بلقیس بانو کیس: جسٹس بیلا ترویدی نے مجرموں کی سزا میں معافی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت سے خود کو الگ کر لیا
نئی دہلی، دسمبر 13: سپریم کورٹ کی جسٹس بیلا ایم ترویدی نے منگل کو بلقیس بانو کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا، جس میں مغربی ریاست میں 2002 کے فسادات کے دوران اجتماعی عصمت دری اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 افراد کو قبل از وقت رہائی دینے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
بانو کی عرضی جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس ترویدی پر مشتمل بنچ کے سامنے سماعت کے لیے آئی۔ تاہم جسٹس رستوگی نے کہا ’’معاملے کو اس بنچ کے سامنے درج کریں جس کا ہم میں سے کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘
لائیو لاء کے مطابق جسٹس ترویدی نے مبینہ طور پر خود کو اس لیے الگ کر لیا کیوں کہ وہ 2004 سے 2006 تک گجرات حکومت میں قانون سکریٹری کے طور پر تعینات تھیں۔
گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 3 مارچ 2002 کو احمد آباد کے قریب ایک گاؤں میں 11 افراد نے بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ تشدد میں ان کے خاندان کے چودہ افراد بھی مارے گئے تھے، جن میں بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی جس کا سر مجرموں نے زمین پر پٹخ دیا تھا۔
ان افراد کو 15 اگست کو گودھرا جیل سے رہا کیا گیا جب گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کی۔
مئی میں جسٹس رستوگی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا تھا کہ گجرات حکومت کے پاس معافی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کیوں کہ اسی ریاست میں جرم ہوا تھا۔ اس نے گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو پلٹ دیا کہ مہاراشٹر حکومت کے پاس معافی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار تھا، کیوں کہ اس مقدمے کی سماعت ممبئی میں ہوئی تھی۔
اپنی درخواست میں بانو نے دلیل دی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات کے پیش نظر مہاراشٹر حکومت کو معافی کی درخواست پر سماعت کرنی چاہیے تھی۔
بانو نے یہ بھی کہا کہ مجرم رادھے شیام بھگوان داس شاہ نے اپنی معافی کی درخواست میں عدالت کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے جرم کی نوعیت کا انکشاف نہیں کیا تاکہ ایک سازگار حکم حاصل کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ شاہ کی عرضی پر مجرموں کو رہا کرنے پر غور کرے۔