’’اپریل فول‘‘ایک مذموم فعل
اسلام میں جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت۔ واہیات رسوم کی حوصلہ افزائی اہل ایمان کا شیوہ نہیں
ام غنیم
ہر سال دنیا بھر میں یکم اپریل کو اپریل فول منایا جاتا ہے۔ اس واہیات رسم کا آغاز کیسے ہوا اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔کچھ کہتے ہیں کہ فرانس میں 1564 عیسوی میں نئے کیلنڈر کا آغاز ہوا اور جن لوگوں نے اسے نہیں مانا دوسروں نے ان کا مذاق اڑایا۔بعض کےمطابق اس کا تعلق ملحدانہ رسوم کے ساتھ ہے۔ یورپین اسے اپریل فش کہتے ہیں کیونکہ اس دن ان کے مطابق سورج ’حوت‘ سے اگلے گھر میں جاتا ہے۔ کچھ اسے ’’آل فولز ڈے‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس دن وہ ہر شخص سے جھوٹ بولتے ہیں اور جو ان کا یقین کرتا اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی بے تکی روایات پائی جاتی ہیں جن کا تذکرہ کرنا بھی شائستگی کے خلاف ہے۔
اس کا آغاز جیسے بھی ہوا ہو ایک بات تو طے ہے کہ اسلام میں جھوٹ کی سخت ممانعت ہے اور اس دن کو منانے والے سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں بولتے۔ اس دن کسی کے والدین کو ان کے بچے کے متعلق یا کسی کو والدین کے بارے میں یا کسی اور قریبی رشتہ دار کے متعلق کوئی بری خبر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ہارٹ اٹیک سے مر جاتے ہیں یا برین ہیمیرج کا شکار ہو جاتے ہیں۔کسی کو اس کی بیوی کے ناجائز تعلقات کی جھوٹی خبر دے کر طلاق بھی کروادی جاتی ہے وغیرہ۔
اسلام میں جھوٹ کی ممانعت اتنی ہی سختی سے کی گئی ہے جتنی کہ شراب، سود اور زنا وغیرہ کی کی گئی ہے اور ساتھ ہی سچ بولنے کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق جھوٹ صرف کچھ صورتوں میں جائز ہے مثلا کسی کی جان بچانے کے لیے۔ دو لوگوں میں صلح کروانے کے لیے اور میاں بیوی میں محبت پیدا کرنے کے لیے۔
قرآن و حدیث میں ایسی کئی ساری نصوص وارد ہوئی ہیں جو اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جھوٹ کتنا مذموم فعل ہے اور کس طرح جھوٹوں پر اللہ تبارک و تعالی کی لعنت ہوتی ہے۔ذیل میں چند آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں کہ جھوٹ کو اسلام نے کس زاویے سے پیش کیا ہے:
سورہ النحل کی آیت 105 میں ہے ’’جھوٹ تو صرف وہ لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں‘‘
سورہ نجم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ نبی نہ تو جھوٹے ہیں نہ ہی باتیں گھڑتے ہیں۔ (سورہ نجم 3-4)
آپ کے دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کے طور پر جانتے تھے۔جب ہرقل روم نے ابو سفیان سے آپ کی خصوصیات کے بارے میں پوچھا تو ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ کیا کبھی تم لوگوں نے اس سے پہلے (نبوت کے دعوے سے قبل) ان پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ نہیں۔ تب ہرقل نے کہا تھا کہ اگر انہوں نے لوگوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولا تو وہ اللہ کے بارے میں بھی جھوٹ نہیں بول سکتے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ منافق کی چار نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو توڑ دیتا ہے، امانت میں خیانت کرتا ہے اور جھگڑتا ہے تو گالیاں بکتا ہے۔ ابو عیسی ترمذی کہتے ہیں کہ جس میں ان میں سے ایک بھی خصلت ہو گی اس میں اسی قدر نفاق پایا جائے گا۔ (مسلم)
سب سے بڑا جھوٹ وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں بولا جائے اور یہ کفر ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ’’کہہ دو کہ بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘ (الانعام:21) اسی طرح نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھ پر جھوٹ نہ گھڑو جو کوئی ایسا کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہو گا‘‘ (بخاری)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالٰی روز قیامت تین لوگوں سے نہ تو بات کرے گا نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا۔ آپ نے تین بار یہ دہرایا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا” یا رسول اللہ! یہ کون ہیں؟” آپ نے فرمایا ’’وہ جو اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے، دوسرا جو احسان جتائے اور تیسرا وہ جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچے‘‘۔ ایک اور موقع پر فرمایا ’’دو فریقین اس وقت تک سودا ختم کر سکتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں۔ اگر وہ ایماندار اور سچے ہوں تو اللہ ان کی تجارت میں برکت ڈال دے گا اور اگر وہ کچھ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو برکت اٹھ جاتی ہے۔‘‘( بخاری)
سورہ المائدہ کی آیت نمبر آٹھ میں ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔‘‘
اسلام تو خواب کے بارے میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سے مروی ہے نبی ﷺ نے فرمایا ” جو شخص ایسا خواب بیان کرتا ہے جو اس نے دیکھا نہ ہو اسے روز قیامت حکم دیا جائے گا کہ جَو کے دو دانوں میں گرہ لگائے۔ لیکن وہ ایسا نہ کر سکے گا۔ جو کوئی لوگوں کی گفتگو چھپ کر سنے اور لوگ اسے برا جانیں روز قیامت اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔
اور جو کوئی شبیہ بنائے اسے بطور سزا روز قیامت کہا جائے گا کہ وہ اس میں جان ڈالے اور وہ ایسا نہ کر سکے گا۔‘‘( بخاری)
کسی بھی معاملے میں بلا تحقیق کوئی بات سن کر آگے پہنچانا بھی ممنوع ہے۔ حتی کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کی ممانعت ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا "میں مذاق کرتا ہوں مگر سچ بولتا ہوں‘‘
نبی ﷺ نے فرمایا ’’ جو کوئی مجھے یہ ضمانت دے کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولے گا میں اسے جنت کے وسط میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ” میں نے نبی ﷺ کو کہتے سنا "افسوس ہے اس شخص پر جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے۔ افسوس ہے اس پہ افسوس ہے اس پر۔‘‘(ابو داؤس)
جھوٹ بولنے والے کا اخروی انجام تو برا ہی ہے دنیا میں بھی اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا "سچائی بھلائی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے۔جھوٹ بولنا برائی ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔”( بخاری) جھوٹے شخص کی گواہی بھی قبول نہیں کی جاتی۔ جھوٹے کی سزا کے سلسلے میں قرآن میں وارد ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ’’تم روز قیامت دیکھو گے کہ جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ان کے منہ کالے ہوں گے” (سورہ الزمر 60)
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے” کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک شخص مذاق میں بھی جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے۔
الغرض! اور بھی ایسے کئی نصوص ہیں جو جھوٹ کی شناعت کو واضح کرتے ہیں لہذا بحیثیت مسلمان ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی بھی صورت میں ہم جھوٹ بولیں، اس لیے یکم اپریل کو اس بیہودہ مذاق کا حصہ نہ بنیں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ جو لوگ بھی اس طرح کے کام انجام دیتے ہیں ان کی اصلاح کی کریں اور معاشرے سے جھوٹ کو ختم کرنے کے سلسلے میں اپنا تعاون پیش کریں۔
***
***
اسلام میں جھوٹ کی ممانعت اتنی ہی سختی سے کی گئی ہے جتنی کہ شراب، سود اور زنا وغیرہ کی کی گئی ہے اور ساتھ ہی سچ بولنے کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق جھوٹ صرف کچھ صورتوں میں جائز ہے مثلا کسی کی جان بچانے کے لیے۔ دو لوگوں میں صلح کروانے کے لیے اور میاں بیوی میں محبت پیدا کرنے کے لیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023