اپوزیشن کی زیر اقتدار ریاستوں میں ہی کیوں ہوتی ہے گورنروں کی رسہ کشی؟

وائس چانسلروں سے استعفے کا حیرت انگیز مطالبہ۔ گورنرکیرالا عارف محمد خان پرطاقت کے غلط استعمال کا الزام

مہاراشٹرا میں بھگت سنگھ کوشیاری اپنا رول ادا کرچکے۔ پنجاب میں عاپ حکومت کو بنواری کا سامنا۔ کیا گورنر کا عہدہ سیاسی ہتھیار بن گیا؟
کیرالا کے گورنر عارف محمد خان کس بات پر اڑگئے تھے کہ ہائی کورٹ کو دخل اندازی کرنی پڑی؟ مغربی بنگال اور پنجاب میں بھی گورنروں کی حکومتوں سے کیوں ٹھنی رہتی ہے؟ ادھو اور شندے حکومتوں میں ایسی کیا تبدیلی رونما ہوئی کہ اب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے؟ کیرالا کے گورنر عارف محمد خان کے اس حکم نامے کو جس میں 9 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا تھا کیرالا ہائی کورٹ نے ناقابل اعتنا گردانتے ہوئے وائس چانسلروں سے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک استعفے نہ دیں جب تک گورنر وجہ بتاو نوٹس جاری کرنے کے بعد حتمی فیصلہ نہ صادر کردیں۔ بظاہر دیکھنے میں تو یہ ایک گورنر اور یونیورسٹیوں کے مابین معمولی تنازعہ لگتا ہے مگر ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ سیاسی ہے اور یہ کیرالا کی دائیں بازو کی حکومت اور مرکز کے ذریعہ مقرر کیے گئے گورنر کے درمیان رسہ کشی کا ایک حصہ ہے۔ کیرالا ہی واحد ریاست نہیں ہے جہاں گورنر اور ریاستی حکومت کے درمیان کھینچا تانی چل رہی ہے بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کی زیر قیادت کسی بھی ریاست کے ساتھ بی جے پی کے تعلقات اچھے نہیں ہیں، چاہے وہ مغربی بنگال ہو، پنجاب ہو جھارکھنڈ ہو یا پھر ادھو ٹھاکرے کے دور اقتدار میں مہاراشٹر ہو۔ تازہ معاملہ کیرالا کا ہے جہاں کے وزیر اعلیٰ پنا رائی وجین نے عارف محمد خان پر الزام لگایا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے ایک ٹول کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اپنی طاقت کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ گورنر کا عہدہ حکومت کے خلاف جانے کے لیے نہیں بلکہ دستور کے وقار کو باقی رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کی ہدایت غیر جمہوری اور وائس چانسلروں کی طاقت کو کمزور کرنے کے برابر ہے۔ وجین نے مزید کہا کہ گورنر کو وائس چانسلروں سے استعفے دینے کے لیے کہنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ تقرر میں خامی کی جواب دہی اگر کسی کی ہے تو وہ گورنر ہی کی ہے کیونکہ سارے تقررات گورنر نے کیے ہیں۔
پہلے بھی وہاں تصادم ہو چکا ہے، مرکزی حکومت کے ذریعہ ترمیم شدہ شہریت کے قانون کے خلاف جب کیرالا اسمبلی میں بل پاس ہوا تو گورنر عارف محمد خان نے اسے دستور کے خلاف بتایا تھا۔ بعد میں جب ریاستی حکومت نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو گورنر نے اس پر بھی اعتراض کیا اور کہا تھا کہ حکومت نے ایسا کرنے سے پہلے ان سے اجازت نہیں لی۔
’’جیسا الزام کیرالا کے وزیر اعلیٰ لگا رہے ہیں ویسا ہی الزام مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ریاست کے گورنر پر لگاتی رہی ہیں۔ نئے گورنر این گنیش ابھی نئے ہیں جبکہ اپنے پیش رو گورنر جگدیپ دھنکر کے بھی بنگال حکومت کے ساتھ تعلقات بے حد خراب رہے‘‘۔
حزب اختلاف کی ریاستی حکومتوں کے خلاف محاذ قائم کرنے والے گورنروں میں مغربی بنگال کے سابق گورنر اور موجودہ نائب صدر جگدیپ دھنکر کا نام خاص طور پر بدنام ہے۔ گورنر بننے کے بعد سے ہی دھنکر کا ریاستی حکومت کے ساتھ ٹکراو ہوتا رہا تھا۔ ریاست میں دوسرے ایشوز کے علاوہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے تقرر کے اختیار کو لے کر کافی کھینچا تانی ہوئی۔ بنگال میں جب کبھی بھی تشدد کی خبریں آئیں تو دھنکر کا نام سب سے سخت حملہ کرنے والوں میں ہوتا تھا۔ دھنکر سے پہلے یو پی کے قد آور بی جے پی لیڈر کیسری ناتھ ترپاٹھی مغربی بنگال کے گورنر تھے۔ ان کا بھی پورا دور اقتدار وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے ساتھ تصادم میں ہی گزرا تھا۔
بنواری لال پروہت
پنجاب کے گورنر بنواری لال پروہت اور ریاست کی بھگونت مان حکومت کے درمیان بھی تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ بھگونت مان حکومت نے جب 22ستمبر کو اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا تو گورنر نے پہلے تو اسے منظوری دی پھر رد کردیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے 27ستمبر کو اسمبلی کا سیشن بلایا تو گورنر نے اس کا ایجنڈا طلب کیا تھا جس پر وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے ناراضگی ظاہر کی، کافی زور ڈالنے کے بعد انہوں نے خصوصی اجلاس کے لیے منظوری دی تھی۔ جس وقت یہ تنازعہ چل رہا تھا اس وقت قیاس لگائے جا رہے تھے کہ کیا اب عام آدمی پارٹی کے ایم ایل ایز ٹوٹ جائیں گے؟ یہ قیاس اس لیے لگائے جا رہے تھے کیونکہ اروند کجریوال نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی گئی تھی۔
بھگت سنگھ کوشیاری
مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری بھی تنازعات میں گھرے رہے۔ بھگت سنگھ کوشیاری کی وجہ سے پچھلی مہا وکاس اگھاڑی حکومت کے دوران ایک سال تک مہاراشٹر میں اسمبلی کے اسپیکر کے انتخابات نہیں ہو سکے تھے۔ ٹھاکرے حکومت کے دوران کوشیاری پہلے نہ تو اسمبلی اسپیکر کے انتخابات کے لیے تاریخ طے کررہے تھے اور نہ ہی ووٹنگ سسٹم یا وائس ووٹ کی حمایت میں تھے۔ اسی وجہ سے ٹھاکرے حکومت اور گورنر کے درمیان رسہ کشی چل رہی تھی لیکن جیسے ہی بی جے پی نے شیو سینا کے ایکناتھ شندے گروپ کے ساتھ حکومت بنائی گورنر نے دو تین دن کے اندر ہی اسمبلی اسپیکر عہدہ کے
انتخاب کی اجازت دے دی۔ اس سے پہلے اسپیکر کے عہدے کی ذمہ داری اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر یعنی نائب صدر نرہری اجروال نبھا رہے تھے۔ ان کو یہ ذمہ داری اس وقت ملی تھی جب فروری 2021ء میں نانا پٹولے نے صدر کے عہدے سے استعفےٰ دے دیا تھا کیونکہ کانگریس نے انہیں ریاست میں پارٹی کی کمان سونپ دی تھی، تب سے اسپیکر کا عہدہ خالی تھی۔ بی جے پی۔ایکناتھ شندے کی حکومت بنتے ہی اسمبلی اسپیکر کے انتخابات ہو گئے اور شندے گروپ کے راہل نارویکر اسپیکر بھی بن گئے۔
مہاراشٹر لیجسلیٹیو کونسل کے ارکان کے انتخابات کو لے کر ایسا ہی ایک تنازعہ کھڑا ہوا تھا جب ادھو ٹھاکرے کی کابینہ نے 12 لوگوں کو کونسل کا رکن نامزد کرنے کی سفارش نومبر 2020ء میں کی تھی، لیکن گورنر کوشیاری اس پر آنا کانی کرتے رہے اور منظوری نہیں دی، بی جے پی۔شندے حکومت کے ذریعہ ٹھاکرے کے ذریعہ بھیجے گئے بارہ ناموں کی فائل واپس لینے کے لیے گورنر کوشیاری کو خط لکھا گیا تھا اور گورنر نے فوراً اسے منظور کرلیا تھا۔
ادھو ٹھاکرے کے ایم ایل سی بننے کو لے کر بھی تنازعہ ہوا تھا۔ ریاستی کابینہ ٹھاکرے کو ایم ایل سی نامزد کرنے کی سفارش پر گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے کافی وقت تک جواب نہیں دیا تھا۔ ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ باقی رہنے کے لیے ایم ایل اے یا ایم ایل سی منتخب ہونا ضروری تھا اور اس وقت کونسل میں نامزدگی کے زمرے کی دو نشستیں خالی تھیں۔ ریاستی کابینہ نے گورنر سے ان دو میں سے ایک نشست پر ٹھاکرے کو نامزد کیے جانے کی سفارش کی تھی لیکن گورنر اڑ گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کونسل کے انتخابات کے معاملے میں ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد گورنر نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر ریاستی کونسل کی مخلوعہ نشستوں کے انتخابات کرانے کی گزارش کی تھی۔
نومبر 2019ء میں کوشیاری نے علی الصبح دیویندر پھڈنویس کو وزیراعلیٰ اور اجیت پوار کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدوں کا حلف دلایا تھا۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب آناً فاناً میں علی الصبح کسی ریاست میں صدر راج ہٹا کر وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف دلایا گیا تھا۔
جھارکھنڈ کے گورنر تنازعات میں
جھارکھنڈ کے گورنر رمیش بیس بھی تنازعوں میں رہے ہیں، ان پر الزام ہے کہ وہ مرکز کے اشارے پر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ معاملہ ہیمنت سورین کو نا اہل قرار دیے جانے سے متعلق ہے۔ گورنر پر الزام ہے کہ الیکشن کمیشن سے ملی چھوٹ کو وہ آخر منظر عام پر کیوں نہیں لا رہے ہیں۔ نامہ نگاروں نے جب بیس سے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کا لفافہ اب تک کیوں نہیں کھولا گیا اور اگر کھولا گیا تو اس پر کیوں کچھ کہا نہیں جا رہا ہے؟ تو گورنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا لفافہ کب کھولوں گا یہ میری مرضی اور یہ میرا اختیار ہے۔
سمجھا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کان کنی معاملے میں وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو ملزم ٹھہراتے ہوئے اسمبلی سے ان کی نا اہلی کی سفارش کی ہے۔ گورنر رمیش بیس اس بات کو ظاہر نہیں کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی سفارش میں کیا کہا گیا ہے۔ چونکہ یہ سفارش بند لفافے میں راج بھون کو بھیجی گئی ہے اس لیے طرح طرح کی افواہیں سننے میں آرہی ہیں۔
مدھیہ پردیش کی سابق اور اتر پردیش کی موجودہ گورنر آنندی بین پٹیل پرمدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات 2018سے پہلے اپنے دوروں کے دوران کئی مقامات پر لوگوں سے نریندر مودی کے ہاتھ مضبوط کرنے کی اپیل کے الزامات تھے اور وہ تریپورہ کی گورنری کے دوران اشتعال انگیز اور نفرت پھیلانے والے فرقہ وارانہ بیانات دیتی رہی تھیں۔
دلی کے لیفٹننٹ گورنر
اور دلی کا معاملہ تو عجیب و غریب ہے ہی۔ یہاں کے نائب گورنر اور اروند کجیروال حکومت کے درمیان کھینچا تانی ایک دوسری ہی سطح پر چلتی رہی ہے۔ دلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال نے تو حال میں کہا تھا کہ ایل جی صاحب روزانہ مجھے جتنا ڈانٹتے ہیں اتنا تو میری بیوی بھی مجھے نہیں ڈانٹتی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جتنے محبت نامے گزشتہ 6 سالوں میں مجھے لکھے ہیں اتنے تو میری بیوی نے بھی نہیں لکھے۔
دارالحکومت دلی میں اس وقت کے ایل جی وی کے سکسینہ ہیں۔ ایل جی یعنی نائب گورنر اور عاپ حکومت میں سب کچھ صحیح ڈھنگ پر نہیں چل رہا ہے۔ ایکسائز گھوٹالہ، مبینہ ڈی ٹی سی بس گھوٹالہ اور مفت بجلی منصوبے پر جانچ کی ہدایت کے بعد یہ رسہ کشی اور بڑھی ہوئی ہے۔
وی کے سکسینہ سے پہلے دلی کے ایل جی انل بیجل تھے اور ان کی بھی کیجریوال حکومت سے زبردست کھینچا تانی چلتی رہتی تھی۔ کیجریوال نے راج نواس پر دھرنا بھی دیا تھا۔
’’دلی حکومت کی طرف سے الزام لگایا گیا تھا کہ راشن ہوم ڈلیوری میں ان کے منصوبے کی فائل کو ایل جی کی طرف سے منظوری نہیں دی جارہی ہے‘‘
سی سی ٹی وی منصوبے پر بھی تنازعہ سامنے آیا تھا۔ حکومت اور ایل جی کے درمیان دلی فسادات معاملے میں وکیل مقرر کرنے پر بھی تنازعہ پیدا ہوا تھا۔
ایل جی اور کیجریوال حکومت کے درمیان اخیتارات کو لے کر کورونا کے وقت بھی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ بیجل کے ذریعہ ارباب مجاز کی بیٹھک بلانے پر عاپ نے شدید رد عمل ظاہر کیا تھا۔ منیش سسودیا نے اسے دستور اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو درکنار کرکے بلائی گئی بیٹھک قرار دیا تھا۔
زرعی قوانین پر ہنگامے کے دوران 2020ء میں راجستھان، پنجاب اور چھتیس گڑھ کی حکومتوں نے اپنی ریاستوں میں اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا تھا تو اس کے لیے پہلے تو وہاں کے موجودہ گورنر نے منظوری نہیں دی اور کئی طرح کے سوالات اٹھائے تھے۔ بعد میں اسمبلی اجلاس بلانے کی منظوری دی بھی تو اسمبلی میں ریاستی حکومت کے ذریعہ مرکزی زراعی قوانین کے خلاف منظور بل اور تجاویز کو منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔
حزب اختلاف کے زیر قیادت اڈیشہ اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں گورنر اور ریاستی حکومتوں کے درمیان اس طرح کا تصادم دیکھنے کو نہیں آیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ اڈیشہ کی نوین پٹنائک حکومت اور آندھرا پردیش کی جگن موہن حکومت کئی ایشوز پر یا تو بی جے پی کا ساتھ دیتی ہیں یا غیر جانب دار رہتی ہیں۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا کیا مشکل ہے کہ ملک میں جہاں جہاں بھی حزب اختلاف کی حکومتیں ہیں وہاں کے گورنروں کے کردار پر سوالات کیوں کھڑے ہوتے ہیں
(بشکریہ : ستیہ ہندی)
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022