث ہوں گی؟ یہ سوالات ہنوز محتاج گفتگو ہیں“ اسی ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی نے اسلام کے معاشی نظام کے حوالے سے تھوڑی بہت کوششیں کی ہیں اور آج بھی معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں اور چیلنجز پر تحریک اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ لیکن اسلام کے سیاسی نظام کے تعلق سے تحریک کا کام ابھی بالکل ابتدائی دور میں ہے۔ اس تعلق سے وہ کچھ پیچیدہ سوالات کھڑا کرتے ہیں مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ ”چونکہ خلافت راشدہ کے ابتدائی چند سالوں کو چھوڑ کر پوری اسلامی تاریخ میں خلافت کے نام پر بادشاہتیں قائم رہی ہیں اور آج بھی بیش تر ممالک میں بادشاہ حکمراں ہیں یا فوجی آمر۔ اس لیے اسلام کو بادشاہت اور آمریت کا حامی اور جمہوریت کا مخالف کہا جاتا ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آج بعض اسلامی تحریکیں خلافت کا ایسا تصور پیش کرتی ہیں جو شخصی حکومت کا مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ خلیفة اللہ کون ہے؟ پوری ملت اسلامیہ یا ایک مسلمان فرد؟ کیا اسلامی حکومت میں حاکم بذات خود اقتدار کا حامل ہوتا ہے یا ملت کے نمائندے کی حیثیت سے؟ شوریٰ کی حیثیت حاکم کی مقرر کردہ کمیٹی کی ہے اور وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے اس میں رد وبدل کر سکتی ہے یا ملت کی نمائندہ اور اقتدار میں برابر کی شریک ہے؟“ اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات مصنف نے اٹھائے ہیں جن کی روشنی میں تحریک اسلامی کو اپنی علمی ترجیحات متعین کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ”تحریک اسلامی کا لٹریچر: خوبیاں، شرائط مطالعہ، جامع منصوبہ“ کے عنوان پر مولانا عبدالرشید عثمانی نے مطالعے کے طریقے پر قیمتی گفتگو کی ہے اور شعبے کے اعتبار سے تحریکی لٹریچر کی لمبی فہرست دی ہے جن کا مطالعہ افراد تحریک کی علمی وفکری پختگی کے لیے لازم ہے۔
کتاب کا ہر مضمون کافی اہم اور دلچسپ ہے۔ قارئین کو ہر مضمون میں کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔ راقم نے کتاب سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے چند اہم اور قیمتی مضامین کے متعلق اپنا تبصرہ پیش کیا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب عوام الناس بالخصوص طلبہ برادری کے اندر مطالعے کا شوق پروان چڑھائے گی اور تحریک اسلامی کے علمی وفکری سفر میں اہم رول ادا کرے گی۔

 

***

 ایسے وقت میں جب کہ لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق بہت تیزی سے کم ہورہا ہے بالخصوص طلبہ برادری کی بڑی اکثریت میں سوشل میڈیا کے غیر معمولی استعمال اور دیگر اسباب سے کتب بینی کا ذوق مفقود ہو رہا ہے، وہائٹ ڈاٹ پبلشرز، نئی دہلی نے اس کتاب کی اشاعت کے ذریعے طلبہ برادری کی رہنمائی کا کام کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022