تک ایک صدی کی سازش : Pax Israelica بالفور اعلامیہ سے

اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیادیں افسانوی ہیں، تاریخی و مذہبی نہیں: پروفیسر سہراب کا تجزیہ

انوارالحق بیگ

یہود و نصاریٰ باہی دشمنی و عناد کی ایک طویل تاریخ کے باوجود آج ایک ہی پلیٹ فارم پر کیوں اور کیسے جمع ہوئے؟ لمحۂ فکریہ
شعبہ انٹرنیشنل پالیٹکس، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ممتاز اسکالر پروفیسر محمد سہراب نے پچھلے دنوں جماعت اسلامی ہند کے ایک خصوصی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور ان کے عالمی اثرات پر ایک فکر انگیز اور علمی تجزیہ پیش کیا۔پروفیسر نے اپنے خطاب کے آغاز میں ہی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ :
’’اسرائیل کی پسند، خواہش، ارادہ اور نظریات کی جڑیں کہاں ہیں؟ اس کی نوعیت کیا ہے، اس کا آغاز کہاں سے ہوا اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کے درمیان کس طرح کی حکمت عملی اپنائی گئی؟ یہی اس کا بڑا فریم ورک (larger framework) ہے۔‘‘انہوں نے واضح کیا کہ جب اسرائیلی عزائم کو توسیع پسندی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی اصل بنیاد تاریخ اور مذہبی تعبیرات (theology) کے بجائے افسانوی اساطیر (myths) ہیں۔
اسرائیلی تھیولوجی: عقیدتی نہیں بلکہ افسانوی بنیادیں
اسرائیلی theology کے دو حصے ہیں: ایک doctrinal یعنی عقیدتی اور دوسرا mythical یعنی افسانوی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی بنیادیں نظریاتی کم اور افسانوی زیادہ ہیں۔ اسرائیل کی توسیع پسندی کے سرچشمے دراصل theology میں نہیں بلکہ myths میں ہیں۔
یہودیوں نے ان افسانوی بنیادوں کو حضرت داودؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت سے جوڑ کر اپنے مستقبل کا نصب العین بنایا، حالانکہ تاریخی طور پر یہ درست نہیں۔ ’’حضرت داودؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنتیں یہودی حکومتیں نہیں تھیں بلکہ چونکہ وہ اللہ کے رسول اور نبی تھے، اس لیے ان کی وراثت میں مسلمان اور عیسائی بھی شریک ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کا ان پر حق زیادہ ہے کیونکہ قرآن و سنت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کو اپنی دینی وراثت کا حصہ سمجھیں۔ اس حقیقت کے بغیر ہم اپنی مسلم شناخت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔‘‘
گریٹر اسرائیل کا جغرافیہ: داودؑ و سلیمانؑ کی سلطنت کے تناظر میں
پروفیسر سہراب نے گریٹر اسرائیل کے تصور کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’گریٹر اسرائیل کے نقشے کو سمجھنے کے لیے ہمیں حضرت داودؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت کا نقشہ دیکھنا ہوگا جو نہایت وسیع تھا اور جسے آج ہم مشرقِ وسطیٰ یا Levant کے نام سے جانتے ہیں۔اس جغرافیے میں شمالی عرب، بحیرۂ قلزم (Red Sea) کا جنوبی حصہ، موجودہ سعودی عرب، اس کے پار ایتھوپیا، قبرص، حتیٰ کہ ترکی کا ایک حصہ بھی شامل تھا۔یہی حضرت داودؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت کا دائرہ تھا اور اسرائیل نے اسی کو اپنے مستقبل کا مشن بنا لیا ہے۔‘‘
یورپی تناظر اور چار بڑے افسانے
اسرائیلی عزائم کو صرف مذہبی یا مقامی زاویے سے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ ان کے مغربی تناظر کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کیونکہ اسرائیلی myths کا دوسرا پہلو نہایت طاقتور ہے اور وہ Western اور European context کا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں 1500 اور 1600 عیسوی کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔ وہاں سے چار بڑے myths ابھر کر سامنے آتے ہیں جنہوں نے گریٹر اسرائیل کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ لہٰذا ان تاریخی اور سیاسی ارتقائی مراحل (historical and political development) کو سمجھے بغیر موجودہ اسرائیلی عزائم کی اصل گہرائی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔
عرب پالیسیاں اسرائیل کے لیے شہ رگ بن گئیں:
پروفیسر سہراب نے ایک نہایت اہم نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج اسرائیل کو سب سے بڑا سہارا یورپ یا امریکہ سے نہیں بلکہ عرب دنیا کی پالیسیوں سے مل رہا ہے۔ یہ صورت حال ایسے ہے جیسے شہ رگ (jugular vein) ہو۔ اگر یہ کاٹ دی جائے تو موت واقع ہونے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا۔ آج اسرائیل کا سارا خون، توانائی، رسد اور حوصلہ افزائی اسی عرب شہ رگ سے بہہ رہی ہے۔
عرب-یہودی اور یہودی-عیسائی تہذیب کا بیانیہ
جب اسپین میں مسلمانوں کی حکومت اپنے عروج پر تھی تو مسلمانوں نے یہودیوں کو پناہ دی، ان کی مدد کی اور ان کا خیر مقدم کیا۔ اس وقت یہودی سخت ظلم و جبر کا شکار تھے لیکن مسلمانوں نے انہیں اپنے ہاں بسایا۔ یہی’عرب-یہودی تہذیب‘کی بنیاد بنی۔لیکن یہی عرب-یہودی تہذیب جب یورپی منظرنامے میں پہنچی تو وہاں سے ‘Judeo-Christian civilization’ یعنی یہودی-عیسائی تہذیب کا بیانیہ تراشا گیا۔
Judeo-Christian”” اصطلاح اور اس کے اثرات
یہ جو phrase یعنی ‘Judeo-Christian’ ہے، اس کے اتنے گہرے اثرات ہیں کہ اس نے نہ صرف تاریخ کا دھارا موڑ دیا بلکہ الٰہیات کی ساخت کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے کیونکہ یہودی اور عیسائی دراصل دو بالکل متضاد مذاہب کے پیروکار تھے۔ یہ دو قومیں ہمیشہ ایک دوسرے کی مخالف رہیں۔ ان کے تعلقات متصادم (violative) تھے۔ یہ ایک zero-sum تعلق تھا یعنی ایک کی بقا دوسرے کی فنا تھی۔ اس لیے باہمی بقا (co-existence) کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔دراصل اس مذہبی اختلاف کی جڑ ایک طویل الہٰیاتی بحث میں تھی جو حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت سے صدیوں تک جاری رہی۔ مگر دور جدید میں سب ایک دوسرے میں ضم کردیے گئے۔
یہودی-عیسائی تہذیب اور گریٹر اسرائیل کا خواب
یاد رہے کہ Judeo-Christian civilization کی اصطلاح کے اثرات اتنے دور رس ثابت ہوئے کہ اس نے صرف ایک تاریخ ہی کو نہیں بدلا بلکہ مذہبی فکر کو بھی یکسر نئی بنیاد فراہم کی۔یہودی اور عیسائی جو صدیوں سے ایک دوسرے کے مخالف رہے تھے جب اس نئی تہذیبی اصطلاح کے تحت قریب لائے گئے تو ان کے درمیان ایک بڑی ’’مذہبی مفاہمت‘‘ وجود میں آگئی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ اس نے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے تعلقات کو ازسرِ نو تشکیل دیا۔ پرانے اور نئے عہدناموں (Old & New Testament) کی یکجائی اسی تناظر میں سامنے آئی۔ اس سے پہلے توریت اور انجیل الگ الگ تھیں، بالکل اسی طرح جیسے یہود اور نصاریٰ الگ الگ تھے۔ لیکن جب تاریخ اور مذہب کو نئے سرے سے لکھا گیا تو دونوں کو ملا دیا گیا۔ اس کی جھلک ہمیں سب سے پہلے پندرہویں صدی کی فکری تحریروں میں ملتی ہے، جہاں یہ نعرہ بلند ہوا:
’آؤ ہم اپنے مشترکہ دشمن ’اسلام‘ کے خلاف دوبارہ متحد ہوں۔ وہ جنگیں (صلیبی جنگیں) جو ہم نہ جیت سکے، اب ایک نئے اتحاد کے ساتھ اسی دشمنی کے ایجنڈے اور حکمت عملی کو دہراتے ہیں‘
یہی وہ موقع تھا جب گریٹر اسرائیل کا تصور ابھرا۔ اس سے پہلے تاریخ میں گریٹر اسرائیل کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ تصور دراصل اسی مذہبی و تہذیبی مفاہمت کے نتیجے میں سامنے آیا، جس نے حضرت سلیمانؑ کی سلطنت کو گریٹر اسرائیل کے ایک ’ماڈل‘ کے طور پر پیش کیا۔ یاد رہے کہ یہ فیصلہ جس میں یہ بات بیان کی گئی تھی کہ یہودیوں کو پس پردہ رہ کر ہر طرح کی اخلاقی اور مادی مدد فراہم کی جائے، انسانی تاریخ کا سب سے بڑا موڑ تھا۔ مسلمانوں کو سب سے زیادہ اسی پر علمی کام کرنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ہم اس باب پر کوئی تحقیقی بنیاد نہ ڈال سکے، یعنی یہی وہ فیصلہ تھا جس کے بعد گریٹر اسرائیل کے فکری خاکے کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی شروع ہوئی۔
یہودی افسانے اور گریٹر اسرائیل کا خواب
لیکن سوال یہ تھا کہ اسے عملی شکل کیسے دی جائے۔ یہی اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ جب یورپ میں قوم پرستی اپنے عروج پر تھی اور چھوٹی چھوٹی قومی ریاستیں ابھر رہی تھیں تو یہودی برادری کو احساس ہوا کہ اب وہ ظلم و جبر کا شکار قوم کی حیثیت میں نہیں رہ سکتے۔ گزشتہ پانچ سے چھ سو سال سے وہ اسی حیثیت میں تھے لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ اسی تناظر میں 1891 میں ویانا میں عالمی یہودی کانگریس بلائی گئی جس میں صیہونیت (Zionism) کے تصور کو پیش کیا گیا۔ لیکن یہ تصور محض یہودیوں نے پیدا نہیں کیا تھا۔ گریٹر اسرائیل کے تصور کے حوالے سے سب سے زیادہ فعال کردار عیسائیوں نے ادا کیا۔ انہوں نے یہ تصور دیا اور بعد میں یہودیوں کے حوالے کیا۔ جب یہودیوں نے اسے اپنایا تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کیسے جائز قرار دیا جائے؟ چونکہ مذہب کی بنیاد پر اسے جائز نہیں ٹھیرایا جا سکتا تھا اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ مذہب کی بجائے اساطیر (myths) پر توجہ دی جائے۔ یہود و نصاریٰ کو معلوم تھا کہ ہم مذہبی بحث کی بنیاد پر اسلام کو شکست نہیں دے سکتے اس لیے چار بڑے myths تخلیق کیے گئے جو حقیقت میں کبھی موجود ہی نہیں تھے۔
پہلا افسانہ یہ تھا: ’’یہودی اللہ کے منتخب کردہ لوگ ہیں‘‘۔
دوسرا: ’’یہودی وہ قوم ہیں جن کے پاس زمین نہیں‘‘۔
یہ دونوں myths راتوں رات دنیا کے یہودیوں کی مشترکہ آواز بنا دیے گئے اور اس تصور کو مضبوط کرنے کے لیے کہا گیا: ’’جہاں کہیں بھی ہو، اپنے آپ کو بے زمین قوم سمجھو‘‘۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ یورپ میں بھی یہ myths دس فیصد بھی درست نہیں تھیں؛ یہاں تک کہ گھیٹوز میں بھی یہودیوں کو زمین کے حقوق حاصل تھے۔
تیسرا myth یہ بنایا گیا: ’’فلسطین ایک غیر آباد زمین ہے‘‘۔
چوتھا myth: ’’فلسطین وہ سرزمین ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔
ان چاروں myths کو ملا کر ایک طاقتور بیانیہ ترتیب دیا گیا:
’’فلسطین، جو ایک غیر آباد زمین ہے، وہ یہودیوں کے لیے وعدہ کی گئی سرزمین ہے، جو بے زمین قوم ہیں اور خدا کے سب سے زیادہ منتخب لوگ ہیں۔‘‘
اس بیانیے نے یہودی قوم اور اسرائیلی ریاست کے لیے محرک کا کام کیا۔ ویانا کانفرنس میں ایک وفد فلسطین بھیجا گیا تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جا سکے۔ وفد نے 20–22 دن وہاں گزارے اور رپورٹ ٹیلی گرام کی :
’’دلہن بہت خوبصورت ہے لیکن وہ پہلے ہی کسی اور کے ساتھ نکاح میں ہے‘‘
یعنی فلسطین واقعی موجود تھی اور حسین بھی لیکن غیر آباد نہیں۔ یہودی برادری نے رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی سیاست چار myths کی بنیاد پر جاری رکھی۔
بالفور اعلامیہ اور گریٹر اسرائیل کا خواب
پروفیسر سہراب نے کہا کہ 1917 کا بالفور اعلامیہ انہی افسانوں کو مزید تقویت بخشتا ہے۔ برطانوی وزیرِ خارجہ بالفور نے یہ اعلامیہ جاری کیا جو تاریخ کا نہایت اہم موڑ تھا اور یہودیوں کے خواب کو عملی رخ دینے کے در کھول دیا۔
یہ افسانہ کہ ’’پورے فلسطین سے یہودیوں کو اجاڑ دیا گیا تھا‘‘ بھی حقیقت پر مبنی نہیں۔ در حقیقت، یہودیوں کو فلسطین سے نہیں بلکہ صرف یروشلم کے کچھ مخصوص مقامات سے ہٹایا گیا تھا۔ ان کی عبادت گاہیں گرائی گئیں اور وہ بھی مسلمانوں نے نہیں بلکہ ان سے پہلے کی حکومتوں نے۔ اس کے باوجود فلسطین میں یہودی آبادی تقریباً سات فیصد موجود تھی۔
’’مسلمانوں نے کبھی یہودیوں کو نہیں نکالا بلکہ مسلمانوں نے ہی انہیں اپنی زمینوں میں بسایا۔‘‘
حیرت انگیز طور پر وہی قوم جس نے یہودیوں کو اجاڑ دیا اور جن کے ساتھ دشمنی کی تاریخ تھی تاریخی موڑ لیتے ہوئے یہودیوں کو وہاں بسانے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ دونوں قومیں ایک مشترکہ (joint vision) یعنی متحدہ تصور پر آتی ہیں:’’آؤ ہم اکٹھے ہوں، متحد ہوں اور مذہب و تاریخ کو دوبارہ لکھیں تاکہ ایک نئی تاریخ تشکیل دی جا سکے۔‘‘
عرب اشرافیہ کا کردار
1917 کے بعد عرب دنیا کو، خاص طور پر عراق اور شمالی افریقہ کے عربوں کو اس معاملے کی خبر ملی اور پہلے وہ بالکل لاعلم تھے۔ لیکن عرب اشرافیہ (elite) اور فلسطین کے چند elites، جو یورپ میں مقیم تھے اس معاملے سے واقف تھے۔
انہی اشرافیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا سب سے بڑا کردار ادا کیا۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق انہی کے ذریعے نو فیصد زمینیں یہودیوں کے نام کر دی گئیں۔ یہ elites لندن، پیرس، برسلز اور میڈرڈ جیسے یورپی شہروں میں بیٹھ کر فلسطین آئے بغیر ہی زمینیں رجسٹر کرتے تھے ۔
پروفیسر سہراب نے طنزیہ انداز میں کہا "These Arabs are nurturing their enemies” یعنی یہ عرب اپنے دشمنوں کی پرورش کر رہے ہیں۔
بتادیں کہ یہ رجحان آج بھی جاری ہے۔کیونکہ چند ماہ قبل، متحدہ عرب امارات کے بعض عرب شیوخ نے مغربی کنارے میں مسلمانوں سے بعض زمینیں خرید کر یہودیوں کو بیچ دی تھیں۔
1948 اور ریاست اسرائیل کا قیام
انہی افسانوی بنیادوں (myths) کو بنیاد بنا کر تمام ایجنڈے مرتب کیے گئے اور بالآخر 1948 میں ایک اہم تاریخی واقعہ رونما ہوا جب پہلی مرتبہ لفظ "اسرائیل” کو ایک ریاست کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس سے پہلے یہودیوں میں اس بات پر کوئی اتفاق نہیں تھا کہ ان کی ریاست کا نام کیا ہوگا لیکن آخری وقت میں اسرائیل کے پہلے وزیرِاعظم بن گورین نے یہ نام زبردستی مسلط کر دیا۔ اس سے پہلے ’اسرائیل‘ صرف حضرت یعقوبؑ کے نام، ایک نسل یا قبیلے کے طور پر جانا جاتا تھا، ریاست کے طور پر نہیں۔ یوں یہودی ریاست ایک افسانوی بنیاد پر وجود میں آئی اور اسی بنیاد پر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا آغاز ہوا۔
تقسیمِ فلسطین اور زمینوں کی غیر منصفانہ بندر بانٹ
اب سوال یہ تھا کہ ان افسانوں کو حقیقت میں کیسے بدلا جائے۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے دوران، بڑے پیمانے پر یہودی آبادکاری کے باوجود، فلسطین میں یہودی آبادی صرف 35–38 فیصد تک بڑھ پائی۔ اس کے باوجود فلسطین کی 56 فیصد زمین یہودیوں کے لیے مختص کر دی گئی، جبکہ فلسطینی آبادی جو 68–69 فیصد تھی انہیں صرف 42 فیصد زمین دی گئی۔ مزید یہ کہ جو زرخیز زمینیں تھیں وہ زیادہ تر 56 فیصد والے حصے میں شامل کی گئیں اور جو بنجر زمینیں تھیں وہ فلسطینیوں کے حصے میں ڈال دی گئیں۔ اس حساب سے فلسطین کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ عربوں کی علاقائی سالمیت کو کمزور کر دیا جائے تاکہ ان پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کیے جا سکیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں اسرائیل کی توسیع پسندی کی پالیسی نے عملی شکل اختیار کی، تمام ضابطوں، اخلاقیات اور انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے۔ یورپ میں اس وقت بھی اور آج بھی ایک اتفاقِ رائے موجود ہے کہ:
اسرائیل کو کبھی بھی اخلاقیات کے نام پر کسی پابندی کے تحت نہیں لایا جائے گا کیونکہ یہ ریاست ایک خواب کی تعبیر کے طور پر وجود میں آئی ہے اور یہ خواب مخصوص بنیادوں پر آگے بڑھایا گیا ہے۔
یہاں وہ توسیع پسندی کی بات نہیں کر رہے جو 1948 سے پہلے "یہودی بستیوں” کے نام پر کی گئی تھی بلکہ وہ توسیع پسندی جس کا آغاز 1948 کے بعد ہوا اور جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔
فلسطینی زمینوں کا سکڑنا اور عالمی رد عمل
آغاز میں فلسطینی مسلمانوں کے لیے 42 فیصد زمین مختص کی گئی تھی، لیکن وقت کے ساتھ وہ سکڑ کر محض 8–9 فیصد رہ گئی۔ موجودہ تصادم اس 42 فیصد کے لیے نہیں بلکہ صرف 21فیصد زمین کے لیے ہے۔ دوسرے لفظوں میں، فلسطینی عرب پہلے ہی 21 فیصد پر سمجھوتہ کر چکے ہیں۔
عرب دنیا کی طرف سے سب سے پہلا سمجھوتہ ’’اوسلو معاہدے‘‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ اس کے باوجود نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری مغربی دنیا بھی ان 8–9 فیصد زمین پر فلسطینی حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ کی حکومتیں اسرائیل کی قبضہ گیری اور جارحانہ پالیسی پر سوال نہیں اٹھا رہی ہیں۔ عوامی سطح پر، سِول سوسائٹی اور سڑکوں پر بحث ضرور ہو رہی ہے لیکن سرکاری سطح پر مذمت نہیں ہو رہی ہے۔ یہاں امید کی واحد کرن وہاں کے عوام ہیں جو اسرائیل کے بارے میں اپنے رویے میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یورپی اور امریکی حکومتیں اب بھی اسی ضد پر قائم ہیں جو پہلے تھیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘
مذہبی اساطیر اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ
یورپ اور امریکہ کی موجودہ حکومتوں کی ضد کا اصل ماخذ وہی مذہبی اساطیر (myths) ہیں جنہیں وہ ایک عقیدے کی طرح ماننے لگے ہیں: ’’ہمیں گریٹر اسرائیل قائم کرنا ہے‘‘۔
اسی وجہ سے اسرائیل کو دی جانے والی سیاسی حمایت کی جڑ بھی دراصل مذہبی بیانیے میں مضمر ہے۔ جیسا کہ معروف مؤقف ہے: ’’یہ ہمارے لیے مسیحی ہونے کے ناطے ایک مذہبی فریضہ ہے خصوصاً پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے نزدیک، کہ ہم گریٹر اسرائیل کے قیام کو یقینی بنائیں۔‘‘مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ ان اساطیر کو بے نقاب کریں، تحقیق کریں اور ایک مضبوط discourse کھڑا کریں۔ لیکن بدقسمتی سے عربوں اور مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ مظلوم ہی ظالم کو ظالم کہنے پر آمادہ نہیں۔
مغرب کے جغرافیائی اور ثقافتی مقاصد
یورپ اور امریکہ میں اگرچہ سو فیصد اتفاق ان اساطیر پر ہے لیکن ان کے مقاصد جغرافیائی سیاست (geopolitics) سے جڑے ہوئے ہیں:
-1 مغرب اپنی ثقافتی بالادستی (cultural imposition) کو مضبوط کرے۔
-2 مسلمانوں کو ان کی قرآنی حیثیت یعنی تہذیب کی سب سے منفرد شناخت سے محروم رکھے۔
ان کے مطابق اقتصادی مفادات بھی موجود ہیں مگر وہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ Pax Israelica: اسرائیل کا سب سے بڑا ہدف
ڈاکٹر سہراب نے خبردار کیا کہ یہودی قیادت داوود و سلیمان علیہم السلام کی سلطنت کے نقشے کے مطابق اسرائیل کی توسیع چاہتی ہے جس میں شامل ہیں:
پورا بحیرہ احمر
جزیرہ نمائے سینا
مکمل اردن
شمالی سعودی عرب
شام
عراق کے دجلہ و فرات کے علاقے
قبرص تک
یہ منصوبہ اسرائیل کے "سب سے بڑے ہدف” کے طور پر جانا جاتا ہے، جسے "Pax Israelica” کہا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کے تحت پورا مکہ و مدینہ اور شمالی سعودی عرب اسرائیل کے براہِ راست تسلط میں آ جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو باقی دنیا کو "کم سے کم خود مختاری” (minimum autonomy) حاصل ہوگی اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہوگا۔
رینڈ کارپوریشن اور چونکا دینے والے انکشافات
یہ واضح انکشاف ہے کہ Pax Israelica کے تمام منصوبے اور حکمتِ عملیاں محض اسرائیل کی نہیں بلکہ Rand Corporation کی تخلیق ہیں۔ "Pax Israelica” کے حصول کے لیے دو حکمتِ عملیاں تیار کی گئی ہیں:
-1 عسکری حکمت عملی (Military Strategy): فوجی طاقت کے ذریعے اثر و رسوخ قائم کرنا۔
-2 سماجی و سیاسی حکمت عملی (Social & Political Strategy): مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی سیاسی یکجہتی حاصل نہ ہونے دینا اور انہیں تقسیم و انتشار کی حالت میں رکھنا۔ ایک استعارے کے مطابق "Solomon vow” لیا گیا تاکہ ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کر کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر منقسم رکھا جا سکے۔
اس ضمن میں اسلام کے نظریے کو بھی مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی گئی، جیسے:
عقلی اسلام (Rational Islam)
ترقی پسند اسلام (Progressive Islam)
روشن خیال اسلام (Enlightened Islam)
معتدل اسلام (Moderate Islam)
ان کے مطابق یہ سب دراصل Rand Corporation کی تراشیدہ اصطلاحات ہیں جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو بڑھانے اور داخلی انتشار پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر سہراب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک معروف مسلم دانشور جنہوں نے مشہور مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور شاید ان کے شاگرد بھی رہے ہیں، آج اسی "Pax Israelica” کے لیے advocacy کر رہے ہیں اور امریکہ کے شہر فلاڈیلفیا میں رینڈ کارپوریشن سے تنخواہ پا رہے ہیں۔ڈاکٹر سہراب نے انکشاف کیا کہ "میں نام نہیں لوں گا لیکن یہ واضح ہے کہ خاص طور پر وہ دانشور اور انٹلیکچوئل جو اس ادارے سے منسلک ہیں، اس شخص کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ ”
بتادیں کہ رینڈ کارپوریشن کا سالانہ بجٹ 8 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جو پورے ہندوستان کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی بجٹ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسی ادارے کے ذریعے Pax Israelica کا فکری اور سیاسی ایجنڈا نافذ کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی داخلی تقسیم کو تاریخی اور مذہبی بیانیے کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی ادارے میں بیٹھ کر وہ موصوف جن کا نام ڈاکٹر سہراب نے ظاہر نہیں کیا، یہ بیانیہ پھیلا رہے ہیں کہ:”شمالی عربیہ پر اسرائیل کا قدرتی حق ہے اور جنوبی عربیہ مسلمانوں کا ہے”۔
یہ تقسیم، ڈاکٹر سہراب کے مطابق وہ صاحب ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویوں (حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ) اور ان کے دو بیٹوں (حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق) کی روایت سے جوڑ کر ایک تاریخی اور مذہبی جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔
آخر میں ڈاکٹر سہراب نے سوال قائم کیا کہ لڑنا تو دور کی بات ہے، مسلمان خود اپنی تاریخ اور مذہبی بیانیے کی ایسی تعبیرات پیش کر رہے ہیں جو اسرائیل کے سیاسی عزائم کو مضبوط کر رہی ہیں۔’’آپ خود دیکھیں کہ آپ کس طرح اپنی تاریخ اور دین کی ایسی تعبیرات کر رہے ہیں جو آپ کے مستقبل یا سیاسی ایجنڈے کے بجائے اسرائیل کے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دیتی ہیں۔‘‘

 

***

 جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر محمد سہراب نے جماعت اسلامی ہند کے ایک خصوصی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور ان کے عالمی اثرات پر ایک فکر انگیز اور علمی تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کے حقیقی عزائم کو بے نقاب کرنا اور ان افسانوی بیانیوں کو چیلنج کرنا آج مسلم دنیا کی فکری اور عملی ذمہ داری ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اسرائیل کی نظریاتی بنیادوں، تاریخی و مذہبی جواز تراشیوں اور مغربی دنیا کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔لہٰذا ہفت روزہ دعوت کے قارئین کے استفادے کے لیے اس تقریر کے اہم نکات کو تحریری شکل میں شائع کیا جارہا ہے ۔ادارہ


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |