بابری مسجد انہدام کیس: 32 ملزمان کے بری کیے جانے کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سی بی آئی کا اعتراض
نئی دہلی، ستمبر 6: سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے پیر کو الہ آباد ہائی کورٹ میں بابری مسجد انہدام کیس میں 32 افراد کے بری کیے جانے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کی برقراری کی مخالفت کی۔
گذشتہ سال ستمبر میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے تقریباً تین دہائیوں پرانے مجرمانہ معاملے میں تمام ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام میں مجرمانہ سازش اور دیگر الزامات کے ملزم تھے۔
درخواست گزار حاجی محبوب احمد اور سید اخلاق احمد نے اس فیصلے کے خلاف فوجداری اپیل دائر کی ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے جسٹس رمیش سنہا اور رینو اگروال اس معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔
پیر کی سماعت میں سی بی آئی نے استدلال کیا کہ اس اپیل کو خارج کر دینا چاہیے کیوں کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے۔ سی بی آئی کے وکیل شیو پی شکلا اور سرکاری وکیل ومل کمار سریواستو نے عدالت میں عرض کیا کہ اپیل کنندگان کو اپیل دائر کرنے کا حق نہیں ہے کیوں کہ وہ اس کیس میں متاثر نہیں ہوئے تھے۔
ابتدائی طور پر اپیل کنندگان نے ملزمین کو بری کیے جانے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے۔ تاہم جسٹس دنیش کمار سنگھ نے فیصلہ دیا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 372 کے تحت یہ قابل عمل نہیں ہے، جو فوجداری مقدمات میں اپیل کی فراہمی سے متعلق ہے۔
درخواست گزاروں کی درخواست پر عدالت نے پھر نظرثانی کی درخواست کو فوجداری اپیل میں تبدیل کرنے کی اجازت دے دی۔
پی ٹی آئی کے مطابق اس معاملے کی مزید سماعت 26 ستمبر کو ہوگی۔
واضح رہے کہ اتر پردیش کے ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو ہندوتوا انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992 کو منہدم کر دیا تھا، کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ یہ اس زمین پر کھڑی ہے جو ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش تھی۔ اس واقعے نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی تھی۔
گذشتہ سال ملزمین کو بری کرتے ہوئے اپنے حکم میں خصوصی جج ایس کے یادو نے کہا تھا کہ سی بی آئی نے 32 ملزمین کے خلاف جو ثبوت فراہم کیے ہیں وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ سی بی آئی کے ذریعہ فراہم کردہ آڈیو اور ویڈیو ثبوت کی صداقت کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ انھدام کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور مسجد کو گرانے والے ’’ملک دشمن عناصر‘‘ تھے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزم لیڈر درحقیقت ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔