
ندیم خاں ، بارہمولہ
سیاح وادی کشمیر میں گل و لالہ باغ کی سیر و تفریح کے بعد جس طرح وادی کشمیر کے دیگر سیاحتی مقامات کی سیر کرتے ہیں، اسی طرح فطرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے پہلگام بھی گئے تھے۔ مگر ان میں سے کسی کو یہ گمان تک نہ تھا کہ پہلگام کی بائسرن وادی ان کے لیے موت کی وادی ثابت ہو گی۔ عینی شاہدین کے مطابق اردو بولنے والے پانچ مسلح دہشت گردوں نے سیاحوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے ان پر اندھا دھند گولیاں چلائیں اور خون میں ڈبو دیا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد پورے کشمیر میں ہر شخص کی آنکھ نم تھی، چاہے وہ بچہ ہو یا بزرگ، مرد ہو یا عورت، ہر فرد غمگین اور پریشان تھا کہ آخر یہ سب اچانک کیوں ہوا؟ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
واقعے کے فوراً بعد سیاسی، سماجی، دینی جماعتوں اور مقامی باشندوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی، احتجاج کیا اور اگلے دن کشمیر بند کی کال دی۔ مساجد، خانقاہوں اور زیارتوں کے لاؤڈ اسپیکروں سے لوگوں سے کشمیر بند میں شامل ہونے کی اپیل کی گئی۔ حریت چیئرمین اور میر واعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق کو سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت دی گئی۔ میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں جامع مسجد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کر کے دہشت گردی کے اس وحشیانہ واقعے کی مذمت کی گئی۔ اس کے علاوہ کشمیر کی تمام اسلامی و غیر اسلامی تنظیموں کے رہنماؤں نے دہشت گردی کے اس واقعے میں مارے گئے افراد کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی مسلم برادری سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
میں ایمان داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے لوگوں میں انسانیت اور مہمان نوازی کی روح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں جا کر کشمیر کی مہمان نوازی کا کوئی اور نمونہ نہیں پائیں گے۔ جب بھی مہمان سیاحوں کو مشکلات پیش آئیں، کشمیریوں نے ہمیشہ اپنے دلوں اور گھروں کے دروازے ان کے لیے کھولے اور ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں۔ برف ہو، بارش ہو، حادثہ ہو یا کوئی اور مصیبت ہو، ان کی مدد کے لیے کشمیر کے لوگ ہمیشہ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے رہے۔ لیکن افسوس کہ اس کے باوجود بھی ملک بھر میں کشمیریوں کے خلاف غصہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا نازک سماجی تانا بانا مزید ٹوٹ رہا ہے، کیونکہ بعض انتہاپسند ہندو گروپوں اور تنظیموں نے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور فرقہ وارانہ زہر پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ چندی گڑھ، دہرہ دون، اتر اکھنڈ، اتر پردیش اور ہماچل پردیش میں کشمیری طلبہ کو ہراساں کیا گیا۔ چندی گڑھ میں بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے امتیاز احمد وانی نے فون پر بتایا کہ ان پر جسمانی حملے کیے جا رہے ہیں اور کرائے کے مکانات اور یونیورسٹی کے ہاسٹلوں سے زبردستی نکالنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ چندی گڑھ میں زیر تعلیم اقبال حمید خان نے بھی بتایا کہ صبح تین بجے ہندو طلبہ ان کے فلیٹ میں گھس آئے اور بری طرح مار پیٹ کی۔ ہمارے پاس اپنا دفاع کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔
کیا یہ ہماری مہمان نوازی کا صلہ ہے؟ سجاد، جس کے کانوں میں بائسرن کی واردات کی آواز آئی تھی، وہ دو منٹ میں گھوڑا لے کر بچاؤ کی کارروائی میں کود پڑا۔ وہ ویڈیو جسے قومی میڈیا نے نظر انداز کیا، اس میں سجاد ننگے پاؤں اپنی پیٹھ پر زخمی سیاح کو پہلگام ہسپتال پہنچا کر بہ زبان حال یہ اعلان کر رہا تھا کہ گولیوں کی بارش ہو، بندوق کا خوف ہو یا پھر ڈھلوان پہاڑیوں پر چلتے ہوئے سوار سیاح کو ہسپتال پہنچانا ہو، کشمیریت کو آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ اسی طرح کشمیر کے ایک اور ہیرو سید عادل حسین شاہ جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر دہشت گردوں کے ساتھ گتھم گتھا ہوئے اور کشمیریت کی مثال روشن رکھنے کی پاداش میں شہید ہو گئے۔
میڈیا کی طرف سے پہلگام کے اس اہم ترین حصے کو نظر انداز کرنے اور کشمیریت کی زندہ جاوید مثالیں اجاگر نہ کرنے سے کشمیری افراد ہکا بکا رہ گئے۔
اس واقعے سے جہاں ہر طرف اداسی چھائی ہوئی ہے وہیں کشمیر کے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھی ہیں۔ دوسری جانب اس سانحے نے کشمیریوں کو کاروبار کے لحاظ سے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اس واردات سے سب سے زیادہ نقصان کشمیر کے عوام کا ہوا ہے۔ کشمیر میں گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی سیاح بڑی تعداد میں آنا شروع ہوتے ہیں۔ گرمی کے ان چار مہینوں میں کشمیری بزرگ ہوں یا نوجوان، اپنی محنت سے سیاحوں سے اچھی خاصی کمائی کرتے ہیں اور زیادہ تر خاندان ان چار مہینوں کی محنت سے پورے سال کا گزارا کرتے ہیں۔ گرمی ابھی شروع ہی ہوئی تھی، اپریل کا مہینہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ یہ خوفناک واردات رونما ہو گئی۔ اس حادثے کی وجہ سے پورا کشمیر سیاحوں سے تقریباً خالی ہو چکا ہے، حالانکہ کشمیریوں کی کمائی کا سیزن جون سے اگست تک جاری رہتا ہے۔ بارش اور سردیوں میں بھی کشمیر کی حسین وادی کا لطف لینے سیاح آتے ہیں، مگر ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ پہلگام سانحے کے بعد کشمیریوں کا سیزن تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ کشمیر کے ہزاروں گھروں کے لیے خاص طور پر وہ لوگ جو مزدوری کرتے ہیں، گھوڑوں پر سیاحوں کو پہاڑیوں پر چڑھاتے ہیں یا جھیل میں کشتی چلاتے ہیں، ان کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔
ایک شخص طارق احمد راتھر نے جو گھوڑے کی سواری فراہم کرتا تھا کہا کہ "میرا سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ میں نے مارچ میں گھوڑے کا لائسنس بنوانا تھا اور اس کے لیے پچاس ہزار روپے ادا کیے تھے۔ اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے، کام رک چکا ہے اب بچوں کا پیٹ کیسے پلے گا؟” انہوں نے مزید کہا کہ سیاحوں کے علاوہ ایسا کوئی روزگار نہیں ہے جس سے کشمیر میں رہ کر کمائی کی جا سکے۔ ایسے میں ایک عام کشمیری بھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر میں کوئی ایسی واردات ہو جس سے کمائی کے مواقع ختم ہو جائیں۔
طارق احمد راتھر کی طرح ہزاروں افراد ایسے تھے جن کا روزگار سیاحوں پر منحصر تھا مگر اب ان کے روزگار میں کمی آ گئی ہے۔ آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ اس دلدوز واقعے میں جاں بحق ہونے والے 27 بے گناہ افراد میں سید عادل حسین شاہ بھی شامل تھے جو سیاحوں کو گھوڑے کی سواری فراہم کرتے تھے۔ وہ گھر کے اکلوتے کمانے والے بھی تھے، مگر بدقسمتی سے جب انہوں نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تو وہ بھی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کا نام کسی بھی نیوز چینل پر نہیں آیا، خاص طور پر قومی میڈیا میں۔ ان کا نام صرف اس وقت آیا جب وہ دفن کیے گئے۔
سید عادل حسین شاہ کی والدہ نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے جب پہلگام کا واقعہ ٹی وی پر دیکھا تو بہت افسوس ہوا کیونکہ وہ ہمارے مہمان تھے، لیکن اس سے زیادہ افسوس تب ہوا جب ہمارے بیٹے کا نام کسی چینل پر نہیں دکھایا گیا۔” اس کے بعد یوم سیاہ کے موقع پر کشمیریوں نے لال چوک میں قومی نیوز چینلز کے اینکروں اور نمائندوں پر نفرت پھیلانے کا الزام عائد کیا اور شدید نعرہ بازی کے درمیان انہیں وہاں سے بھگا دیا۔
اب جو لوگ بھی وادی کے سفر کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، انہیں یقین کرنا چاہیے کہ پہلگام واقعہ ایک الگ واقعہ تھا۔ کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ کھلے دل سے سیاحوں کا خیر مقدم کیا ہے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ بہت سے لوگ ہیں جو کشمیر اور ہماری مہمان نوازی پر پہلگام سانحے کے بعد بھی بھروسا کرتے ہیں۔ ’’ہم ہندوستانی ہیں‘‘ کے نعرے دکانداروں، مزدور پیشہ افراد اور ہوٹل والوں سمیت ہر شخص نے پہلگام میں احتجاجی مارچ نکالا تھا اور ’’ہندوستان زندہ باد‘‘ اور ’’میں ہندوستانی ہوں‘‘کے نعرے لگائے تھے۔ دہشت گردی کے ساتھ طویل جدوجہد کے بعد وادی میں امن آنا شروع ہوا تھا اور پچھلے چند سالوں سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ لیکن کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ہمارے مہمانوں پر ایسا حملہ کیا جائے گا جو انتہائی وحشیانہ اور دردناک واقعہ تھا۔ اس حملے کے مرتکب درندہ صفت لوگ انتہائی قابل نفرت ہیں۔ ان کے لیے مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں ہیں۔
(مضمون نگار سے رابطہ: 9596571542)
***
***
کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ کھلے دل سے سیاحوں کا خیر مقدم کیا ہے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ بہت سے لوگ ہیں جو کشمیر اور ہماری مہمان نوازی پر پہلگام سانحے کے بعد بھی بھروسا کرتے ہیں۔ ’’ہم ہندوستانی ہیں‘‘ کے نعرے دکانداروں، مزدور پیشہ افراد اور ہوٹل والوں سمیت ہر شخص نے پہلگام میں احتجاجی مارچ نکالا تھا اور ’’ہندوستان زندہ باد‘‘ اور ’’میں ہندوستانی ہوں‘‘کے نعرے لگائے تھے۔ دہشت گردی کے ساتھ طویل جدوجہد کے بعد وادی میں امن آنا شروع ہوا تھا اور پچھلے چند سالوں سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ لیکن کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ہمارے مہمانوں پر ایسا حملہ کیا جائے گا جو انتہائی وحشیانہ اور دردناک واقعہ تھا۔ اس حملے کے مرتکب درندہ صفت لوگ انتہائی قابل نفرت ہیں۔ ان کے لیے مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025