بھارت اور شہریوں کی ترقی ساتھ ساتھ چلے

بڑی معیشت ضروربنیں لیکن فی کس آمدنی میں اضافہ کو ترقی کا پیمانہ بنایا جائے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہمارے ملک کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے اوپر ہے۔ اس طرح ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد تقریباً 60 فیصد ہے، مگر ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ کیا معیشت کے حجم میں اضافہ مینوفیچکرنگ، کانکنی، ڈیجیٹل، اختراعیت اور بنیادی اہمیت کے حامل سیکٹرس کی صنعتوں میں بہتری ہمہ جہتی ہے یا محض صارف اور کھپت میں اضافہ پر ہی منحصر ہے۔
ہمارا ملک دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ سب سے اوپر امریکہ، دوسرے نمبر پر چین ہے پھر جاپان اور جرمنی ہے۔ ویسے کورونا وبا کے بعد جاپان اور جرمنی کی معیشت کی شرح نمو بہت دھیمی ہے جبکہ ہماری معیشت کی شرح نمو سب سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ ہماری معیشت کا حجم 3.7 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ جاپان اور جرمنی کی معیشت کا حجم بالترتیب 4.4 ٹریلین ڈالر اور 4.3 ٹریلین ڈالر ہے۔ آئندہ دہائی میں ہمارا ہدف 5 ٹریلین ڈالر کا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے اوپر ہے اس طرح ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد تقریباً 60 فیصد ہے مگر ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ کیا معیشت کے حجم میں اضافہ مینوفیچکرنگ، کانکنی، ڈیجیٹل، اختراعیت اور بنیادی اہمیت کے حامل سیکٹرس کی صنعتوں میں بہتری ہمہ جہتی ہے یا محض صارف اور کھپت میں اضافہ پر ہی منحصر ہے۔ بھارت کا جتنا بڑا بازار ہے اور اتنے ہی زیادہ وسائل بھی ہیں تو ہمیں اپنے ہدف کی دستیابی کے لیے لبرل رویہ اپنانا ہوگا جو بھروسہ مند اور مسلسل جاری رہنے والے بہتر ضابطوں سے ہی ممکن ہے اس لیے کہ ہمہ جہتی ترقی ایک بڑا چیلنج ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ فوربس کی رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی فی کس آمدنی امریکہ کا 80.3 ہزار ڈالر ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے اس کے بعد دوسرا مقام جرمنی کا ہے۔ اگرچہ ہم برطانیہ کو پچھاڑ کر معیشت میں پانچویں مقام پر پہنچ گئے ہیں اور برطانیہ ابھی چھٹے مقام پر ہونے کے باوجود جی ڈی پی فی کس آمدنی کے مقابلے میں کناڈا کے بعد چوتھے مقام پر ہے۔ اس کے بعد ہی فرانس، اٹلی اور جاپان ہیں۔ یہ پیمائش اہم ذریعہ ہے کیونکہ املاک کی تقسیم کا اندازہ لگانا ہے۔ اس لیے ہمارا نصب العین محض بڑی معیشت بنے رہنا ہی نہ ہو، بلکہ جی ڈی پی کو فی کس آمدنی کے پیمانہ پر لاتے ہوئے بھارت کو آگے لانا ہوگا تاکہ ملک سے غربت کا خاتمہ ہو۔ عام آدمیوں کے ہاتھوں میں پیسے کے ساتھ خوشحالی و ترقی بھی نظر آئے۔ ابھی بھارت کا 2.6 ہزار ڈالر کی جی ڈپی فی کس آمدنی کا ریکارڈ دس بڑی معیشتوں میں کم ترین ہے۔ 13.72 ہزار ڈالر کی فی کس آمدنی کے ساتھ چین جو دوسری بڑی معیشت ہے ہم سے بہت آگے ہے۔ یہاں تک کہ برازیل بھی 9.67 ہزار ڈالر کے ریکارڈ کے اس پیمانہ میں ہم سے بہت آگے ہے۔
ہمارے ملک میں سالانہ 86 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو زراعت، مینوفیکچرنگ خصوصاً ایم ایس ایم ای سیکٹرس کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جائے تو ممکن ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی اسکلنگ اور ہنر مندی پر بھی دھیان دینا ہوگا۔ مثلاً گتی شکتی یوجنا کے ساتھ نئے لاجسٹک منصوبوں کو موثر طور پر نافذ کرنا۔ ابھی خواتین کی لیبر فورس کی حصہ داری 25 فیصد ہی ہے جسے 40 تا 50 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ ہمارا ملک ڈیجیٹل لین دین میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ اس کے باوجود ہمیں اسکل ٹرینڈ ٹیلنٹ ڈیجیٹل کاروبار کو مزید بڑھانا ہوگا۔ اب تو مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، کلاوڈ کمپیوٹنگ کے اسکلس سے سب سے زیادہ آبادی والے نوجوانوں کو تربیت دینا ہوگا۔ روپے کی قدر کو بڑھانے اور اسے بین الاقوامی شکل دینے کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔ گھریلو بازار میں آمدنی میں اضافہ کی ہمت افزائی کرنی ہوگی۔ ہماری بڑی آبادی 30 سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے مگر روزگار ندارد ہے۔ آج ملک میں شرح بیروزگاری 6.1 فیصد ہے جو اب تک کی سب سے اونچی شرح ہے۔ شہروں میں 7.6 فیصد نوجوان بیروزگاری کی مار سہہ رہے ہیں اس لیے ملک میں کام چلاو منصوبوں سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ ای کامرس اور مارکیٹنگ کا مستقبل سنہری ضرور ہے۔ صارفین کے تئیں اور اندرونی کاروبار و تجارت سے متعلق وزارت میں کئی طرح کی تبدیلیوں سے ایم ایس ایم ای کا اچھی طرح چلنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ الکٹرونکس اور آئی ٹی وزارت کے لیے بھروسہ مند پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کو ورک فورس میں شامل کرنا ہوگا جس سے آمدنی میں اضافہ ہو۔ طلب بڑھے گی اور مینوفیکچرنگ طلب کی بنیاد پر آمدنی کا پہیہ تیزی سے گھومے گا۔ اس لیے جی ڈی پی کے ساتھ ہی فی کس آمدنی، شرح بے روزگاری، فاسٹ موونگ تجارتی اشیا کی طلب پر بھی نظر رکھنا ہوگا۔ بھارت کے ساتھ بھارتیوں کی ترقی بھی ضروری ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 2030ء تک ہمارے ملک کی فی کس آمندی 4 ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گی، تب بھارت ایک درمیانی آمدنی والا ملک بن جائے گا۔ ہم نے آزادی کے امرت کال کا 76واں یوم آزادی منایا ہے۔ اس مدت میں ملک میں معاشی تیز رفتاری اور سائنس و ٹکنالوجی میں بلندی پر پہنچنے کے باوجود ہمارا ملک بھکمری کے معاملے میں 116 ممالک کی فہرست میں 91ویں مقام پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 69 کروڑ افراد بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ اس میں ہمارے ملک کے 20 کروڑ خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے دیگر ضروری سہولتیں حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کو میسر نہیں ہیں۔ ملک کا ہر چوتھا شہری بے گھر ہے۔ مہنگائی تو آسمان کو چھورہی ہے۔ ایسے حالات میں بڑی تعداد میں بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ نہیں ہے۔ اس پر مہنگائی کی مار الگ۔ جملے بازی کرنے والی حکومت کی طرف سے سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا جبکہ گزشتہ چند سالوں میں تین کروڑ افراد اپنا روزگار گنوا بیٹھے ہیں۔ ملک میں علاج معالجہ کا حال تو بہت برا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت بدستور خراب ہے، اس لیے غریب سے غریب لوگ بھی پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شعبہ تعلیم کا حال تو روز بروز بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ آٹھ سالوں میں چار ہزار سرکاری پرائمری اسکول بند ہوگئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں لاکھوں آسامیاں خالی ہیں جن کی بحال نہیں ہورہی ہیں۔ ملک میں عدم تحفظ کی وجہ سے محض پانچ سالوں یعنی 2015ء سے 2020ء کے درمیان جن کروڑ پتی کاروباریوں نے ملک کی شہریت ترک کرکے دوسرے ممالک میں رہنے کو ترجیح دی ان کی تعداد آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ صرف 2021ء میں ایک لاکھ 63 ہزار 370 لوگوں نے ملک کی شہریت کو خیرآباد کہہ دیا جو بہت ہی تشویش ناک ہے۔
آر جگناتھن آر ایس ایس کے مفکر، قلم کار اور ماہر اقتصادیات ہیں۔ انہوں نے برملا کہا کہ اگر بھاجپا بھارت کو پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانا چاہتی ہے تو اسے بے تکے فرقہ وارانہ منافرت کے اوپر بہتر حکمرانی کو اولیت دینا ہوگا، کیونکہ جب تک ملک میں امن و امان قائم نہیں ہوگا ملک میں حقیقی ترقی نہیں ہوگی۔ فرقہ واریت کی زہر کی کاشت کاری کرکے الیکشن جیتا جاسکتا ہے، مگر نفرت، خون خرابہ، دنگا فساد اور آپسی تناو کے واقعات میں اضافہ سے ترقی کی بلیٹ ٹرین کبھی بھی دوڑ نہیں پائے گی کیونکہ معاشی ترقی اور بھائی چارہ میں براہ راست تعلق رہا ہے۔ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے مگر فرقہ امن و شانتی اور باہمی بین المذاہب بھائی چارہ کا فقدان ہے۔ ہمارے ملک کی بھی خواہش ہے کہ معاشی ترقی کے ساتھ یہاں کے کروڑہا لوگ غربت اور افلاس کے جہنم سے نکلیں مگر ملک میں مسلم ہندو، عیسائی دنگوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ فرقہ وارانہ فسادات میں لاکھوں کروڑوں کے املاک جلا کر خاکستر کر دیے جاتے ہیں، سیکڑوں جانیں موت کی نیند سوجاتی ہیں۔ کبھی منی پور تو کبھی نوح۔ نوح میں دنگوں کی وجہ سے گروگرام جسے میلینم سٹی کہا جاتا ہے وہاں ہفتہ دس دن تک تناو کا ماحول رہا، جس کی وجہ سے تمام ٹاپ گلوبل کمپنیوں کے 500 دفاتر ہیں بند کر دیے گئے۔ وہاں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے اسٹاف سے کہا کہ حالات نارمل ہونے تک گھر سے ہی کام کریں۔ اسی طرح این سی آر کے دیگر سٹیلائٹ گاوں، سونی پت اور پلول میں کرفیو لگانے پڑے۔ ایسے حادثات اور دنگوں سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری ہے۔ ان کے لیے بھارت سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے ایک دل پسند مقام اسی وقت ہوگا جب جان و مال کا تحفظ یقینی ہو اور دنگے فساد کے بڑھتے واقعات معاشی سرگرمیوں پر قدغن نہ لگایا جائے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات دنیا کی نظروں سے چھپے نہیں رہ سکتے۔ آج سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا کی رسائی ہمہ جہتی ہے جو لمحوں میں دنیا میں ہونے والے واقعات کو ہر جگہ پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا ملک ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اور ایک بڑا بازار بھی ہے جہاں سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور ان کے روزی روٹی کا سامان بھی۔
***

 

***

 ہم نے آزادی کے امرت کال کا 76واں یوم آزادی منایا ہے۔ اس مدت میں ملک میں معاشی تیز رفتاری اور سائنس و ٹکنالوجی میں بلندی پر پہنچنے کے باوجود ہمارا ملک بھکمری کے معاملے میں 116 مالک کی فہرست میں 91ویں مقام پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 69 کروڑ افراد بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ اس میں ہمارے ملک کے 20 کروڑ خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023