آسام – دو سے زیادہ بچے رکھنے والوں کو سرکاری ملازمت نہیں ملے گی

ریاستی حکومت کا فیصلہ دستور کی دفعہ ۱۶ کی خلاف ورزی

گوہاٹی ۔ اکتوبر ۲۳ — آسام حکومت کے اس فیصلے پر کہ جن والدین کے پاس دو سے زیادہ بچے ہیں وہ سرکاری ملازمت پانے کے اہل نہیں ہوں گے، ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ آسام حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ گزشتہ پیر کے دن لیا گیا تھا۔ یہ فیصہ ریاستی اسمبلی میں م۲۰۱۷ میں منظور شدہ قرارداد ‘آبادی اور خواتین کی خودمختاری’ کو نافذ کرنے کے لیے لیا گیاہے۔یہ فیصلہ یکم جنوری ۲۰۲۱ سے نافذ العمل قرار پائے گا۔

سینئر صحافی بیکُنتھ ناتھ گوسوامی نے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ‘‘اگرچہ حکومت نے ریاست میں آبادی پر قابو پانے کے لیے دو بچوں کے اصول کو اختیار کیا ہے، تاہم میں نہیں سمجھتا کہ آبادی کو کنٹرول کرنےمیں یہ فیصلہ موثر ثابت ہوگا۔ شرحِ پیدائش، جیسا کہ سروے اور تحقیقاتی رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں، سوسائٹی کے سماجی و معاشی اسٹیٹس کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے۔ جو لوگ تعلیم یافتہ ہیں، ان کے بارے میں یہ پایا گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کو مختصر رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، غریب اور معاشی اعتبار سے کمزور طبقے میں یہ پایا گیا ہے کہ ان کا خاندان بڑا ہوتا ہےاور وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان رکھتے ہیں کیوں کہ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اس سے ان کی گھریلو آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ میں ذاتی طور پر یہ رائے رکھتا ہوں کہ مختصر فیملی کے فوائد بیان کرنے کے لیے بیداری پروگرام منعقد کرنا مذکورہ قسم کے اقدامات کے مقابلے میں زیادہ موثر ثابت ہوگا۔’’

[pullquote]ہر شخص پر دو بچوں کی پالیسی کو مسلط کرنا  گویا لوگوں کی فیملی اور ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنا ہے[/pullquote]

‘‘ہر شخص پر دو بچوں کی پالیسی کو مسلط کرنا  گویا لوگوں کی فیملی اور ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنا ہے۔’’ یہ بات جمعیۃ العلماء ہند کے ریاستی صدر جناب فضل الرحمن قاسمی نے کہی ہے۔ آل آسام مائناریٹی اسٹوڈنٹس یونین کے مشیر عزیزالرحمن نے البتہ ریاستی حکومت کے اس فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘‘مجھے امید ہے کہ ریاستی حکومت مختصر فیملی کی پالیسی کو نافذ کرنے میں سختی سے کام لے گی۔’’ ان کے مطابق شرح پیدائش میں اضافے کی وجہ سے ریاست کے مسلم فرقے کے اندر سماجی و معاشی مسائل در آئے ہیں۔ جب کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ جناب معزالدین محمود کہتے ہیں: ‘‘حکومت کا یہ فیصلہ دستور کی دفعہ ۱۶ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ فیصلہ امتیازی سلوک پر مبنی ہے اور عوامی ملازمت کی فراہمی کے خلاف ہے۔  اس کے علاوہ یہ ایک ظالمانہ، غیر مناسب اور ناپختہ فیصلہ ہے جس میں آسام کی سماجی و سیاسی صورت حال کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جہاں کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ یہ فیصلہ دستور ہند کی دفعہ ۲۱ اور ۲۵ کے بھی خلاف ہے کیو ں یہ انسان کی انفرادی آزادی اور ضمیر کی آزادی کے بھی خلاف ہے۔یہ فیصلہ سوسائٹی کے مراعات یافتہ اور ترقی یافتہ طبقے کی حق میں ہے اور پس ماندہ نیز نچلے طبقے کو محروم  کرتا ہے۔’’

ستمبر ۲۰۱۷ میں آسام اسمبلی کے ۱۲۶ ممبران نے ‘‘آبادی اور خواتین کی خودمختاری’’ پالیسی منظور کی تھی کہ جو لوگ دو سے زیادہ بچے رکھتے ہیں، وہ سرکاری ملازمت کے لیے قابل غور نہیں سمجھے جائیں گے اور موجودہ سرکاری اسٹاف کو دو بچوں کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا۔