ہندوستان میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک، ہجومی تشدد کو ہوا دے رہے ہیں: امریکی پینل
نئی دہلی، اپریل 8: یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں ریاستی حکومتوں کی طرف سے منظور شدہ تبدیلی مذہب مخالف قوانین مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہراسانی، تشدد اور امتیازی سلوک کو قابل بناتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ہندوستان کے ریاستی سطح کے تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی آزادی مذہب یا عقیدے کے حق کے تحفظات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ وہ کسی فرد کے مذہب تبدیل کرنے کے حق اور کسی دوسرے فرد کو رضاکارانہ طور پر مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ کرنے یا حمایت کرنے کے حق کو ناجائز طور پر محدود کرتے ہیں اور سزا دیتے ہیں۔‘‘
یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم ایک آزاد امریکی حکومتی ادارہ ہے جو مذہبی آزادی کے عالمی حق کی نگرانی کرتا ہے اور وائٹ ہاؤس کو پالیسی تجاویز دیتا ہے۔
پینل نے 14 مارچ کو ہندوستان میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین پر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
نومبر میں پینل نے دوسری بار ہندوستان کو مذہبی آزادی کی منظم خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے یا اسے برداشت کرنے کے سبب ’’خاص تشویش کا حامل ملک‘‘ قرار دیا تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتوں نے 9 ریاستوں بشمول اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، ہریانہ، جھارکھنڈ، کرناٹک اور ہماچل پردیش میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین نافذ کیے ہیں۔
یہ قوانین زعفرانی جماعت کی طرف سے بین المذاہب شادیوں کے خلاف مہم کے بعد نافذ کیے گئے ہیں، جن شادیوں کو ہندوتوا شدت پسند ’’لو جہاد‘‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
اپنی تازہ ترین رپورٹ میں امریکی پینل نے یہ بھی کہا کہ ان قوانین کو منسوخ کرنا انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی تعمیل کرنے اور ہندوستان میں مذہبی آزادی کی حالت میں بگاڑ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔