زعیم الدین احمد، حیدرآباد
پہلے آئین بدلنے کی بات دبے لفظوں میں کہی جاتی تھی لیکن اب وزیر اعظم کے اطراف رہنے والے اور ان کے مشیروں کی جانب سے آئین کو بدلنے کی بات کھلے عام کہی جانے لگی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومتی سطح پر آئین کی تبدیلی کی گفتگو کا باضابط آغاز ہوچکا ہے۔
جس کا ڈر تھا بالآخر وہی بات ہوگئی۔ ملک کی اقلیتوں، دلتوں اور قبائل کی جانب سے جس بات کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا اس کا اظہار وزیر اعظم مودی کے معاشی مشیر بیبیک دیبرائے کی زبان سے ہو ہی گیا۔ جیسے ہی بی جے پی اپنی پوری قوت کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوئی اسی وقت سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس کا پوشیدہ ایجنڈہ ملک کا آئین تبدیل کرنا ہے، یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ آئین ملک کی ’اعلیٰ‘ ذاتوں اور طبقات کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ ملک کا یہ آئین شروع ہی سے ان کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا، اسی لیے وقفے وقفے سے اس کو تبدیل کرنے کی بات اٹھائی جاتی رہتی ہے۔ کچھ عرصے قبل تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ نے بھی آئین کی تبدیلی کی بات کہی تھی۔ جب ایک صحافی نے اس بابت سوال کیا تو انہوں نے سوال کو کسی اور طرف پھیر دیا۔ اگر بیبیک دیبرائے کے بیانیے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی غلط نہیں ہوگا۔
بیبیک اوبرائے نے منٹ میں ایک مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے نئے دستور کی تدوین کی بات کہی ہے، انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ بھارتی آئین کو نئے سرے سے مدون کیا جانا چاہیے۔ یہ مضمون کوئی عام مضمون نہیں ہے جسے ان کی ذاتی رائے پر محمول کرکے خارج کر دیا جائے، بلکہ یہ مضمون اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جسے آر ایس ایس کی سوچ کہا جاتا ہے۔ آئین تبدیل کرنے کے لیے سال بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ملک کا آئین 2047ء تک تبدیل کر دیا جانا چاہیے۔ یہ بات ہمارے ذہنوں میں ہونی چاہیے کہ یہ وہی بیبیک دیبرائے ہیں جو کسی بھی موضوع پر جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو چند ہی دنوں بعد من وعن وہی خیالات وزیر اعظم مودی بھی ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ اب یہ حسن اتفاق ہے یا پھر کوئی سوچا سمجھا منصوبہ لیکن جو بات وزیر اعظم کے معاشی مشیر کہتے ہیں وہی بات وزیر اعظم بھی کہتے ہیں۔ پہلے آئین بدلنے کی بات دبے لفظوں میں کہی جاتی تھی لیکن اب وزیر اعظم کے اطراف رہنے والے اور ان کے مشیروں کی جانب سے آئین کو بدلنے کی بات کھلے عام کہی جانے لگی ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومتی سطح پر آئین کی تبدیلی کی گفتگو کا باضابطہ آغاز ہو چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے اور ہر ایک کو یہ پسند ہے کہ ترقی و تبدیلی ہو اور بڑی تیز رفتاری سے ہو، تو اس کے لیے ہمارے آئین کو بھی اسی کے مطابق ہونا چاہیے، ہمیں جو آئین ملا تھا وہ 1950ء میں تدوین ہوا تھا، اس وقت ملک کا جو آئین ہے وہ اپنی اصلی حالت میں موجود بھی نہیں ہے کیوں کہ اس میں کئی بار ترمیم کی جا چکی ہے، اور آئین میں ترمیم ہمیشہ بہتری کے لیے نہیں ہوئی ہے، اس میں کئی بار جو ترمیم ہوئی ہے اس سے ملک کی ترقی کو نقصان بھی ہوا ہے۔ موصوف کو عدالت عظمٰی کی اس بات سے بھی اختلاف ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجودہ دستور کی ترامیم پر لاگو ہوتا ہے۔ نئے دستور پر نہیں، ہمارا آئین در اصل 1935ء میں انگریزوں کی جانب سے مدون کیے گیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ سے ماخوذ ہے، اس وراثت میں ملے دستور میں اب کچھ ترامیم سے کام چلنے والا نہیں ہے، اب تو نئے آئین کی تدوین ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ دستور میں سیکولرزم، جمہوریت، مساوات اور انصاف جیسے الفاظ کا کیا مطلب ہے اور ان الفاظ کی کیا حیثیت ہے؟
سوال یہ ہے کہ کیا مساوات اور انصاف جیسے الفاظ کا مطلب عوام کی نظر میں الگ اور بیبیک دیبرائے کی نظر میں الگ ہے؟ کیا ان کی سیاسی زندگی میں ان الفاظ کے مطالب تبدیل ہوگئے ہیں؟ کیا سیکولرزم اور جمہوریت کے مطالب بھی ان کی فرہنگ یا لغت میں الگ ہیں جو ہم جیسے عام شہریوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں؟ ایسا کیا ہو گیا کہ وہ شہریت کا نیا مفہوم چاہتے ہیں؟ ان کے ذہن میں کیا چل رہا ہے معلوم نہیں، لیکن دستور کو تبدیل کرنے کی باتیں اور 2024ء کے انتخابات کو یکجا کر کے دیکھنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جمہوریت اور انصاف کی آئین میں کیا مطابقت رہ گئی ہے۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے پس پردہ کوئی اور بات پوشیدہ ہے، جیسا کہ آر ایس ایس کا دیرینہ خواب اور خواہش ہے کہ ملک کے دستور کو مکمل طور پر تبدیل کیا جانا چاہیے۔ مسٹر بیبیک دیبرائے کے خیالات اسی کا پر تو نظر آتے ہیں۔ ان کا یہ مضمون یقیناً خطرناک ارادوں سے بھرا ہوا لگتا ہے، لہذا ملک کے شہریوں کو چوکنا ہوجانا چاہیے۔ ہندوتوا نظریہ کے ماننے والوں کی باتوں کو جو کھلے عام کہتے ہیں کہ آئین بدل کر ہندو راشٹر کا آئین لاگو کرنا چاہیے، ان کے مطالبات کو اور بیبیک دیبرائے کے خیالات کو ملا کر دیکھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان ہندوتوا نظریہ کے ماننے والوں اور مودی کے معاشی مشیر کے خیالات میں کوئی خاص فرق معلوم نہیں ہوتا۔ پچھلے کچھ عرصے میں آئین میں جس طرح کے ترامیم کی گئی ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب ترامیم سے مکمل فائدہ حاصل نہیں ہو پا رہا ہے لہذا اسے پورے طور پر تبدیل کر دیا جائے اور ایک نئے دستور کی تدوین کردی جائے جہاں ان کے مطابق قوانین ترتیب دیے جا سکیں۔
یقیناً یہ ایک خطرے کی گھٹی ہے۔ وزیر اعظم مودی کے معاشی مشیر کے خیالات ملک کے تحفظ کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، خاص طور پر اقلیتوں اور کمزور طبقات میں بے چینی اور ہیجان برپا ہو رہا ہے۔ وقت آچکا ہے کہ ایسے خطرناک ارادے والوں کو ناکام بنا دیا جائے، ان کی ہر اس چال کو الٹ دیا جائے جو ملک کے مفادات، اس کی سالمیت اور اس کے تحفظ کے لیے خطرہ بن چکے ہوں۔
***
***
یقیناً یہ ایک خطرے کی گھٹی ہے، وزیر اعظم مودی کے معاشی مشیر کے خیالات ملک کے تحفظ کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، خاص طور پر اقلیتوں اور کمزور طبقات میں بے چینی اور ہیجان برپا ہو رہا ہے۔ وقت آچکا ہے کہ ایسے خطرناک ارادے والوں کو ناکام بنا دیا جائے، ان کی ہر اس چال کو الٹ دیا جائے جو ملک کے مفادات، اس کی سالمیت اور اس کے تحفظ کے لیے خطرہ بن چکے ہوں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023