بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

فلسطین اور اسرائیل۔ بھارتکا بدلتا موقف

شبیع الزماں،پونے

آزادی کے بعد فلسطین کی حمایت اور اب اسرائیل نوازی؟
اسرائیل اور فلسطین قضیہ میں بھارت کا موقف وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ ابتداء میں بھارت فلسطین کا زوردار حمایتی تھا۔ اس کی وجہ خود اس کا سامراج واد سے مقابلہ اور اس کے مظالم کو جھیلنا تھا جس کے خلاف اس نے آزادی کی ایک طویل لڑائی لڑی تھی اس لیے وہ فلسطین کے درد کو سمجھتا تھا اس درد کا احساس کرتے ہوئے اس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ابتدائی زمانے میں بھارت کی پالیسی ناوابستہ تحریک سے وابستگی، استعمار مخالف اور ان ممالک سے ہمدردی کی تھی جنہوں نے استعمار کے مظالم سہے تھے۔  غیر عرب ریاستوں میں بھارت پہلا ملک تھا جس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو فلسطینی عوام کا واحد جائز نمائندہ تسلیم کیا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ بھارت کی بدلتی فلسطینی پالیسی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ پہلا دور 1948 سے 1950 تک
2۔ دوسرا دور 1951 سے 1991 تک
3۔ تیسرا دور 1992 سے 2014 تک اور
4۔ 2014 سے 2023 تک
1۔ پہلا دور 1948 سے 19050 تک
یہ دور 1948 سے لے کر 1950 تک کا دور کہا جا سکتا ہے جس میں بھارت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے مکمل انکار کردیا تھا ۔ بھارت کے بڑے لیڈروں گاندھی جی اور پنڈت نہرو دونوں فلسطین کے حق میں تھے۔گاندھی جی کا ماننا تھا کہ ” فلسطین عربوں کا ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے انگلینڈ انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا ہے ۔ یہودیوں کو عربوں کے گلے منڈھنا غیر قانونی اور غیر انسانی فعل ہے۔” ۔1947 میں معروف سائنس داں آئنسٹائن نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو چار صفحات کا خط لکھ اسرائیل کی حمایت کی اپیل کی تھی لیکن پنڈت نہرو نے بڑی حکمت کے ساتھ آئنسٹائن سے معذرت کرلی 1947 میں فلسطین کی تقسیم اور 1949 میں اسرائیل کو اقوام متحدہ کی ممبر شپ دینے کے خلاف ووٹ کیا۔
ہندو مہا سبھا لیڈر دامودر ونایک ساورکر اور آر ایس ایس دونوں نے حکومت ہند کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور کھلے عام اسرائیل کی حمایت کی۔اس زمانے سے ہی بھارت میں ایک گروپ ہمیشہ سے اسرائیل کا حمایتی رہا ہے۔ اس گروپ کی اسرائیل کو حمایت دو فطری وجوہات کے سبب سمجھ میں آتی ہیں ۔
ایک نسل پرستی اور دوسرا مسلمانوں سے نفرت
ساورکر صیہونیت سے متاثر تھے، ان کا خیال تھا کہ ہندو اور یہودی دونوں مشترکہ طور پر مسلمانوں کے ظلم وجبر کا شکار ہوئے ہیں اور دونوں ہی ازالے کے مستحق ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ "اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پورا فلسطین مسلمان پیغمبر کی پیدائش سے کم از کم دو ہزار سال پہلے سے، یہودیوں کا قومی گھر رہا ہے اگر صیہونیوں کے خواب پورے ہو گئے، اگر فلسطین ایک یہودی ریاست بن جاتا ہے، تو یہ بات ہمیں تقریباً اتنی ہی خوش کرے گی جتنا کہ ہمارے یہودی دوستوں کو۔‘‘
2۔ دوسرا دور 1950 سے 1991 تک
1950 میں بھارت نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور 1953 میں ممبئی میں اسرائیل کو اپنا آفس کھولنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔1950 سے لے کر 1992 تک بھارت اور اسرائیل کے باضابطہ بہت زیادہ تعلقات نہیں رہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے مابین ملاقاتوں اور تعاون کا سلسلہ جاری رہا۔کئی جنگوں میں بھی اسرائیل نے بھارت کی مدد کی، بالخصوص 1971 کی جنگ میں اسرائیل نے بھارت کی بہت زیادہ مدد کی۔ اسرائیل نے مشرقی پاکستان میں مداخلت سے قبل بھارت کو اسلحہ، گولہ بارود، انٹلیجنس اور تربیت فراہم کی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اس وقت پاکستان کی مدد کررہا تھا اور عرب ممالک کو خطوط لکھ رہا تھا کہ وہ پاکستان کی مدد کریں، اور اس کا رفیقِ خاص اسرائیل ہندوستان کی مدد کر رہا تھا۔
1947 سے لے کر 1992 تک بھارت مجموعی طور پر فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے مخالف رہا۔ 1967 اور 1973 دونوں موقعوں پر اقوام متحدہ میں بھارت فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کی مخالفت میں رہا۔ اس کی وجوہات بڑی حد تک سیاسی بھی رہی ہیں، بھارت کی حکومت جہاں اندرونی طور پر ملک کے مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی وہیں بین الاقوامی سطح پر وہ عرب ممالک کی ناراضگی سے بھی بچنا چاہتی تھی۔ اس مخالفت کی ایک نظریاتی وجہ بھی تھی۔ اس پورے دور میں زیادہ تر کانگریس کی حکومت مرکز میں تھی اور کانگریس کا ماننا تھا کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح مذہب کے نام پر بنا ہوا ملک ہے۔
3۔ تیسرا دور 1992 سے 2014 تک
یہ پالیسی 1992 تک چلتی رہی۔ 1992 کے بعد بھارت کی فلسطین پالیسی میں تبدیلی آگئی۔1992 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے سبب امریکہ اکیلا سوپر پاور بچا تھا۔ دوسری طرف عرب لیگ کے کم زور ہو جانے کی وجہ سے فلسطین کا موقف عالمی سطح پر کمزور ہو چکا تھا۔ سرد جنگ کے بعد  معاشی لبرلائزیشن کے تناظر میں بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرے۔ بھارت کی ہمیشہ کوشش رہی کہ عرب ممالک کشمیر معاملے میں پاکستان پر دباؤ بنائیں لیکن اس طرح کی کوئی مدد اسے عرب ممالک سے نہیں ملی بلکہ پاکستان سے ہر جنگ کے موقع پر اسرائیل نے ہی اس کی مدد کی۔ان تمام اسباب کی بدولت دہائیوں کی عرب موافقت پالیسی کو ترک کرتے ہوئے بالآخر بھارت نے 1992 میں تل ابیب کے اندر اپنا سفارت خانہ قائم کرکے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کر لیے اس کے باوجود بھارت نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھی اور اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی مخالفت کرتا رہا تھا اور دو طرفہ بیلنس بنائے رکھنے  کے لیے 1996 میں غزہ میں بھی اپنا ایک آفس شروع کر دیا۔ اس کے بعد سے بھارت مستقل بیلنس بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وقتاً فوقتاً مرکز میں جب بھی کانگریس کی حکومت آتی ہے تو بیلنس فلسطین کے حق میں جھک جاتا ہے اور جب بی جے پی کی حکومت ہوتی ہے تو بیلینس اسرائیل کے حق میں جھک جاتا ہے۔
1997 میں تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی اسرائیلی صدر بھارت کے دورے پر آیا تھا۔2000 میں ایل کے اڈوانی ہندوستان کے پہلے منسٹر تھے جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔اس کے اگلےسال جسونت سنگھ نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ان تعلقات میں مزید گرم جوشی اس وقت پیدا ہوگئی جب اسرائیل کے وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا۔ اس سے پہلے کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کو بھارت میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔اس دورے کی مسلمانوں اور لیفٹ پارٹیوں کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی، ممبئی میں سو سے زیادہ مسلمانوں کی گرفتاری بھی ہوئی۔ آر ایس ایس نے ان احتجاجوں پر سخت تنقید کی۔اس کے بعد کانگریس کا دور آیا جس میں پھر زیادہ وزن فلسطین کے حق میں رہا۔ اس دوران فلسطین سے محمود عباس چار مرتبہ بھارت آئے۔
4۔ چوتھا دور 2014 سے 2023 تک
2014 میں مودی حکومت آنے کے بعد سے بھارت نے جو توازن اب تک بنائے رکھا تھا وہ اسرائیل کے حق میں جھکنا شروع ہوگیا۔اس کی شروعات اسی سال ہوگئی جب2014کی غزہ جنگ میں اسرائیل کی بربریت کو نشانہ بنانے کے بجائے بھارت نے تشدد کے لیے دونوں ہی پارٹیوں کو برابر کا ذمہ دار ٹھیرایا، جسے صاف طور پر اس طرح دیکھا گیا کہ ہندوستان اپنے پرانے موقف سے ہٹ رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے جب حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا ریزولیشن پاس کرے تب سشماسوراج جو ایک منجھی ہوئی سیاست داں تھیں، انہوں نے راجیہ سبھا میں واضح طور پر کہا کہ ’’بھارت کے اسرائیل اور فلسطین دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور اس لیے اس طرح کے کسی بھی اقدام سے اس کی دوستی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے‘‘ بعد میں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے جو غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جانچ کرنے والی تھی علامتی طور پر اس کے حق میں ووٹ دے دیا اور جب یہ رپورٹ پیش ہوئی جس کے مطابق اسرائیل نے حقوق انسانی کے خلاف وزی کی ہے اس وقت بھارت ووٹنگ سے غیر حاضر رہا جس کے لیے اسرائیل نے اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔
2015 میں بی جے پی نے صدر پرنب مکھرجی کو اسرائیل کے دورے پر بھیجا۔ یہ کسی بھی بھارتی صدر کا پہلا دورہ اسرائیل تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مکھرجی نہروین طرز کے سیاست داں اور کانگریسی تھے۔ نہرو اور کانگریس دونوں ہمیشہ سے فلسطین کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ مودی سرکار نے بدلتی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کی ابتداء ہی نہروین اور کانگریسی کے قد آور نیتا کے دورہ اسرائیل کے ذریعے کی۔ اس کے کچھ ہی مہینے بعد وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ ان تعلقات میں کلائمکس اس وقت آیا جب 2017 میں نریندر مودی  پہلے بھارتی وزیر اعظم بنے جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے نریندر مودی کا پرجوش استقبال کرتے ہوئے کہا ’’سواگت ہے میرے دوست! پر اتنی دیر کیوں لگی؟ ہم تو ستر سالوں سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں‘‘
وزیر اعظم مودی سے پہلے یہ روایت رہی (سوائے راج ناتھ سنگھ کے) کہ بھارت کا کوئی بھی نمائندہ جب کبھی اسرائیل جاتا تو فلسطین بھی ضرور جاتا لیکن انہوں نے اس بیلنس کو توڑتے ہوئے صرف اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس دورے میں دونوں ممالک کے درمیان سات بڑے معاہدے طے پائے۔ بعد کے دنوں میں بھارت نے تقریبا ہر میدان میں اسرائیل کے ساتھ اسٹریجک اور تجارتی تعلقات بنائے ہیں۔ ملٹری، ایرو اسپیس، سرویلانس، انٹلی جنس سرویسیز، امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ، سائنس اور ٹکنالوجی، خلائی مشن ، زراعت ،تیل اور نیچرل گیس ، کلچر و ثقافت ، سیاحت اور بین المذاہب تعلقات۔ ان تمام میدانوں میں اسرائیل اور بھارت ساتھ ساتھ کام کررہے ہیں۔
2018 میں نتین یاہو نے بھارت کا چھ روزہ دورہ کیا۔ نریندر مودی خود ذاتی طور پر انھیں ریسیو کرنے گئے۔ گجرات میں نتین یاہو کا روڈ شو کروایا گیا۔ اس ملاقات سے بھارت اسرائیل تعلقات نے ایک نئی منزل طے کی۔2014 کے بعد اسرائیل اور بھارت دونوں طرف کے ذمہ داران کے مستقل دورے ہونے لگے اور ان دوروں کے دورانیے اور تعداد دونوں ملکوں کے تعلقات اور بڑھتی قربت کو بتاتے ہیں۔ بھارت-اسرائیل رومانس کا عملی مظہر عالمی سطح پر 2019 میں اس وقت سامنے آیا جب بھارت نے اسرائیل کی طرف سے اقوام متحدہ کی ایک باڈی میں فلسطینی حقوق کی تنظیم "شہید” کو اقوام متحدہ کے اداروں میں مبصر کا درجہ دینے سے روکنے کے حق میں ووٹ دیا، اسرائیلی سفارت کاروں نے اس اقدام کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھارت پہلی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا تھا۔اسی طرح 2021 میں حقوق انسانی کونسل میں اسرائیل کی درندگی کی تحقیقات والی ووٹنگ سے بھی بھارت نے غیر حاضر رہنا مناسب سمجھا۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات گزشتہ دس برسوں میں مضبوط ہوئے ہیں، جاری اسرائیل حماس جنگ کے تناظر میں بھی یہ موقف مزید کھل کر سامنے آگیا۔ سات اکتوبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کے’’بے گناہ لوگوں پر ‘‘حماس کے ’’دہشت گردانہ حملوں‘‘ کی مذمت کی اور اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ ’’ہم اس مشکل گھڑی میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ تین دن بعد دس اکتوبر کو انہوں نے اپنے اسرائیلی ہم منصب بنجامن نیتن یاہو کو بھی یہ یقین دہانی کرادی کہ بھارت کے عوام ثابت قدمی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔نریندر مودی نے فلسطینیوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ابتداء میں کھل کر اسرائیل کو سپورٹ کرنے کے بعد تھوڑا بیلنس بنانے کی کوشش کی گئی اور  12؍ اکتوبر کو وزارت خارجہ نے بھارت کا دو ریاستی حل والاموقف دہرادیا۔ الاہلی ہسپتال پر ہونے والے حملے میں وزیر اعظم مودی نے راست اسرائیل کا نام نہ لیتے ہوئے ایک عمومی قسم کا تعزیتی پیغام دیا۔27؍ اکتوبر کو بھارت ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے غزہ میں ’’انسانی جنگ بندی‘‘ کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت نہیں کی، اس کے بجائے غیر حاضر رہنے کا انتخاب کیا۔ اپوزیشن لیڈر سونیا گاندھی نے مودی حکومت کے اس موقف کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا ’’وزیر اعظم نے اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ابتدائی بیان میں فلسطینیوں کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ قرارداد پر بھارت کی عدم شرکت کی سخت مخالفت کرتی ہے‘‘
پچھلے نو سالوں میں ظاہری سطح پر بھارت بھلے ہی بیلنس دکھاتا رہا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اب اسرائیل کے ساتھ اس کے اتنے معاہدے اور مفادات وابستہ ہوچکے ہیں کہ وہ اس کی مخالفت کی پوزیشن میں نہیں رہا ہے۔ اور اس مخالفت کی اسے کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ جن بنیادوں پر مخالفت کی یہ پالیسی تھی وہ سبھی ختم ہوچکی ہیں۔
اندرون ملک کسی کی مخالفت کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔مختلف سروے کیے گئے تو ان میں یہ بات سامنے آئی کی بھارت کے عوام اسرائیل کے ساتھ ہیں۔جس طرح کی ماحول سازی گودی میڈیا اور بی جے پی آئی ٹی سیل نے کر رکھی ہے اس سے یہی تاثر بننا تھا کہ اسرائیل مظلوم اور فلسطین یا حماس ظالم ہیں۔رہا سوال مسلمانوں کی ناراضگی کا تو ان کے ووٹ بی جے پی کو درکار ہی نہیں ہیں۔
عالمی سطح پر عرب ممالک میں اسرائیل کو لے کر برف پگھلی ہے اور ان کی مخالفت میں پہلی سی شدت نہیں رہی ہے اور بعض عرب مملک خود اسرائیل سے تعلقات قائم کر رہے ہیں، اس لیے اب عربوں کی ناراضگی کا کوئی زیادہ خدشہ بھی باقی نہیں رہا۔
رہا سوال نظریات کا تو بی جے پی کو جنم دینے والا سنگھ پریوار ہمیشہ سے اسرائیل ہی کے حق میں رہا ہے۔اس کا لٹریچر اور تاریخی موقف اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کے رشتے اگر بے حد مضبوط ہوئے ہیں تو اس کی بڑی وجہ صیہونیت اور ہندوتوا میں نظریاتی ہم آہنگی بھی ہے۔صیہونیت اور ہندوتوا دونوں  اسلاموفوبیا کے شکار ہیں۔ جہاں صیہونی یہ مانتے ہیں کہ اسرائیل صرف یہودیوں کے لیے ہے وہیں متشدد ہندوتوادی بھی یہی مانتے ہیں کی بھارت پر اول حق ہندووں کا ہے۔ ہندوتوا مخالف قوتیں سنگھ اور بی جے پی پر یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ وہ بھارت کو ہندو پاکستان بنانا چاہتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی اسے ہندو پاکستان نہیں بلکہ اسرائیل بنانا چاہتی ہے۔اسرائیل نے فلسطین میں جس طرح مسلمانوں کو ہینڈل کیا وہ طریقہ ہمیشہ سے ہندوتوادیوں کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے۔
حالیہ معاملے میں اسرائیل کے سپورٹ کرنے کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے ۔پانچ ریاستوں اور 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کے پاس ووٹروں کو ورغلانے کے لیے کوئی خاص موضوع نہیں ہے۔ اس وقت اسرائیل کی حمایت میں حکم راں بی جے پی کو بے شمار سیاسی اور انتخابی فائدے نظر آرہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی بی جے پی کے ووٹ بینک کے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہے خواہ وہ پاکستان کے بہانے ہو یا فلسطین کے بہانے۔ حماس کو دہشت گردی سے جوڑ کر بی جے پی نے ماحول کو بڑے پیمانے پر پولرائز کرنے کی کوشش کی ہے۔ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنا جرم قرار پایا، احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور ان کے خلاف مقدمے درج ہو رہے ہیں۔ مغربی دنیا سمیت دنیا کے ہر ملک میں نتین یاہو کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں یہاں تک کہ تل ابیب میں بھی نتین یاہو کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے لیکن بھارت میں یہ جرم قرار پایا ہے۔ فلسطین کی حمایت کرنا دہشت گردی کی حمایت کرنا قرار پایا۔
مودی حکومت کی اسرائیل نواز پالیسی کا ایک پہلو یہ بھی ہےکہ نریندر مودی جس آئیڈیالوجی سے تعلق رکھتے ہیں اس کی بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ ہر طاقت ور کے آگے جھک جاتی ہے اور کم زور کو دبا دیتی ہے۔ پروفیسر اپوروانند نے اس نفسیات کو بہترین طریقے سے واضح کیا ہے۔
یہ ہے وہ تمام وجوہات جن کی بنا پر بھارت دھیرے دھیرے اسرائیل کے حق میں جھکنا شروع ہوا اور اب اس کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ رہا سوال کہ کیا مستقبل میں بھی بھارت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ تو یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ اس میں نہ دوست مستقل رہتے ہیں اور نہ دشمن بلکہ مفادات مستقل لگے رہتے ہیں۔ اصولی طور پر بھارت فلسطین کے ساتھ ہی رہا لیکن اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قوت، معاشی اثرات اور ٹکنالوجی نے بھارت کو اپنا موقف بدلنے پر مجبور کردیا۔ موجودہ حکومت کو ان سب کے ساتھ نظریاتی بنیادیں بھی میسر آگئیں۔اس صورت حال میں تعجب اس بات پر نہیں کہ بھارتی حکومت اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ تعجب اس وقت ہوتا اگر وہ کم زور و بے سہارا فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی۔مستقبل میں اگر مقامی حالات اور عالمی منظر نامہ بدلتا ہے تو اس بات کے بھی امکانات ہے کہ بھارت پھر سے اپنی پرانی پالیسی پر لوٹ آئے۔
***

 

***

 2015 میں بی جے پی نے صدر پرنب مکھرجی کو اسرائیل کے دورے پر بھیجا۔ یہ کسی بھی بھارتی صدر کا پہلا دورہ اسرائیل تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مکھرجی نہروین طرز کے سیاست داں اور کانگریسی تھے۔ نہرو اور کانگریس دونوں ہمیشہ سے فلسطین کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ مودی سرکار نے بدلتی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کی ابتداء ہی نہروین اور کانگریسی کے قد آور نیتا کے دورہ اسرائیل کے ذریعے کی۔ اس کے کچھ ہی مہینے بعد وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ ان تعلقات میں کلائمکس اس وقت آیا جب 2017 میں نریندر مودی  پہلے بھارتی وزیر اعظم بنے جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے نریندر مودی کا پرجوش استقبال کرتے ہوئے کہا ’’سواگت ہے میرے دوست! پر اتنی دیر کیوں لگی؟ ہم تو ستر سالوں سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023