بھارتی معیشت مصیبت میں۔روزگار اور طلب پر توجہ ضروری
کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پرحل کرنے کی ضرورت
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بھارت کی شرح نمو سات فیصدنہیں، محض ساڑھے چار فیصد ہی ہے: سابق معاشی مشیر اروند سوامی
ایک طرف حکومت تقسیم کی سیاست کے پرانے راستے پر چل رہی ہے ساتھ ہی چار ٹریلین ڈالر کی معیشت کا شوشہ چھوڑ کر بھکتوں سے خوب واہ واہی لوٹ رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس خبر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا
آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھورام راجن نے بیجنگ میں ایک سمٹ میں شرکت کرتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت کی معیشت اصلاح کی طرف گامزن ہے لیکن اپنی بڑی آبادی کے لیے حسب ضرورت روزگار پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسے آٹھ فیصد سے زیادہ کی رفتار سے بڑھنا ہوگا۔ سابق گورنر کے مطابق ملک کی آبادی کو روزگار کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے آٹھ تا ساڑھے آٹھ فیصد ترقی کی ضرورت ہے۔ حالانکہ دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں چھ تا ساڑھے چھ فیصد کی نمو بہتر ہے مگر بھارت جیسے بڑے ملک کے لیے یہ تناسب کم ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی آبادی روزگار سے محروم ہے۔ ملک کے سالانہ ورک فورس میں شامل ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کے لیے حسب ضرورت روزگار نہیں ہیں۔ ممبئی میں واقع سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے مطابق کل شرح بے روزگاری 10.05 فیصد تک ہوگئی ہے جو دو سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ایچ ایس بی سی کا اندازہ ہے کہ اگلے دہائی تک بھارت کو سات کروڑ روزگار پیدا کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ ساڑھے سات فیصد کی شرح نمو کے ساتھ روزگار کے چیلنجز کا دو تہائی حل ہی نکل پائے گا۔ آئندہ انتخابات کا ہدف لے کر آگے بڑھنے والے وزیر اعظم اونچی شرح بے روزگاری سے کافی متفکر ہیں۔ ان کی حکومت دس لاکھ سرکاری نوکریاں دینے کے وعدہ کے تحت جاب اپائٹمنٹ لیٹرز تقسیم کرکے اس مسئلے پر کام کر رہی ہے۔ رگھورام راجن کا مشورہ ہے کہ بھارت کو چین اور ویتنام جیسے ہنر مند مینوفیکچرنگ ممالک کے ساتھ مسابقت کرتے ہوئے اپنے ورک فورس کو ہنر مند کرنا ہوگا۔ خصوصاً آئی فون پارکس کے پروڈکشن میں ملک کو مکمل سیل فون بنانے سے پہلے کافی دوری طے کرنی ہے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ملک کورونا وبا سے باہر آرہا ہے۔ انہوں نے اس ترقی کا اعجاز انفراسٹرکچر پر بڑھتے ہوئے سرکاری خرچ بیلنس شیٹ کو صاف کرنے کی کوششوں اور اپر مڈل کلاس کی طلب کو دیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ بھارت چپس کی تیاری اور اختراعیت میں چین سے پیچھے ہے۔ دوسری طرف امریکی معیشت پر مندی کا سایہ منڈلا رہا ہے۔
بھارتی حکومت خواہ معاشی ترقی کا جتنا بھی دعویٰ کرے گزشتہ دہائی کے مقابلے میں ملک کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں کافی کمی آئی ہے۔ قومی دفتر برائے شماریات (این ایس او) کے مطابق چار دہائی میں جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو 5.7 تا 5.8 فیصد رہی۔ اگر اس کا موازنہ منموہن سنگھ کے دور حکومت سے کیا جائے تو اوسط شرح نمو آٹھ فیصد رہی تھی۔ دو دہائیوں میں تقریباً دو فیصد کی تخفیف کو نظر انداز کرنا غیر مناسب ہوگا۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کی جو مودی حکومت میں تنزلی ہوئی ہے۔ اس سے ملک کا انفراسٹرکچر، خرچ، فلاحی اقدامات، سرمایہ کاری، گھریلو خرچ، بچت، شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی بڑے مسائل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 2014 میں صارفین قیمت اشاریہ 112 تھا جو گزشتہ سال دسمبر میں بڑھ کر 174 تک پہنچ گیا ہے۔ خردہ مہنگائی تقریباً دس فیصد ہے جس کی وجہ سے گھریلو بچت میں زبردست کمی دیکھی جارہی ہے۔ آمدنی کم ہو یا زیادہ لوگ اپنے اخراجات اور بچت میں کمی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے کل گھریلو سرمایہ 5.1 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ کم ہونے سے طلب میں بھی تنزلی آئی ہے۔ اس لیے کھپت میں اضافہ پر توجہ دینی ہوگی اس کے علاوہ مناسب پالیسی اور اقدامات کے ذریعہ نجی سرمایہ کاری اور برآمدات کو فروغ دیا جائے کیونکہ ہماری درآمدات، برآمدات سے بہت زیادہ ہیں اور کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ بھی بہت ہے۔ واضح رہے کہ ملک کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہوا ہے کیونکہ مرکزی حکومت کی نوٹ بندی نے بڑی معاشی رکاوٹیں پیدا کی ہیں جس سے سماج کا ہر طبقہ کم و بیش متاثر ہوا۔ اس کے بعد جی ایس ٹی اور کورونا وبا نے بچی کھچی کسر پوری کردی اور حکومت کی طرف سے بغیر منصوبہ کے سخت لاک ڈاون نے ملک کی معیشت کو منفی مقام پر پہنچا دیا ہے۔ نتیجتاً لوگوں کے کاروبار بند ہوگئے، صنعتیں ٹھپ پڑگئیں اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار ہوکر اپنے آبائی وطن ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں، ساتھ ہی ملک کو افراط زر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مہنگائی کی اونچی شرح نے صارفین کی قوت خرید کو کم کرکے رکھ دیا، طلب میں کمی آئی، کاروبار متاثر ہونے لگے۔ یہ سب نتیجہ حکومت کی غلط معاشی پالیسی کا رہا۔ مودانی ماڈل سے کارپوریٹ کا پیٹ پھول کر غبارہ ہو رہا ہے جبکہ غریبوں کا پیٹ کمر کو لگ رہا ہے۔ ستائیس کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مودی حکومت میںتوانائی کی قیمت حد درجہ اونچائی پر ہے اس کے ساتھ ہی کینسر، ٹی بی اور گردہ کی ادویات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو دیگر ترقی یافتہ معیشتوں سے بہتر ہے لیکن کروڑوں لوگوں کو روزگار دینے کے قابل نہیں ہے۔ فی الحال ملک میں میڈیکل افراط زر چودہ فیصد کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔
اگرچہ کہ ہمارا ملک معاشی طور پر بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی طرف گامزن ہے مگر اس کے ساتھ ہی معاشی نابرابری میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق لگژری کاروں، مہنگے عالیشان فلیٹس اور امرا کے عیش و عشرت کے سامان خوب فروخت ہو رہے ہیں جبکہ سستی کاریں، اسکوٹی اور چھوٹے مکانات کا بازار سکڑ رہا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا بازار ہے لیکن روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی مارکیٹ میں تنزلی دیکھی جارہی ہے۔ ماہرین اقتصادیات اسے ’V‘ شکل کی ریکوری کہتے ہیں جس میں امیر مزید امیر ہو رہے ہیں اور غریب مزید غریب۔ ایسے حالات میں جملہ باز مرکزی حکومت ملک کے عوام کو گم راہ کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتی۔ ایک طرف حکومت تقسیم کی سیاست کے پرانے نقشے پر چل رہی ہے ساتھ ہی چار ٹریلین ڈالر کی معیشت کا شوشہ چھوڑ کر بھکتوں سے خوب واہ واہی لوٹ رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس خبر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر معاشیات جیتی گھوش نے اپنے آرٹیکل میں وضاحت کی کہ سماجی تقسیم کی سیاست کی وجہ سے معیشت میں روپے کی فراوانی نہیں ہوتی جو معیشت کو رفتار دینے کے لیے ضروری ہے۔ لوگ ایسے حالات میں خوب سوچ سمجھ کر خرچ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ معیشت کے لیے خرچ کے ایسے طریقے کو خطرناک سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے سرمایہ چند ہاتھوں میں محدود ہو جاتا ہے۔
ملک میں طلب (ڈیمانڈ) میں گراوٹ آئی ہے اور متوسط طبقے کی قوت خرید میں 2014 کے بعد سے بڑی کمی آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم کے سابق چیف اکنامک ایڈوائزر اروند سوامی نے اپنے ایک مضمون میں واضح کیا ہے کہ بھارت کی شرح نمو سات فصید نہیں ہے۔ یہ محض ساڑھے چار فیصد ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں گروتھ کا فائدہ صرف چند لوگوں کو ہوا ہے اور اکثر لوگوں کی حالت بدتر ہوگئی ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ دولت اصلاً دولتمند ہی بڑھاتے ہیں۔ ان کو نہیں لگتا ہے کہ طلب بھی کوئی چیز ہے۔ اگر وہاں خریدار نہیں ہوگا تو ملک کی معیشت کی رفتار میں تنزلی آئے گی اس کے لیے زراعت کو ترجیحات میں رکھنا ہوگا۔ کسانوں اور مزدوروں کے ہاتھ میں پیسہ آئے گا تو طلب بڑھے گی اور اسی سے گروتھ ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023