!بھارت میں تعلیمی نصاب تعصب و تنگ نظری کی زد میں
اعلی تعلیمی اداروں کے نصاب سے مسلم مفکرین کا اخراج
تحریر: شفاعت وانی ( ریسرچ اسکالر)
مترجم : احمد فیاض
مسلمانوں کے تاریخی کردار پر خطِ تنسیخ پھیرنے کی کوشش
رواں برس 27 مارچ کو دلی یونیورسٹی کے تعلیمی کونسل نے پندرہ گھنٹے کی طویل میٹنگ کے بعد شاعر و فلسفی علامہ محمد اقبال کو سیاسیات کے نصاب سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خصوصاً بی اے تعلیمی پروگرام کے چھٹے ششماہی کے باب بعنوان ’’جدید ہندوستانی سیاسی فکر‘‘ سے انہیں حذف کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ جس نے مذکورہ میٹنگ کی صدارت کی تھی، یہ کہہ کر اس فیصلے کا دفاع کیا کہ جن افراد نے تقسیم ہند میں مرکزی کردار ادا کیا ہے انہیں شامل نصاب نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ان شخصیات کے بجائے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی تعلیمات پر توجہ مرکوز کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
برصغیر کی مبہم تاریخ نگاری پر مذکورہ وائس چانسلر کا نقطہ نظر تنگ نظری کا مبنی ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہمیں اس فیصلے کو ایک وسیع ڈھانچے یا نظام کے سیاق میں رکھ کر سمجھا جانا چاہیے جو مسلمان دانشوروں کو حاشیہ پر دھکیلنے اور انہوں نے تاریخ میں جو اہم رول ادا کیا ہے، اس پر خط تنسیخ پھیرنے کے لیے کئی طرح کے اقدامات کرتے ہیں۔
کیمبرج اور میونخ جیسے موقر اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے علامہ اقبال کو نصاب سے بے دخل کرنے کو علیحدہ واقعے کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہیے بجائے اس کے اسے بائیں بازو کے لبرل اکیڈمیا کی جانب سے شروع کیے گئے موجودہ تنسیخی اور غیر مرئی منصوبے کے حصے کے طور پر سمجھنا چاہیے اور جسے اب مستقبل میں تنسیخ کے لیے ہندوتوا نظریہ کے زیر تسلط موجود تعلیمی ماحول میں مکمل سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔
علامہ اقبال کو اگر تقسیم ہند کے تصور کا ’’بنیاد ساز‘‘ تصور کیا جاتا ہے تو پھر تقسیم کے خلاف اپنے مضبوط بیانیے اور مفکرانہ تقریروں کے ذریعے اس تصور کی مخالفت کرنے والے مولانا بوالکلام آزاد کی ستائش، عزت اور احترام کیا جانا چاہیے اور انہیں بہت شہرت واہمیت دینی چاہیے۔ تاہم یہ امر پریشانی کا باعث ہے کہ حال ہی میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹرینگ نے گیارہویں جماعت کی سیاسیات کی درسی کتاب کے پہلے باب بعنوان Constitutions: How and why? سے مولانا آزاد کا نام نکال باہر کیا ہے۔ زیر بحث اقتباس میں اس سے پہلے یہ بات لکھی گئی تھی کہ قانون ساز اسمبلی میں مختلف موضوعات پر آٹھ بڑی کمیٹیاں تھیں۔ عموماً ان کی صدارت جواہر لال نہرو، راجندر پرساد، سردار پٹیل، مولانا آزاد یا امبیڈکر کرتے تھے اور اب مولانا آزاد کو خارج کر کے اس میں صرف نہرو، پرساد، پٹیل اور امبیڈکر کا نام لیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی ایک علامتی پیغام کی عکاسی کرتی ہے کہ ہندوستان کا آئین ترتیب دینے میں مسلمانوں کا کوئی مرکزی کردار نہیں ہے۔ یہ امر ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ جب مولانا آزاد کے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ قریبی تعلق کو دیکھتے ہیں جن میں سے اکثر کے ساتھ انہوں نے جیل میں سالہا سال گزارے، مولانا آزاد کو غیر اہم بنانے کی کوشش کا آغاز معاصر ہندوستانی سیاست میں ہندوتوا اکیڈمیا کے عروج سے نہیں ہوا بلکہ اس کی ابتدا ان کی بعد از مرگ شائع ہونے والی تصنیف India Wins Freedom (آزادی ہند) سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے نہرو اور پٹیل کو برصغیر میں مسلمانوں کی تقسیم اور پسماندگی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
یہاں ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر نئے تعلیمی نصاب میں شمولیت یا عدم شمولیت کے لیے برصغیر کی تقسیم کو معیار تسلیم کیا جائے تو پھر مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی قدر شناسی اور احترام کیا جانا چاہیے، جن میں مسلم لیگ کی شناختی سیاست اور ہنگامی تجویز تقسیم کی شدت سے مخالفت کی گئی ہے، انہیں ترجیح دینی جانی چاہیے تھی۔ مزید یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نصاب سے مولانا مودودیؒ کی تصانیف منسوخ کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح تحریک دیو بند سے وابستہ شخصیات جیسے سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، محمود حسن اور حسین احمد مدنی کے فاضلانہ کارنامے، جہدو جہد آزادی میں ان کی قربانیاں اس لائق تو ہیں کہ کم سے کم بائیں بازو لبرل اکیڈمیا کے فٹ نوٹ میں ان کا ذکر ہی آتا مگرا نہیں بھی نظر انداز کر دیا گیا۔
بائیں بازو لبرل اکیڈمیا کی دائرے میں علامہ اقبال کو ایک ایسی شخصیت کے بطور خیال کیا جاتا ہے جو مسلم دانشورانہ فکر کے اس گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں جدید خیالات مسلم بالا دستی کے ساتھ آمیز ہیں۔ دوسری جانب مولانا مودودی کو ایک بنیاد پرست سمجھا جاتا ہے جب کہ دیوبندی علما بشمول مولانا حسین احمد مدنی کو قدامت پسندی اور مراسم عبودیت کی کٹر پنتھی کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ مولانا آزاد کو محض ان کی مابعد تحریک خلافت رول کے تناظر میں کسی حد تک قابل اعتنا سمجھا جاتا ہے۔
تاہم ہندوتوا اکیڈمیا کے نقطہ نظر سے مذکورہ کثیر الجہات شخصیات میں ایک مشترک رشتہ ہے۔ ان کا نظریاتی اور عملی مدیر وحکمت جس کا مقصد نو آبادیاتی جدید کاری کے ارتقا پذیر ہوتے منظر اور برہمنی ہند کی اٹھان میں مسلمانوں کے مستقبل کا تحفظ ہے۔
اس بات میں رتی برابر شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ رائج الوقت اکیڈمیا میں جنوب ایشیائی مسلم فکر کی تاریخ اور روایت کا تخفیفی افہام و تفہیم نفوذ کرچکا ہے۔ مسلم مفکرین کو اکثر ثنائی گروہ بندی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے قبل از جدید بمابلہ جدید رجعت پسند بمقابلہ ترقی پسند، اختصاصی بمقابلہ شمولیت پسند۔ مسلم مفکرین کو سخت گیر لیبلز تک محدود کرنے کا یہ میلان نہ صرف اس تاریخی تناظر کے خلاف ہے جس میں انہوں نے زندگی گزاری، تشدد کی توسیع کرتا ہے بلکہ یہ ہندوستانی اکیڈمیا حلقے کے مابین منہاجیاتی لاچارگی اور تصوراتی بھولپن کو طشت از بام کرتا ہے۔ مسلمان اہل دانش و بینش نے ہمیشہ برصغیر میں نوآبادیاتی نظام کی طرف سے برآمد شدہ نئے دائرہ عمل کے تئیں مصالحت، موافقت اور درست سمت اختیار کی ہے۔ انہوں نے شائستگی اور کبھی کبھار شدت سے آپس میں اتفاق واختلاف کیا ہے۔ ان کے کام میں اشتراک کو افتراق کے لمحے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریروں کی درست علامتی اور معنوی افہام وتقسیم نہ ہونے کا نتیجہ فقط ان کو حاشیے پر دھکیلنے کو تیز تر کردے گا جس کو بائیں بازو لبرل اکیڈمیا نے ان کی تاریخ نگاری پر ہاتھ صاف کرکے اور دائیں بازو کے دانشوران ان کے وجود کو منظم طریقے سے ختم کرنے کے عمل کو پہلے ہی شہ دے چکے ہیں۔
اقبال کی فکری جہت میں ان کے عہد کے سلگتے بیانیے، سیاسی الہیات جدیدیت اور روحانیت کے نقطہ اتصال پر واقع ہیں۔ انہیں بجا طور پر ایک ایسا ناقد و مفکر کہا جا سکتا ہے جو ممتاز شخصیات کے تصورات جیسے برگساں کے تصور زمان ومکان، ہیگل کی جدلیات، کانٹ کی عقلیت پسندی، مارکس کے طبقاتی نظام اور ایکٹن کے تصور مملکت و ریاست کے ساتھ دوبدو ہوتے ہیں۔ ان فکری معرکوں کو سر کرنے کے بعد ہی علامہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ ڈھانچے سے توحید کی مرکزیت کا نتیجہ اخذ کیا۔ خصوصاً جس کا اثر ان کے فلسفیانہ نقطہ نظر سے معمور ’’خطبہ الہ آباد‘‘ میں نظر آتا ہے اور اسی سے بر صغیر کے مستقبل کی راہ تشکیل پائی۔ عمومی دعوؤں مثلاً ان پر ’’تقسیم ملک کا بانی‘‘ جیسے لیبل چسپاں کرنے کا نتیجہ مختلف صورتوں میں سراسر ان کی استدلالی میراث کو تقویت بخشے گا۔
نظریاتی طور پر دو گرو ہوں یعنی قوم پرست اور بائیں بازو کے لبرلز کے تاریخ نگاری کے منصوبوں کے درمیان ہندوستان کی تاریخ نگاری ناگہاں طور پر نشانہ بن گئی ہے۔ اس متحرک سینہ زوری کے درمیان مسلم تاریخ نگاری کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کی آواز دبائی جارہی ہے اور اسے اپنی زرخیزی اور نمائندگی سے پرے دھکیلا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ہتھیائی گئی اس کی قطع و برید کر کے، موقع و محل دیکھ کر اپنا مطلب نکالنے کی خاطر افکار و نظریہ ساز شخصیات کو نشان زد کرنا روایتی طور پر دائیں باز گروہوں کی قلمرو رہی ہے۔ سنگھ سے وابستہ حلقہ اب یہی منصوبہ اپنے نظریاتی ایمان کی بنا پر پسند و ناپسند کا طریقہ کار استعمال کر کے آگے بڑھا رہا ہے۔ نتیجتاً مسلمانوں کی فکری تاریخ غیر اہم ہو کر دونوں حلقوں میں حاشیائی حیثیت کی حامل ہو کر ادھر کی ہے نہ ادھر کی۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا مرکز برائے مطالہ سیاسیات اور شعبہ سیاسیات دہلی یونیورسٹی جیسے اہم ادارے جو ہندوستان میں متبادل سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے سیاسی و فکری رجحانات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان دونوں اداروں کا طالب علم ہوتے ہوئے میں اپنے راست تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام اور نو آبادیاتی جدید کاری کے سیاق وسباق میں اس کی تنقیدی، تدریجی اور امتیازی تاریخ کے تئیں ان دونوں اداروں سے وابستہ عملے کی کج فہمی عیاں ہے۔ اسلام کے متعلق پروفیسر (ریٹائرڈ) ویلروین روڈ ریگیوز کے کو چھوڑ کر اپنے قیام کی پانچ دہائیوں کے دوران مرکز برائے سیاسی مطالعات (بے این پی) نے کوئی بھی دقیق کارنامہ سامنے نہیں لایا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی جانب سے مذکورہ مضمون پر کوئی پر مغز بحث نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ ہندوتوا کی تاریخ نگاری میں ہندوتوا مورخین جیسے جے سائی دیپک، وکرم سمپت اور دیگر لوگوں نے جنہوں نے ہندوتوا کے نسلی منصوبے کو غیر نو آبادیاتی طریقہ کار کا آہنگ دے کر قابل قبول بنانے کی کوشش کی ہے، انہیں علامہ اقبال، مولانا آزاد اور مولانا مودودی جیسی شخصیات کے بنیادی فلسفوں سے نبرد آزما ہونا ہی پڑے گا۔ ان فلسفیوں کے لکھے ہوئے بنیادی متون کے مطالعے اور تدریس کے بغیر ’غیر نو آبادیاتی ہندوتوا‘ (اگر واقعی اس کی کچھ حقیقت ہے) کی تاریخ ایک کوشش نا تمام رہے گی۔ تعلیمی وتدریسی آزادی، ناقدانہ تفکرو تدبر اور دانشورانہ تابانی کا لازمہ ہے کہ متون کی ایک وسیع تعداد بشمول مارکر کی Six Glorious Epoches of Indian History گولوالکر کی Bunch of Thoughts امبیڈکر کی Riddles in Hinduism کارل مارکس کی Das Capital گرامسکی کی Prison Notebooks مولانا آزاد کی خطبات اور الہلال، اقبال کی Development of Of Metaphysics in Persia اور Reconstruction of Peligious Thought in Islam مولانا حسین احمد مدنی کی Composite Nationalism and Islam مولانا مودودی کی قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اور تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے ساتھ بحث وتمحیص کرنی ہوگی۔
ناقدانہ نظر، باریک بینی اور ثنوی ساختوں کے پوشیدہ خطرات سے احتراز کر کے ہی مذکورہ متون کی زرخیزی کو منکشف کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بائیں بازو کے لبرل اور ہندوتو اکیڈمیا دونوں وسیع و کثیر جہتی مطالعہ کے لیے فضا تنگ کر رہے ہیں۔
(مذکورہ بالا مضمون آن لائن انگریزی دیٹ سائٹ Maktoob پر شائع ہوا ہے۔ مضمون کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اردو کے قالب میں ڈھالنے کا کام احمد فیاض نے کیا ہے)
***
***
محمد اقبال کو اگر تقسیم ہند کے تصور کا ’’بنیاد ساز ‘‘تصور کیا جاتا ہے تو پھر تقسیم کے خلاف اپنے مضبوط بیانیے اور مفکرانہ تقریروں کے ذریعے اس تصور کی مخالفت کرنے والے مولانا بوالکلام آزاد کی ستائش، عزت اور احترام کیا جانا چاہیے اور انہیں بہت شہرت واہمیت دینی چاہیے۔ تاہم یہ امر پر یشانی کا باعث ہے کہ حال ہی میں نیشنل کونسل آف ایجو کیشنل ریسرچ اینڈ ٹرینگ نے گیارہویں جماعت کی سیاسیات کی درسی کتاب کے پہلے باب بعنوانConstitutions: How and why? سے مولانا آزاد کا نام نکال باہر کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023