آسام کی عدالت نے ریاست کے سابق این آر سی کوآرڈینیٹر پرتیک ہجیلا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینے سے انکار کیا
نئی دہلی، مئی 24: آسام کی ایک عدالت نے پولیس کو سابق ریاستی نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کوآرڈینیٹر پرتیک ہجیلا کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دینے سے انکار کر دیا۔
عدالت نے کہا کہ اس کے پاس الزامات کی تحقیقات کرنے یا پولیس کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دینے کا دائرۂ اختیار نہیں ہے۔
ہجیلا کے خلاف پولیس میں شکایت گوہاٹی میں مقیم ایک تاجر لویت کمار برمن نے درج کرائی تھی، جس نے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ الزامات لگائے تھے۔
برمن نے الزام لگایا کہ ہجیلا نے ٹینڈرز کو مدعو کیے بغیر انفارمیشن ٹیکنالوجی فرم وپرو کو سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اور ڈیٹا انٹری آپریٹرز کی فراہمی کے کام مختص کیے۔ شکایت میں کہا گیا کہ حکومت نے اس عمل کے لیے وپرو کو سسٹم انٹیگریٹر کے طور پر شامل کیا تھا۔
برمن کے مطابق وپرو نے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے انٹیگریٹڈ سسٹم انٹیگریٹر اینڈ سروسز نامی فرم کے ساتھ ذیلی معاہدہ کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ریاستی حکام ہر ڈیٹا انٹری آپریٹر کے لیے وپرو کو ماہانہ 14,500 روپے ادا کرتے ہیں، لیکن آپریٹرز کو ہر ماہ صرف 5,500 روپے ملتے ہیں۔
برمن نے الزام لگایا کہ ہجیلا نے وپرو اور انٹیگریٹڈ سسٹم انٹیگریٹر اینڈ سروسز کے سینئر عہدیداروں کے ساتھ مل کر شہریوں کے قومی رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرنے کے نام پر ’’155 کروڑ روپے کی بھاری رقم‘‘ کا استعمال کیا۔ پولیس کی جانب سے اس کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہ کرنے پر اس نے عدالت سے رجوع کیا۔
اپنے حکم میں عدالت نے کہا کہ اس کے پاس اس کیس سے نمٹنے کے دائرۂ اختیار کا فقدان ہے کیوں کہ برمن کا الزام مفاد عامہ کی عرضی کی نوعیت کا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ چوں کہ شکایت کنندہ کے ذاتی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، اس لیے اسے مقدمہ دائر کرنے کا حق نہیں ہے۔
نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کو اپ ڈیٹ کرنے کا مقصد آسام میں رہنے والے ہندوستانی شہریوں کی فہرست بنانا تھا۔ یہ عمل 31 اگست 2019 کو ختم ہوا، جب ایک حتمی فہرست شائع کی گئی جس میں 19 لاکھ سے زیادہ درخواست دہندگان اس رجسٹر سے باہر رہ گئے۔
ریاستی حکومت نے شہریوں کے قومی رجسٹر کے اس حتمی مسودے کو ’’غلط‘‘ قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا کہ اس میں آسام کے کئی مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔