اور اب ایران۔ امریکہ تعلقات

خدشات، اندیشوں اور زمیں کی ہم رنگ بارودی سرنگوں کے ڈھیر میں امکانات کی تلاش

مسعود ابدالی

سعودی۔ایران تعلقات سے پریشان اسرائیل کو واشنگٹن۔ تہران بات چیت پر بھی شدید تحفظات
ایران-سعودی عرب تعلقات کی بحالی دورِ حاضر کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ ان دو ملکوں کے درمیان کشیدگی عرب و عجم جنگ کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ اس وحشت و درندگی نے شام و یمن کو مکمل اور عراق و لبنان کو جزوی طور پر تباہ کردیا۔ تاہم دیر آید درست آید کہ ایک دہائی بعد ہی سہی مشرق وسطیٰ کے مسلمان رہنماوں کو تباہی بلکہ قومی خود کشی کا ادراک ہوگیا اور چین کی ثالثی میں سعودی-ایران کامیاب مذاکرات کے بعد نہ صرف ریاض و تہران تمام تصفیہ طلب امور بات چیت کے ذریعے پرامن انداز میں نمٹانے پر رضامند ہوگئے بلکہ اس کے نتیجے میں شام-سعودی کشیدگی بھی کم ہوئی اور رمضان المبارک کے آخر میں دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرلیے۔ یمن کے عوام کو بھی بم باری اور میزائیل باری سے کم از کم وقتی طور پر نجات نصیب ہوئی۔
بدقسمتی سے اسرائیل کو ریاض-تہران مفاہمت پر سخت تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتے جب سعودی وزیر خارجہ ایران کے تاریخ ساز دورے پر آئے تو اپنے مہمان سے ملاقات کے بعد ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی نے بہت دو ٹوک لہجے میں کہا کہ ‘ایران-سعودی تعلقات سے اسرائیل کے سوا ساری دنیا خوش ہے کہ تصادم سے تباہی اور تعاون سے امن و خوشحالی کا راستہ کھلتا ہے
اب خبر گرم ہے کہ امریکہ اور ایران باہمی کشیدگی کم کرنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سعودی-ایران تعلقات سے پریشان اسرائیل کو واشنگٹن تہران بات چیت پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ امریکہ-ایران مذاکرات کا انکشاف وزیر اعظم سمیت اسرائیلی حکومت کے مختلف ترجما ن کر رہے ہیں۔
امریکہ ایران کشیدگی 68 سال پرانی ہے۔ اس کا آغاز 28 اپریل 1951 کو اس وقت ہوا جب آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں محمد مصدق ایران کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ایرانی دولت کا منبع 1908 میں صوبہ خوزستان کے مقام مسجد سلیمان سے دریافت ہونے والا تیل تھا۔ تیل و گیس کا سارا کاروبار اینگلو پرشین آئل کمپنی (APOC) کے ہاتھ میں تھا جو پہلے برطانوی حکومت کی ملکیت تھی لیکن آزادی کے بعد APOC کے کچھ حصے امریکی صنعت کاروں نے بھی خرید لیے۔وزیر اعظم مصدق نے حکومت سنبھالتے ہی APOC کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اس جسارت پر امریکہ اور برطانیہ دونوں ہی سخت مشتعل ہوئے۔ سی آئی اے اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی M16 نے فوجی انقلاب کے ذریعے مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ مصدق پہلے جیل اور اس کے بعد گھر پر نظر بند کردیے گئے۔ امریکہ کی آشیرواد سے شاہ ایران نے بساطِ جمہوریت لپیٹ کر تمام کے تمام اختیارات سنبھال لیے۔
امریکی و برطانوی پشت پناہی میں شاہ ایران کا آمرانہ اقتدار مستحکم تو ہوگیا لیکن عوام میں نفرت کا لاوا پکتا رہا اور 1978 کے آغاز پر پوری ایرانی قوم شاہ ایران کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاہ ایران کی غیر ضروری امریکی حمایت کی بنا پر جدوجہدِ جمہوریت ‘مرگ بر امریکہ’ تحریک میں تبدیل ہوگئی۔
شاہ ایران نے حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے اپنے ترکش کا ہر تیر استعمال کیا۔ مظاہرین پر فوجی ٹینک چڑھادیے گئے لیکن عوامی تحریک جاری رہی اور آخرِ کار 16 جنوری 1979 کو شہنشاہ ایران ملک سے فرار ہوگئے جس کے دو ہفتہ بعد روحانی رہنما آیت اللہ خمینی اپنی جلا وطنی ترک کرکے فاتحانہ انداز میں تہران ایئرپورٹ پر اترے اور یکم اپریل 1979 کو ملک گیر ریفرنڈم کے بعد ایران کو اسلامی ریپبلک قرار دیدیا گیا۔ایرانی طلبا کی جانب سے تہران کے امریکی سفارت خانے پر قبضے اور سفارت کاروں کو یرغمال بنانے کی بنا پر ایران امریکہ تعلقات میں مزید کشیدگی آئی۔ ستمبر 1980 کو عراق نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ کے دوران ایران امریکہ کشیدگی اپنے عروج پر رہی کہ ایرانیوں کا خیال تھا کہ صدام حسین امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
امریکہ اور ایران کے مابین پانچ دہائیوں سے جاری غیر اعلانیہ جنگ میں مزید شدت 2007 میں اس وقت آئی جب ایران نے اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جوہری وسائل استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے خلیجی اتحادیوں کا خیال تھا کہ ایران توانائی کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ 2010 میں ایران پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کردی گئیں اور چین نے وعدے کے باوجود پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔
سخت پابندیوں سے پریشان ہوکر ایران نے مذاکرات شروع کیے اور برسوں کے جاں گسل مول تول کے بعد 14 جولائی 2015 کو پابندیان ہٹانے کے عوض ایران یورینیم کی افزودگی ختم کرکے اپنے جوہری پروگرام کو roll-back کرنے پر رضامند ہو گیا۔ معاہدے کے متن کی تیاری کا مرحلہ بھی اتنا آسان نہ تھا۔آخر کار 18 اکتوبر 2015 کو معاہدے پر دستخط کے بعد 16 جنوری 2016 سے اس پر عمل درآمد شروع ہوا اور ایران پر سے پابندیاں ہٹالی گئیں۔ یہ معاہد برنامہ جامع اقدامِ مشترک Joint Comprehensive Plan of Actionیا JCPOA (فارسی مخٖفف برجام) کہلاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی بھی برجام کے فریق ہیں چنانچہ اسے 5+1 معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ بعد میں ضامن کی حیثیت سے یورپی یونین نے بھی اس پر دستخط کیے۔
حسب توقع اسرائیل کو برجام پر شدید تحفظات تھے۔ وزیر اعظم نتن یاہو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس دوران امریکہ میں صدارتی مہم چل رہی تھی۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ برجام کے سخت مخالف تھے۔ اپنے انتخابی جلسوں میں انہوں نے کہا کہ ‘ملاوں’ نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر ایک جعلی معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں اس پر عائد معاشی پابندیاں ختم کردی گئیں۔ جناب ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ برسر اقتدار آکر وہ اس معاہدے کو منسوخ کردیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برجام کی امریکی سینیٹ سے ایک کے مقابلے میں اٹھانوے اور ایوان زیریں سے ہچیس کے مقابلے میں چار سو ووٹوں سے توثیق ہوچکی ہے۔
صدر ٹرمپ نے آٹھ مئی 2018 کو قوم سے اپنے خطاب میں برجام سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ امریکی کانگریس سے توثیق ممکن نہ تھی چنانچہ انہوں نے صدارتی فرمان جاری کرکے اپنی خواہش کو مہر تصدیق عطا کر دی۔ ساتھ ہی ایران پر وہی پابندیاں عائد کر دی گئیں جو Roll-back کے اس معاہدے سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا برجام ایران، سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان او جرمنی کے درمیان تھا جس پر بطور ضامن یورپی یونین کے دستخط ہیں۔ امریکہ کے سوا تمام کے تمام دستخط کنندگان نے بلا استثنیٰ اس بات کی تصدیق کی کہ ایران معاہدے پر مخلصانہ عمل کر رہا ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر ‘افسوس’ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برجام پر مخلصانہ عمل درآمد جاری رکھا جائے۔ اس خط میں بڑی صراحت سے اس بات کی تصدیق اور تحسین کی گئی تھی کہ ایران اب تک اس معاہدے پر اس کی متن اور روح کے مطابق عمل کر رہا ہے۔لیکن زبانی جمع خرچ کے بعد یورپی یونین کے ساتھ روس اور چین بھی طوعاً و کرہاً ایران کے خلاف چچا سام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔
سفارتی حمایت سے محروم ہونے کے بعد ایران نے اعلان کیا کہ چونکہ ہمارے اصولی موقف کی حمایت کے بجائے امریکہ کی تحریک پر تمام دوسرے دستخط کنندگان نے ایران پر پابندیاں لگا کر برجام کو معطل کر دیا ہے اس لیے تہران یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اسرائیلی محکمہ سراغرسانی کا خیال ہے کہ ایران کسی بھی وقت ایٹمی دھماکہ کرسکتا ہے۔
صدر بائیڈن برجام سے امریکہ کی علیحدگی کے خلاف تھے لیکن ان میں اسرائیل کو ناراض کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی، چنانچہ انہوں نے اپنے پیشرو صدر اوباما کی طرح دو رخی کا عمل جاری رکھا، یعنی دھواں دھار بیانات کے ساتھ پس پردہ گفتگو۔
امریکہ کے حکومتی حلقوں میں اسرائیل کی رسائی خاصی گہری ہے، لہٰذا تل ابیب کو ان ملاقاتوں کا بروقت علم رہا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے اسرائیلی حکام یہ کہتے سنے گئے کہ جوہری معاملات پر امریکہ اور ایران کے درمیان نہ صرف باقاعدہ گفتگو ہو رہی ہے بلکہ ایک ’عبوری معاہدہ‘ بھی طے پاچکا ہے۔
امریکہ ایران کے درمیان اعتماد سازی کا پہلا اشارہ اس وقت ملا جب سوئیڈن میں پانچ سال سے نظر بند ایرانی سفارت کار اسد اللہ اسدی چھبیس مئی کو تہران پہنچ گئے۔ جناب اسدی کو دہشت گردوں کی ’سرپرستی‘ کے الزام میں بیس سال کی سزا ہوئی تھی۔ اسدی صاحب کو تہران میں چلتا پھرتا دیکھ کر چہ مہ گوئیاں شروع ہوئیں اور جب جاسوسی کے الزام میں گرفتار بیلجیم کے شہری Olivier Vandecasteele کو تہران جیل سے رہا کر کے عُمانی حکام کے حوالے کیا گیا تب یہ عقدہ کھلا کہ یہ دراصل قیدیوں کا تبادلہ تھا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ تہران اور واشنگٹن بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک دوسرے سے خیر سگالی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
جون کے دوسرے ہفتے سے خبریں آنا شروع ہوئیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان نہ صرف سنجیدگی سے گفتگو ہورہی ہے بلکہ تجدید برجام کے لیے عبوری معاہدے کے متن پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔
منگل 13 جون کو اسرائیل کی عبرانی آن لائن ایجنسی Walla اور ٹیلی ویژن چینل 13 نے خبر شائع کی کہ وزیر اعظم نتن یاہو المعروف بی بی نے کابینہ کے کچھ ارکان کو امریکہ ایران گفتگو اور ممکنہ عبوری معاہدے سے مطلع کیا ہے۔ ‘والا’ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ عہد و پیمان ہے، مکمل معاہدہ نہیں جس پر غیر شور وغوغا نامناسب ہے۔
اسی دن امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے بتایا کہ جوہری معاملات پر ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست بات چیت ہوئی ہے لیکن کوئی عبوری معاہدہ نہیں طے پایا۔ ایجنسی نے جناب ارشد محمد کی ایک رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق امریکی حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وضاحت کی "There are no talks about an interim deal” یعنی عبوری معاہدے پر کوئی بات نہیں ہوئی تاہم بیان میں امریکہ ایران بات چیت کی تردید نہیں کی گئی، اس کے دوسرے دن امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر Mathew Miller نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ‘ایران کے ساتھ عبوری جوہری معاہدے کی خبریں جھوٹی اور گمراہ کن ہیں’ تاہم امریکی ترجمان نے بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ لیکن اس معاملے پر اسرائیل میں جو سیاسی ہیجان برپا ہے، علمائے سیاست و سفارت اس کا بہت دلچسپی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
جمعہ 16 جون کو اس معاملے پر اسرائیلی قائد حزب اختلاف یائر لیپڈ Yair Lapid اور وزیر اعظم کے درمیان زبردست چھڑپ ہوئی۔ یائر لیپڈ کا کہنا تھا کہ بی بی اسے عہدو پیمان کہیں یا کچھ اور، درحقیقت امریکہ اور ایران جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں۔ یہ وہی معاہدہ ہے جس پر ہمارے دور حکومت میں تہران اور واشنگٹن میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن ہم نے اسے رکوا دیا۔ جناب لییڈ نے کہا کہ عدالتی اصلاحات جیسا غیر جمہوری بل لاکر بی بی عالمی رہنماوں کی توجہ اور امریکی انتظامیہ پر اثر و رسوخ کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔
بی بی کی برسر اقتدار لیکوڈ پارٹی نے قائد حزب اختلاف کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بی بی کے دبنگ رویے کی وجہ سے امریکہ 2015 میں رجام سے نکلا تھا اور اور وزیر اعظم پرعزم و پراعتماد ہیں کہ ہم امریکہ کو معاہدے میں دوبارہ داخل نہیں ہونے دیں گے۔
امریکہ اور اسرائیلی کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے اور معاہدے پر اصولی مفاہمت کے آثار بھی نظر آ رہے ہیں لیکن 2024 کے لیے امریکہ میں انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے اور اس نازک مرحلے پر اسرائیل کو ناراض کرکے صدر بائیڈن اپنی سیاسی عاقبت خراب نہیں کریں گے۔

(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 امریکہ کے حکومتی حلقوں میں اسرائیل کی رسائی خاصی گہری ہے، لہٰذا تل ابیب کو ان ملاقاتوں کا بروقت علم رہا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے اسرائیلی حکام یہ کہتے سنے گئے کہ جوہری معاملات پر امریکہ اور ایران کے درمیان نہ صرف باقاعدہ گفتگو ہو رہی ہے بلکہ ایک ‘عبوری معاہدہ’ بھی طے پاچکا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023