!بھارت میں اسرائیل۔فلسطین تنازعے پر سیاست

کیا جنگ کے دردناک حالات کو ووٹ کے لئے استعمال کیا جائے گا؟

شبانہ اعجاز، کولکاتا

اسرائیل ۔فلسطین جنگ کو انسانیت کے چشمے سے دیکھنے کی ضرورت
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ پر پوری دنیا میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ دونوں ہی ملکوں میں جنگ کی تباہی کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ مہلوکین میں بزرگ ،خواتین بچے، نوجوان سبھی شامل ہیں۔ اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی کارروائیوں کے سبب فلسطین کا علاقہ تباہی کے مناظر پیش کر رہا ہے۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ شہریوں کی آہ و بکا کی تصویر کسی کا بھی دل دہلانے کے لیے کافی ہے۔ پوری دنیا میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ پر غم اور افسوس کا ماحول ہے۔ دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ آزاد فلسطین کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ مختلف ریاستوں جن میں کرناٹک، مہاراشٹر، بنگال، بہار اور تلنگانہ شامل ہیں، فلسطینی عوام کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ جہاں ان ریلیوں میں ہر کمیونٹی کے لوگ شامل ہو رہے ہیں وہیں ہمارے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازعے پر ایک دوسرا ہی منظر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ فیک نیوز کا بازار گرم ہے اور اس فیک نیوز میں اسرائیل کو ہیرو اور فلسطین کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی حملے پر خوشی منائی جا رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوتوا کی سیاست کرتے ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے حمایتی ہیں جو راتوں رات اسرائیل کے اتنے قریب ہوگئے کہ ہندو-یہودی بھائی بھائی کے نعرے لگارہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل و فلسطین کے حالات کو ملک کی انتخابی سیاست میں بھنانے کی کوشش کی جائے گی؟ کیا جنگ کے دردناک حالات کو ووٹ کے لیے استعمال کیا جائے گا؟ کیونکہ ہمارے ملک میں پہلی بار ایسا دیکھا گیا ہے جب فلسطین کی حمایت میں آنے والے لوگوں کے خلاف ایف آئی ار درج کی گئی ہے۔ ہندوتوادیوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ جو لوگ فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں اور اسرائیل کی بربریت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں وہ کیوں فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں؟ وہ کیوں اسرائیل کے خلاف ہیں؟ کئی ایسی خبریں چلائی جا رہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جو فلسطین کی حمایت میں نعرے لگا رہے ہیں کہیں نہ کہیں دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے حالات لوگوں کے سامنے ہیں، انہوں نے فلسطین کی حمایت میں نعرے لگائے۔ آزاد فلسطین کے بینر کو اٹھایا اور فلسطین کے حق میں دعائیں کیں۔ اب ان طلباء کے خلاف یوپی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر بھی درج کر لیا ہے۔ ملک کی سیاست میں اچانک اسرائیل اور فلسطین کو لے کر دو گروپوں کے سامنے آنے پر حیرانی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ ادڈیشہ کے کئی ایک تعلیمی اداروں کے طلباء کو فلسطین کی حمایت میں ریلی نکالنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ کیا یہ گاندھی جی کا وہی ہندوستان ہے جو ہمیشہ فلسطین کا قریبی رہا ہے؟ گاندھی، نہرو اور ان کے بعد کی حکومتیں تو ہمیشہ فلسطین کی حمایت میں کھڑی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ وہی ملک ہے جس نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار تعلقات اور فلسطینی عوام کی بقا اور ان کی پرامن زندگی کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے؟ لیکن آج اچانک اس نظریے میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اسرائیل پر حماس کے حملے کے فوراً بعد وزیر اعظم نے ٹویٹ کر کے حماس کے حملے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اسی ٹویٹ کی بنیاد پر ملک میں نفرت کے سوداگروں نے سوشل میڈیا پر اسرائیل کے حق میں مہم چلائی اور حماس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔
آج کے اس گلوبل دور میں دنیا کے کسی کونے میں بھی اگر کچھ ہوتا ہے تو اس کی خبر دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور پھر یہ تو اسرائیل و فلسطین کا معاملہ تھا جو برسوں پرانا ہے۔ یہودیوں پر ہٹلر کے ظلم کے بعد یہودیوں کو پرامن زندگی دینے اور انہیں بسانے کے لیے یورپی طاقتوں نے اپنے کاندھوں سے بوجھ اتار کر عربوں کے بیچ فلسطین کی زمین پر انہیں بسایا۔ اس کے بعد ہی سے یہ تنازع شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ 76 برسوں سے فلسطینی عوام ظلم و بربریت کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کے مکانات و زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں دربدر کیا جا رہا ہے۔ برسوں سے اسرائیل فلسطین پر حملے کرتا آرہا ہے- یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایک بار پھر یہ تنازعہ گہرا ہوگیا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کو جنگ کے حالات کا سامنا ہے۔ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے حملے تیز کر دیے ہیں۔ شہر کے شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے ہی دن ٹویٹ کر حملے کو افسوسناک بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے حق میں رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں کی بڑی تعداد نے وزیر اعظم کے ٹویٹ پر حیرانی کا اظہار کیا۔ وہ اس وقت اور بھی حیران رہ گئے جب فلسطین کی حمایت میں ریلی نکالنے والے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ایف آئی آر تک درج کی گئی اور فلسطین کی حمایت کرنے والوں کو دہشت گرد تک کہا گیا۔ ہندوتوادی ہندو-یہودی بھائی بھائی کے نعرے لگانے لگے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ وہی ملک ہے جہاں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا ’’اسرائیل کو عربوں کی زمین واپس دینی ہوگی اور یاد رکھیں کہ ظالم کسی کے گھر پر قبضہ کر لے تو ایک دن اسے چھوڑنا پڑے گا۔ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہے گا،  یہ ہماری حکومت کا موقف ہے۔۔‘‘؟ ایسے میں ملک میں اسرائیل و فلسطین کو لے کر کی جانے والی نفرت کی سیاست سے ملک کے عوام میں بے چینی دیکھی جارہی ہے جبکہ بی جے پی اور ہندوتوائیوں کو اس معاملے کو انتخابی کارڈ بنانے کا موقع مل گیا ہے۔ بعد میں وزارت امور خارجہ نے فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فلسطین میں امن کی حمایت کرتا ہے۔
ملک کی دیگر ریاستوں کے ساتھ بنگال میں بھی فلسطین کی حمایت میں ریلی نکالی گئی۔ آل بنگال اقلیتی یوتھ فیڈریشن نے فلسطین کی حمایت میں ریلی نکالی اور وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن کی بحالی کے لیے اقدامات کریں۔ فیڈریشن کے چیرمین قمرالزماں نے کہا کہ اسرائیل و فلسطین کی آڑ میں ملک کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کی تنظیم نے وزیر اعظم کو ایک خط بھیجا ہے جس میں فلسطین پر اسرائیل کے ظلم و بربریت کے حوالے سے فلسطین کی حمایت میں ملک کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے ان سے امن کی بحالی کے لیے مداخلت کی اپیل کی گئی ہے۔ یوتھ فیڈریشن نے اپنا خط ریاستی گورنر کو سونپا۔ وہیں جماعت اسلامی ہند کی بنگال شاخ کی جانب سے بھی فلسطین کی حمایت میں بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف فرقوں کے لوگ شامل ہوئے اور آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئے فلسطین-اسرائیل معاملے پر ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو تشویشناک بتایا۔ بنگال میں بھی بی جے پی کے کئی لیڈروں نے فلسطین کی حمایت کو دہشت گردوں کی حمایت بتایا اور فلسطین کی حمایت میں لگنے والے نعروں کو غلط بتایا۔ فلسطین کی حمایت میں نکالی گئی ریلی کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
ہندوستان ہمیشہ امن پسند ملک رہا ہے۔ جو لوگ فلسطین کی حمایت میں احتجاج کر رہے ہیں وہ امن و امان کی بحالی کی اپیل کر رہے ہیں۔ مارے جانے والوں کے لیے دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ اگر کہیں نا انصافی ہوتی ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھانا اس کے خلاف بولنا انسانیت کا تقاضا ہے۔ لیکن ملک میں اس معاملے پر جس طرح کے حالات ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ انتخابی تقاضوں نے انسانی تقاضوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023