بہتر معاشی شرح نمو کی برقراری کے لیے ہمہ جہتی ضابطہ کی ضرورت

ہمارے ملک میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کا بول بالا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چار پہیے والی مہنگی گاڑیوں کی فروخت میں بڑی تیزی سے اضافہ درج کیا گیا ہے۔

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ریزرو بینک آف انڈیا نے جی ڈی پی میں بہتری کی وجہ معیشت کے بنیادی انفراسٹرکچرس میں بہتری کو بتایا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ ملک میں پیداوار اور مینوفیکچرنگ کے شعبے اپنی بھرپور صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اچھا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کورونا وبا اور یوکرین-روس جنگ نے اس صلاحیت کو زنگ خوردہ بنا دیا ہے۔ اگرچہ اس سے متعلق کوئی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں مگر آر بی آئی نے مینوفیکچرنگ صنعتوں کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ ملک کی زیادہ تر صنعتیں اپنی حیثیت سے 75 فیصد سے زیادہ کام کر رہی ہیں جس کی بنیاد پر ہی ریزرو بینک آف انڈیا نے گزشتہ سال جی ڈی پی کے سات فیصد سے زائد رہنے کا اندازہ لگایا تھا۔ مگر یہ محض اندازہ ہی تو ہے۔ اس کی وضاحت سرکاری طور پر اسی وقت ہو گی جب قومی شماریات کا آفس (NSO) آخری اعداد و شمار جاری کرے گا۔ آر بی آئی کا اندازہ عالمی بینک کے اندازہ سے قریب تر ہے۔ عالمی بینک نے 2023-24 کے لیے بھارت کی شرح نمو کے 6.6 فیصد رہنے کا ہدف رکھا تھا بعد میں اس میں تبدیلی کر کے 6.3 فیصد کر دیا ہے۔ اس کٹوتی کی خاص وجہ مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں اضافہ کو قرار دیا ہے۔ دراصل بڑھتے ہوئے افراط زر کو قابو میں کرنے کے لیے شرح سود میں بھی اضافہ کرنا پڑتا ہے جس سے قرض مہنگا ہوجاتا ہے اور قرض مہنگے ہونے سے پیداوار پر اثر پڑنا فطری ہے جس سے شرح نمو میں تنزلی آتی ہے۔ دوسری طرف کھپت بھی متاثر ہوجاتی ہے، ساتھ ہی روزگار پر بھی اس کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ فی الحال تو ایسے حالات نہیں ہیں کیونکہ کورونا کا دور بھی چلا گیا اور معیشت بھی دھیرے دھیرے کورونا کی مار سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاوں مار رہی ہے۔
ہمارے ملک میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کا بول بالا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چار پہیے والی مہنگی گاڑیوں کی فروخت میں بڑی تیزی سے اضافہ درج کیا گیا ہے۔ کورونا سے قبل کی حالت یا اس سے بھی اوپر ہوگئی۔ سوسائٹی آف انڈین آٹوموبائل مینوفیکچررس نے مئی 2023 میں پاسنجر گاڑیوں کی ہول سیل فروخت کے اعداد وشمار جاری کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 13.54 فیصد کی گروتھ کے ساتھ 3,34247 کاروں کی تھوک فروخت ہوئی ہے جبکہ مئی 2022 میں کار مینوفیکچررس نے ڈیلروں کو 2,94392 کاریں سربراہ کی تھیں۔ دوسری طرف دو پہیہ والی گاڑیوں کی قیمت زیادہ نہیں ہوتی، خصوصاً چھوٹے قصبوں اور دیہی علاقوں میں ان کی فروخت کے کچھ اشاریے ہوتے ہیں۔ ٹو وہیلرس کی ہول سیل فروخت میں 17.2 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے مگر ابھی بھی 2016-17 کی سطح سے کم ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بڑی آبادی والے ملک کی مالی حالت چھ تا آٹھ ماہ میں بہتر ہوئی ہے۔ مگر سب سے نچلا طبقہ جو خط افلاس سے قریب ہے وہ سماجی اور معاشی مصائب سے نہیں نکل پایا۔ 2020 میں ملک میں ترقی کی رفتار صفر سے نیچے چلی گئی ہے۔ ہمارے ملک کی فی کس آمدنی بنگلہ دیش سے بھی کم ہو گئی ہے۔ بے روزگاری نے 45 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں مودی کی حکومت میں دگنی ہوگئی ہیں۔ دواوں کی قیمتیں بھی اسی رفتار سے بڑھی ہیں۔ شعبہ طب اور تعلیمی اداروں کا بنیادی ڈھانچہ زوال پذیر ہے۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بڑی صنعتیں اور بڑے کاروبار کورونا وبا کی ابتلا سے بڑی تیزی سے باہر آئے ہیں۔ ان کو بے تحاشا منافع ہوا ہے مگر اس کے لیے کمپنیوں نے ملازمین کی برطرفی اور تنخواہ میں کٹوتی جیسے ہتھیار کا بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ یہ معاملہ بھارت کا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے صنعت کار اسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی کمپنیوں کو اور صنعتوں کو حکومت کی طرف سے راحت اور سبسیڈیز دی گئیں۔ اسی وجہ سے بڑی کمپنیاں تیزی سے مصیبت پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکیں۔ مگر بھارت کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا غیر منظم شعبہ ہی ہے جس سے وابستہ لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ زراعت کے علاوہ شعبہ خدمت، ٹیکسٹائیل جیسے مائیکرو، چھوٹے، مچھولے انٹرپرینورس میں زیادہ تر کام کاج غیر منظم طریقے ہی سے ہوتا ہے جس میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک معمہ ہی ہے کہ ملک کی جی ڈی پی بڑی صنعتوں اور منظم شعبوں پر ہی منحصر رہتی ہے لیکن نچلی سطح کے کاروبار یا انٹرپرینورس میں سب سے بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہوتی ہے اس کے باوجود جی ڈی پی میں اس کی شراکت محض معمولی ہوتی ہے۔ معیشت میں اسے کے (K) شکل کی ریکوری کہتے ہیں جس میں کچھ شعبے بڑی تیزی سے اوپر جاتے ہیں اور کچھ شعبے نیچے کی طرف لڑھکتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیںہے کہ حکومت اس شعبہ کے لیے فکر مند نہیں ہے، انہیں برآمدات یا پیداوار سے متعلق ترغیبات(Incentives)دے کر مدد بھی کی جاتی ہے۔ مگر حکومت کو اس طرف بھی اپنی توجہ مبذول کرنا چاہیے اور حسب ضرورت ایسے اداروں کی مدد کرنا چاہیے۔ ان کی بہتری سے دو فوائد سامنے آئیں گے جس کا فائدہ لوگوں کو روزگار کی شکل میں ہوگا اور نوکریوں کی وجہ سے ہاتھ میں پیسہ بھی آئے گا اور مال کی کھپت بڑھے گی۔ ہم بھلے ہی بھارتی معیشت کی تیز رفتاری پر بڑے بڑے دعوے کریں لیکن صنعتوں اور صنعتکاروں کے اندر بہت جوش نظر نہیں آتا۔ ادھر امریکی ڈالر کے مقابلہ روپیہ 16 پیسہ گرکر 82.21 فی ڈالر پر آگیا ہے۔
ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا اندازہ ہے کہ جاریہ مالی سال 2023-24 کے اپریل تا جون کی سہ ماہی میں بھارتی معیشت میں 6 تا 6.3 فیصد شرح نمو میں بہتری آئے گی۔ اس کے ساتھ ہی موڈیز کو حکومت کی ٹیکس وصولی توقع سے کم رہنے کی وجہ سے مالیاتی مورچہ پر گراوٹ کا بھی اندیشہ ہے۔ موڈیز کا شرح نمو کا اندازہ جاریہ سال کی پہلی سہ ماہی کے لیے آر بی آئی کے 8 فیصد کے اندازہ سے کافی کم ہے۔ موڈیز انویسٹر سروسز کے ڈائرکٹر جین فینگ کا کہنا ہے کہ 2022-23 کے بھارت کا عمومی سرکاری قرض جی ڈی پی سے کافی بلندی یعنی 81.18 فیصد پر رہا ہے۔ فینگ نے کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ جاریہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھارت کی شرح نمو مالی سال 2022-23 کی آخری سہ ماہی میں درج 6.1 فیصد کی شرح نمو تقریباً یکساں رہے گی۔ افراط زر میں تنزلی کی وجہ سے امید ہے کہ کمپنیوں کی پیداوار کی طلب بڑھے گی۔ فینگ نے مزید کہا کہ BAA3 کی سادرن ریٹنگ کے ساتھ بھارتی معیشت کی طاقت اس کے متفرق حالات میں رہنے والی معیشت ہے جس میں بڑی تیزی سے رفتار پکڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی مانیٹری پالیسی کی تشویش کو دور کرکے گزشتہ دو سالوں میں اپنے مالیاتی اہداف کو بحسن و خوبی حاصل کیا گیا ہے۔ اس لیے حکومت کا مالیاتی خسارہ 2022-23 میں کم ہوکر 6.4 فیصد رہ گیا ہے جو 2021-22 میں 6.7 فیصد تھا۔ جاریہ مالی سال میں مالیاتی خسارہ کا ہدف 5.9 فیصد رکھا گیا ہے۔ فینگ کا کہنا ہے کہ عام سرکاری قرض 2022-23 میں جی ڈی پی کا 81.8 فیصد رہا ہے جو بہت زیادہ ہے۔ BBA ریٹنگ والے مقام کے لیے اس کا اوسط 56 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی پہلی بار 3.5 لاکھ کروڑ ڈالر کے پار ہوگئی ہے۔
معیشت کو مہمیز دینے کے لیے حکومت مسلسل کوشاں ہے۔ ایشیا Klems کانفرنس میں آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ایم ڈی پاترا نے کہا ہے کہ ترقی پذیر معیشتوں کی شرح نمو کو بڑھانے کے لیے شعبہ خدمات کی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال میں لانا ہوگا نیز، انوویٹیو ایکو سسٹم کی تعمیر کرنی ہوگی۔ اس کے لیے انہوں نے ہمہ جہتی پالیسی کی وکالت کی ہے جس سے ملک میں ایک ساتھ پیداواریت اور ترقی کو پروان چڑھایا جاسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹکنالوجی کیپٹل کو بڑھانے کے لیے ریسرچ میں طویل معیادی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریننگ کے لیے اسکل ڈیولپمنٹ کے ساتھ انوویٹیو ایکو سسٹم کو کام میں لانا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سامان کی تیاری میں اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔ آئی سی ٹی انفراسٹرکچر کے ذریعے ٹریڈ کی لاگت جیسے شپنگ میں آنے والے خرچ سے لاجسٹک میں کمی آئے گی اور ضابطوں میں تبدیلی کے ذریعے نجی سیکٹرس کی ہمت افزائی کی جائے گی۔ اب مائکرو اکنامک ٹریڈ کو دیکھنا بینکوں کی ذمہ داری ہوگی تاکہ معیشت میں حسب ضرورت استقلال آئے۔
***

 

***

 ہمارے ملک کی فی کس آمدنی بنگلہ دیش سے بھی کم ہو گئی ہے۔ بے روزگاری نے 45 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں مودی کی حکومت میں دگنی ہوگئی ہیں۔ دواوں کی قیمتیں بھی اسی رفتار سے بڑھی ہیں۔ شعبہ طب اور تعلیمی اداروں کا بنیادی ڈھانچہ زوال پذیر ہے۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بڑی صنعتیں اور بڑے کاروبار کورونا وبا کی ابتلا سے بڑی تیزی سے باہر آئے ہیں۔ ان کو بے تحاشا منافع ہوا ہے مگر اس کے لیے کمپنیوں نے ملازمین کی برطرفی اور تنخواہ میں کٹوتی جیسے ہتھیار کا بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ یہ معاملہ بھارت کا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں لوگ اسی پر عمل پیرا ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023