مسعود ابدالی
ایران نواز حوثیوں اور سعودی حمایت یافتہ وفاقی حکومت کے درمیان غیر اعلانیہ فائر بندی کی وجہ سے دس سال بعد یمن میں رمضان کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔
ڈھائی ہفتہ قبل چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو مملکت کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ ایرانی صدر نے شاہی دعوت کو پوری ایرانی قوم کے لیے باعثِ شرف قرار دیتے ہوئے کہا کہ خاک طیبہ ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے، آپ کی دعوت سے ہم نہال ہیں لیکن سعودی عرب آنے کے لیے ہمیں رسمی دعوت کی ضرورت نہیں کہ بھائیوں میں کیا تکلف۔ سعودی وزارت خارجہ نے ایران کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات رمضان ہی میں متوقع ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے سوا ساری دنیا نے اس شان دار پیش رفت کا خیر مقدم کیا۔عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر سعودی عرب اور ایران نے تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی جرات کرلی تو اس سے جہاں ان دونوں ملکوں میں امن و سکون آئے گا وہیں خانہ جنگی کے مارے شامیوں، اہل یمن و عراق اور ساکنانِ افغانستان کو بھی راحت نصیب ہوگی۔
اور واقعی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایران نواز حوثیوں اور سعودی حمایت یافتہ وفاقی حکومت کے درمیان غیر اعلانیہ فائر بندی کی وجہ سے دس سال بعد یمن میں رمضان کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔قحط، بیماری اور مہنگائی کے مارے یمنی عملاً صائم الدھر ہیں لیکن اس بار پانی سے سحر وافطار کرنے والے ان فاقہ کشوں کو عسکری سائرن کی اذیت سے وقتی طور پر نجات مل چکی ہے۔
ایران سعودی مفاہمت کی پشت پر چین کی کامیاب سفارتکاری جبکہ شام کے معاملے میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی معاملہ فہمی و بردباری برگ و بار لائی ہے۔ موصوف تصادم کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ دس برس قبل جرمن وزیر خارجہ سگمر جبرائیل (Sigmar Gabriel) کے توہین آمیز بیان پر سعودی عرب نے جرمنی نے اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور سفارتی تعطل ایک سال جاری رہا۔ سفیروں کے تبادلے کے بعد بھی جرمن سعودی تعلقات میں ناخوشگوار کشیدگی برقرار رہی اورر مارچ 2019 میں شہزادہ فرحان سفیر بناکر جرمنی بھیجے گئے جن کی ولادت جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہوئی تھی اور موصوف جرمنی بہت روانی سے بولتے ہیں۔ شہزادہ صاحب نے اپنے شیریں اندازِ گفتگو اور حکمت سے جرمنی اور سعودی عرب کے تعلقات میں آنے والی سلوٹ کو ہموار کردیا۔ چند ہی ماہ بعد شہزادہ فرحان کو سعودی وزارت خارجہ کا قلمدان سونپ دیا کیا۔
اطلاعات کے مطابق سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود سعودی وزیر خارجہ اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ فیصل بن فرحان کو انگریزی ادب سے دلچسپی ہے جبکہ انسٹھ سالہ فیصل مقداد انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی ہیں۔ چنانچہ سیاست و سفارت کے علاوہ ان دونوں کے درمیان گفتگو کے لیے باہمی دلچسپی کے کئی دوسرے موضوعات بھی ہیں۔ سعودی وزیرخارجہ کا خیال ہے کہ بات چیت کبھی بے سود نہیں ہوتی اور گفتگو کا ہر دور تعاون کا نیا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ ایران سے صبر آزما بلکہ اعصاب شکن سالوں طویل مذاکرات سعودی شہزادے کی اسی مستقل مزاجی اور پُرامید طرز فکر کا ثمر ہے۔ انہوں نے مفاہمت کے اعلان سے ایک ماہ قبل کہا تھا کہ ایران سے مذاکرات کے چار دور میں قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی لیکن دونوں فریقوں کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے کا عزم بے حد خوش آئند ہے اور ہم ملاقات کا کوئی بھی موقع ضایع نہیں کریں گے۔
شام کے معاملے میں بظاہر کسی ثالثی کے بغیر دونوں وزارئے خارجہ براہ راست گفتگو کرتے رہے اور خیال ہے کہ جناب مقداد نے اپنے ایرانی دوستوں کو بھی اس بات چیت سے باخبر رکھا۔ شام سے تعلقات بہتر کرنے کی سعودی خواہش نے ایرانیوں پر مثبت اثرات مرتب کیے اور 10مارچ کو تہران و ریاض کے درمیان ہونے والے معاہدے میں شام سعودی مفاہمتی گفتگو نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ریاض دمشق ناچاقی کی بنیادی وجہ شام کی خانہ جنگی اور اس میں ایران کی مبینہ مداخلت پے۔ خانہ جنگی کے اسباب و عوامل پر چند سطور سے قارئین کو پسِ منظر سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
دسمبر 2010 میں تیونس سے پھوٹنے والی آزادی کی لہر نے مصر، کویت، بحرین اور یمن کی طرح شامیوں کو بھی حوصلہ دیا لیکن خفیہ پولیس کی موثر پیش بندیوں کی بنا پر کوئی عوامی سرگرمی سامنے نہ آئی۔ پندرہ مارچ 2011کو اردن سے ملحقہ شہر درعا کے ایک ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ (شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا۔ اور اسکے بعد شہر کے سارے اسکولوں میں یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ حکومت کی نظر میں یہ ایک ناقابل معافی جسارت تھی چنانچہ خفیہ پولیس حرکت میں آئی اور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انہوں نے نعرے لکھے تھے۔ اٹھارہ مارچ کو بعد نمازِ جمعہ ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ پولیس کی فاٰئرنگ سے درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔
تشدد سے ہنگامے تو کیا رکتے، یہ درعا سے نکل کر سارے ملک میں پھیل گئے اور شام کے پرچم ہاتھوں میں لیے نوجوانوں نے مختلف شہروں کے میدانوں اور چوراہوں پر ڈیرے ڈال دیے۔ آزادی کی یہ قومی تحریک جماعتی و نظریاتی سیاست سے بالا تر تھی۔ کسی شخصیت کے لیے زندہ باد و مردہ باد کی کوئی صدائیں نہ تھی اور نعروں سے صرف اللہ پر ایمان اور مملکت کی سرفرازی و کامرانی کا عزم جھلکتا تھا۔ شام کے آمر بشارالاسد کو کتا اور لوٹا کہنے کے بجائے ان سے عزت کے ساتھ ارحل (یعنی تشریف لے جائیے) کی درخواست کی گئی تھی۔
شام کے رائج الوقت نظام میں اختلاف کی سزا موت ہے۔ سوا دو کروڑ نفوس پر مشتمل اِس ملک کو عرب دنیا کا سیاسی قبرستان کہا جاتا ہے۔ جاسوسی کا نظام اس قدر مضبوط و مربوط کہ شاید ’’دیواروں کے کان‘‘ کا محاورہ شام میں تخلیق کیا گیا ہے اور ہمارے فیض صاحب کو ’’اپنے ہی سائے سے گریزاں‘‘ ہونے کا عملی مشاہدہ بھی یقیناً شام ہی میں ہوا ہوگا۔ تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں نصف صدی سے ’’فوجی بادشاہت‘‘ قائم ہے جس کے بانی صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد تھے۔
حافظ الاسد نے اپنے بھائی اور خفیہ پولیس کے سربراہ رفعت الاسد سے مل کر 1980 میں جس بیدردی سے اخوان المسلمون کا قتل عام کیا اس کی تفصیل تو کیا چند ایک واقعات لکھنے کی بھی ہم میں ہمت نہیں ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ حماہ، حلب اورحمص کے شہروں کی جو اخوان کے گڑھ سمجھے جاتے تھے، اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ یہاں آباد اخوان کا ایک ایک کارکن اپنے بیوی بچوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ ماری جانیوالی خاتون کارکنوں کی اکثریت لیڈی ڈاکٹروں کی تھی۔ان کے مکتبے، کتب خانے، خیراتی شفا خانے، رعایتی ریستوران مسمار کر دیے گئے۔ رفعت الاسد نے ایک امریکی صحافی سے بات کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ وہ تدمر جیل کے قصاب ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہزار اخوانیوں کے گلے میں پھانسی کے پھندے ڈالے ہیں۔
اپنے والد کی طرح بشارالاسد نے وہی ہتھکنڈے مظاہرین کے خلاف استعمال کیے۔ والد کے دست و بازو ان کے چچا تھے تو بشارالاسد کی نصرت کو ان کے بھائی اور ریپبلکن گارڈ کے سربراہ جنرل ماہر الاسد سامنے آئے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کو ان کی ہمشیرہ بشریٰ الاسد نے سنبھالا۔ دارالحکومت دمشق کے علاوہ حمص، حماہ، الاذقیہ، طرطوس، اور دیرالزور میں بربریت کی انتہا کردی گئی۔ لیکن اس کے بعد بھی حالات قابو میں نہ آئے تو بشارا لاسد نے فرقہ واریت کا پتہ پھینک دیا۔ قوم سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ سارا فساد اخوانیوں کا پھیلایا ہوا ہے، جو کرد انتہا پسندوں سے مل کر شام کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اخوان کو صیہونی سامراج اور ترکی کے اسلام پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔ کچھ دن بعد شامی خفیہ پولیس نے انکشاف کیا کہ ترک سرحد پر واقع شہر القامشلی سے کرد بنیاد پسند اور الحسکہ کے راستے عراق کے ’سُنّی دہشت گرد‘ شام میں داخل ہو رہے ہیں۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے مشرقی شام میں عراقی سرحد پر تیل کے میدانوں کے قریب مورچہ لگا لیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت یہاں 900 امریکی فوجی تعینات ہیں۔
اسی دوران روس نے اپنے اتحادی کی ’حفاظت‘ کے لیے نجی ملیشیا ویگنر (Wagner) کے پیشہ ور قاتل بھیج دیے۔ کچھ دن بعد داعش کا شگوفہ پھوٹا اور ایران نے داعش کی سرکوبی کے نام پر پاسداران انقلاب کے دستے میدان میں اتار دیے۔ لبنان کی حزب اللہ بھی بشارالاسد کی پشت پر آ کھڑی ہوئی۔ اس طرح صدر بشارالاسد عوامی جمہوری جدوجہد کو علویوں اور شیعوں کے خلاف سنیوں کا غدر قرار دینے میں کامیاب ہوگئے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ دونوں اس معاملے میں صدر اسد کے ہمنوا تھے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک ایران کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، چنانچہ 2012 میں ریاض نے شام سے سفیر واپس بلا کر تعلقات توڑ لیے۔
جب سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کے آثار پیدا ہوئے تو سعودی و شامی رابطے بھی مثبت اشارے دینے لگے۔ 23 مارچ کو امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب اور شام سفارتی تعلقات بحال کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ رائٹرز کے مطابق تین اہم شخصیات نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عیدالفطر کے فوراً بعد قونصلر کی سطح پر تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اس کے دوسرے دن سعودی عرب کے سرکاری سیٹلائٹ چینل الاخباریہ نے بتایا کہ سعودی عرب اور شام سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوتے نظر آرہے ہیں۔اب تک ان خبروں کی دمشق اور ریاض نے تصدیق یا تردید نہیں کی لیکن سرکاری ٹیلی ویژن پر خبر کا اجرا سعودیوں کی جانب سے تصدیق بلکہ توثیق کی ایک شکل ہے۔
حسب توقع امریکہ اور اسرائیل ایران سعودی تعلقات پر کچھ متفکر ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے شام میں ایران اور امریکہ کے درمیان مسلح تصادم کی خبریں آرہی ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق 23 مارچ کو شمالی شام میں الحسکہ کے قریب امریکی اڈے پر ایرانی ڈرون حملے میں ایک کرائے کا فوجی (Contractor) ہلاک اور 5 امریکی سپاہی زخمی ہوگئے۔ کچھ دیر بعد اپنے ایک بیان میں امریکی وزیر دفاع جنرل لائڈ آسٹن نے کہا کہ حملے کا مناسب جواب دے دیا گیا ہے۔ امریکی وزارت دفاع نے یہ نہیں بتایا کہ شام میں کس جگہ ایرانی ٹھکانوں پر جوابی حملے کیے گئے لیکن ٹویٹر پر نصب کیے جانیوالے بصری تراشوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کا ہدف مشرقی شام کا شہر دیرالزور تھا۔ عراق کی سرحد کے قریب دریائے فرات کے کنارے واقع دیرالزور، تیل اور گیس کا مرکز ہے۔
دوسرے دن جواب الجواب کے طور پر ایرانی ڈرونوں نے دیرالزور میں دو امریکی اڈوں پر حملہ کیا جس میں ایک امریکی اہلکار زخمی ہوگیا۔ صدر بائیڈن نے شام کی صورتحال پر اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ امریکہ ایران سے براہ راست تصادم نہیں چاہتا لیکن ہر جارحانہ کارروائی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ عرب و عجم دوستی کی شاہراہ بارودی سرنگوں سے پٹی پڑی ہے۔ شام میں امریکہ کی حالیہ کارروائیاں ان بارودی سرنگوں کو آگ دکھانے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ خدشات اور اندیشے اپنی جگہ لیکن شام سعودی تعلقات کی بحالی سے سعودی ایران مفاہمت کی پائیداری اور تہران و ریاض کی سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023