آسام کے وزیر اعلیٰ کا ’’حسین اوباما‘‘ کا تبصرہ مذہبی امتیاز سے متعلق مودی کی امریکہ میں کی گئی تقریر کے مخالف ہے: اپوزیشن
نئی دہلی، جون 24: اپوزیشن رہنماؤں نے کہا ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کا یہ تبصرہ کہ ملک میں بہت سے ’’حسین اوباما‘‘ ہیں اور حکام کو ان کی ’’دیکھ بھال کرنے کو ترجیح دینی چاہیے‘‘، وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ میں اس دعوے کو کمزور کرتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی مذہبی امتیاز نہیں ہے۔
سرما نے یہ تبصرہ ایک صحافی کے جواب میں کیا جس نے پوچھا تھا کہ کیا گوہاٹی میں امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کرائی گئی ہے، کیوں کہ انھوں نے کہا تھا کہ اگر حکومت اپنی نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتی ہے تو ہندوستان کے ’’ٹوٹنے‘‘ کا خطرہ ہے۔
صحافی نے پوچھا تھا ’’کیا آسام پولیس اوباما کو کسی پرواز سے اتار کر گرفتار کرنے کے لیے واشنگٹن جا رہی ہے؟‘‘
سرما نے کہا کہ آسام پولیس اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرے گی۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے کہا کہ سرما کا ’’حسین اوباما‘‘ کا تبصرہ ’’ناگوار‘‘ تھا۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ترجمان کلائیڈ کرسٹو نے کہا کہ انھیں معافی مانگنی چاہیے تاکہ دنیا وزیر اعظم کی اس بات پر یقین کرے کہ ان کی حکومت کی طرف سے کوئی مذہبی امتیاز نہیں ہے۔
کرسٹو نے مزید کہا ’’یا تو انھوں نے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی کے امریکہ میں دیے گئے بیان کو نہیں سنا، یا وہ بے عزتی کے ساتھ ان کی باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔‘‘
شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) کی رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے جمعہ کو کہا کہ سرما کے بیان سے ثابت ہوا ہے کہ اوباما کے تبصرے غلط نہیں تھے۔
ترنمول کانگریس کے رہنما ساکیت گوکھلے نے کہا کہ سرما کے ریمارک نے بین الاقوامی سطح پر پی ایم مودی کی منافقت اور جھوٹ کو بے نقاب کر دیا ہے۔
کانگریس لیڈر سپریہ شرینے نے مودی اور وزارت خارجہ سے سرما کے تبصرے پر جواب طلب کیا۔ انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ’’دراصل ہمنتا نے وائٹ ہاؤس میں پی ایم مودی سے جو پوچھا گیا تھا اس کا جواب دیا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے حامیوں اور بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے درجنوں قانون سازوں نے مودی کو سرکاری دورے کے اعلیٰ اعزاز کی پیشکش کرنے کے صدر کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے مودی پر اختلاف رائے کو دبانے اور ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے مخالفانہ ماحول پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے۔