پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے: مسلم رہنماؤں نے پرامن احتجاج کرنے اور پولیس سے تصادم سے گریز کی اپیل کی
نئی دہلی، جون 11: مسلم سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے کمیونٹی کے اراکین سے اپیل کی ہے کہ وہ بی جے پی کی معطل ترجمان نپور شرما اور نکالے گئے لیڈر نوین کمار جندل کے گستاخانہ تبصروں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لیے پرامن اور نظم و ضبط کے ساتھ احتجاج کو یقینی بنائیں۔
یہ اپیل 10 جون کو نماز جمعہ کے بعد ملک گیر سطح پر ہونے والے بے ساختہ مظاہروں کے بعد سامنے آئی۔ یوپی میں پریاگ راج (الٰہ آباد) اور جھارکھنڈ میں رانچی جیسے کچھ مقامات پر مظاہرے پرتشدد ہو گئے۔
رانچی میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کی گئی پولیس کارروائی میں دو افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ گولی لگنے سے متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ پریاگ راج سے بھی پتھراؤ کی اطلاع ملی ہے۔
نپور شرما کے تبصرے کے خلاف مظاہروں کے سلسلے میں یوپی پولیس نے کانپور اور پریاگ راج سے 100 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کرنے کی اطلاع دی ہے اور ان کے خلاف سخت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ رانچی واقعہ کے سلسلے میں اب تک 60 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرنے کی اطلاع ہے۔ کانپور میں 3 جون (جمعہ) کے احتجاج کے سلسلے میں گرفتار ہونے والوں میں سے کچھ کی ملکیت والی چند کثیر المنزلہ عمارتوں کو آج بلڈوز کر دیا گیا۔
جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے سکریٹری برائے کمیونٹی امور محمد احمد نے یہ بتاتے ہوئے کہ ملک بھر کے کئی شہروں میں جمعہ کو ہونے والا احتجاج ’’بی جے پی کے دونوں لیڈروں کے گستاخانہ تبصروں کے خلاف ایک فطری اور بے ساختہ ردعمل تھا‘‘، کہا کہ مظاہرے اور احتجاج ’’پرامن اور منظم و منضبط‘‘ ہونے چاہئیں اور ’’کسی بھی تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تصادم سے گریز کریں۔
تاہم انھوں نے جمہوری مظاہروں میں حصہ لینے والوں کے خلاف حکومت کی ضرورت سے زیادہ کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جیسے بڑی تعداد میں لوگوں کی گرفتاری اور کچھ لوگوں کے گھروں کو محض اس لیے بلڈوز کرنا کہ انھوں نے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بلڈوزر کلچر کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مسٹر احمد نے کہا کہ جمہوریت میں احتجاج، حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لوگوں کے غصے کو نکالنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ’’لیکن لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرنا ان کے جمہوری حقوق کو چھیننے کے مترادف ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ جذباتی مسائل کو اٹھانا بے روزگاری اور مہنگائی جیسے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے اور آئندہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کچھ سیاسی جماعتوں کے انتخابی فائدے کے لیے مذہبی خطوط پر سماج کو پولرائز کرنے کی سازش ہے۔