امرت پال: ڈھونڈوگے اگر صوبہ صوبہ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

وہ ابھی تک کیوں پکڑا نہیں جا سکا؟ آخر جواب دہ کون ہے؟

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

وطن عزیز میں آج تک کسی فراری ملزم کی اتنی ویڈیوز ذرائع ابلاغ میں نہیں آئیں جتنی امرت پال کی آئی ہیں۔ اس کی ویڈیوز تو ملتی ہیں لیکن وہ نہیں ملتا۔ اس کی ویڈیوز کے ساتھ لکھا ہوتا امرت پال موٹر سائیکل پر، امرت پال کا پٹرول ختم، اب وہ جگاڑ پر جا رہا ہے۔ وہ اس بس اڈے سے سوار ہو کر ہریانہ روانہ ہو گیا لیکن پولیس کے ہتھے نہیں چڑھا۔ اس کی تصاویر دلی کے بس اڈے پر لگے کیمرے میں قید تو ہوئیں مگر وہ آزاد رہا۔ یہ سب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بچوں کی کوئی کارٹون فلم چل رہی ہو یا کسی سی گریڈ سیریل میں چور پولیس کا ایک بھونڈا کھیل چل رہا ہو۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی سوپر پاور کا حفاظتی دستہ آخر ایک ملزم کو دس دنوں تک گرفتار کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ کشمیر کے لیے جان کی بازی لگانے والے جانباز وزیر داخلہ آخر اس معاملے میں لب کشائی کیوں نہیں کرتے؟ وزیر اعظم کیوں خاموش ہیں؟ کچھ نہیں تو یہی کہہ دیں کہ امرت پال نام کا کوئی آدمی نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ اس طرح یہ تلاش کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے گا۔
امرجیت سنگھ کہاں سے آیا تھا یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن کیوں آیا تھا شاید یہ جاننے میں وقت لگے گا کیونکہ بہتی ہوا کی مانند وہ کہاں چلا گیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ اسے فی الحال کئی ریاستوں کی پولیس ڈھونڈ رہی ہے لیکن تادمِ تحریر وہ کسی کے ہتھے نہیں چڑھ سکا ہے۔ اس فرار کی ابتدا پنجاب سے ہوئی تو یہ کہا گیا کہ وہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سپریمو اروند کیجریوال نے اس معاملے میں ایک نہایت دلچسپ بیان دیا کہ کچھ لوگ پنجاب کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو لوگ پنجاب کا ماحول خراب کر رہے تھے وہ آج دُم دبا کر بھاگ رہے ہیں۔ ماحول خراب کرنے والے کا دم دبا کر بھاگنا کون سی فخر کی بات ہے؟ پنجاب پولیس کا کام ایک فراری مجرم کو بھگا کر جان چھڑانا نہیں بلکہ گرفتار کر کے جیل پہنچانا ہے۔ کیجریوال کو یہ بتانا ہوگا کہ آخر بھگونت سنگھ مان کی سرکار اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں کیوں ناکام ہو گئی۔ یہ حرکت اگر قصداً سکھوں کی ناراضی سے بچنے کے لیے کی گئی ہے تو پھر کمار وشواس کے پچھلے سال انتخاب سے قبل لگائے جانے والے الزام کو تقویت ملتی جس میں کیجریوال کے متعلق کہا گیا تھا کہ آیا وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنیں گے یا آزاد ملک کے پہلے وزیر اعظم بنیں گے؟
اروند کیجریوال نے اپنے مذکورہ بیان میں یہ بھی کہا کہ ’’پنجاب کے اندر امن و امان قائم رکھنے کے لیے اگر سخت فیصلے کرنے پڑیں تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ وہ آگے کب بڑھیں گے؟ امرت پال معاملہ کے بعد کیجریوال کے پرانے دوست کمار وشواس نے اپنے بیان کا حوالہ دے کر نیا ٹویٹ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ دنیا بھر میں ہندوستانیوں، ہندوستانی اداروں اور مندروں پر حملہ۔ شہید اعظم بھگت سنگھ کو ان کی شہادت کے دن غدار کہنا! یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو رہا ہے۔ سال بھر پہلے خبردار کر دیا گیا تھا لیکن اس وقت ملک نے اسے مذاق میں اڑا دیا تھا۔ کمار وشواس آگے لکھتے ہیں خطرہ بڑا ہے، لیکن دلی کے بونے کا منصوبہ سیاسی جماعت پکڑ نہیں پائے گی۔ کمار وشواس نے چونکہ اس معاملے کو پنجاب سے نکال کر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے اس لیے ان حملوں سے نمٹنے کی ذمہ داری اروند کیجریوال پر نہیں بلکہ مرکزی حکومت میں بیٹھے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پر عائد ہوتی ہے۔ تو کیا اس ٹویٹ میں عام آدمی پارٹی کے بجائے بی جے پی رہنماوں کو بونا کہا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو امرت پال کا غصہ کہیں نرم چارہ کمار وشواس پر نہ پھوٹ پڑے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ دلی اور پنجاب کی ریاستی حکومتوں کو پولیس کی قیادت کا تجربہ نہیں ہے لیکن اب تو یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ امرت پال پنجاب سے نکل کر ہریانہ پہنچ گیا۔ ہریانہ میں پچھلے نو سال سے بی جے پی کے منوہر لال کھٹر حکومت چلا رہے ہیں۔ آخر اور کتنا تجربہ چاہیے؟ ہریانہ تو دلی سے متصل ہی ہے۔ وہ وزیر داخلہ کے تحت کام کرنے والی دلی پولیس سے بھی مدد لے سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ نہ جانے کیوں؟ اسی دوران ہریانہ کے بدزبان گئو بھگت وزیر داخلہ انِل وِج کا شرمناک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہریانہ پولیس نے پنجاب پولیس کو اطلاع دے دی تھی لیکن اس نے شاہ آباد پہنچنے میں ڈیڑھ دن لگا دیا۔ وِج کے مطابق ’موسٹ وانٹیڈ‘ کے معاملے میں بھی پنجاب حکومت کی سستی صاف نظر آرہی ہے۔ اس سے پنجاب حکومت کے سیاسی ڈرامے کا پتہ چلتا ہے۔ انِل وِج کو یہ بتانا چاہیے کہ کیا ان کی ذمہ داری صرف اطلاع دینے کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی تھی۔ وہ امرت پال کو حراست میں لے کر اگلے دن پنجاب پولیس کے حوالے کرسکتے تھے۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ امرت پال کے ناٹک میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ بی جے پی بھی شامل ہے۔
لیکن نہ جانے کیوں کوئی بھی اسے پکڑنا نہیں چاہتا؟
چوہے اور بلی کے اس کھیل میں امرت پال ہریانہ سے نکلتا ہے تو پنجاب پولیس اتر اکھنڈ کی جانب نکل جاتی ہے۔ اترا کھنڈ میں عرصہ دراز سے بی جے پی برسرِ اقتدار ہے۔ وہاں پر بڑی بڑی دھرم سنسدوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کا ببانگ دہل اعلان کیا جاتا مگر کہیں کی بھی پولیس حرکت میں نہیں آتی۔ اس لیے امرت پال کا اتر اکھنڈ کی طرف جانا قرین قیاس تھا لیکن اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں بی جے پی کا خوف بالکل نہیں ہے ورنہ وہ ہریانہ سے راجستھان بھی آسکتا تھا۔ اس دوران پنجاب پولیس نے انکشاف کیا کہ امرت پال کے گھر پر پاسپورٹ نہیں ملا۔ یہ کون سی بڑی بات ہے۔ کیا وہ اتنا احمق ہے جو اپنا پاسپورٹ گھر پر رکھ فرار ہو گا۔ پولیس نے اندیشہ ظاہر کیا کہ وہ نیپال سرحد سے ملک چھوڑ سکتا ہے۔ اس لیے بی ایس ایف کو چوکنا کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کاشی پور میں اعلان کیا گیا کہ اگر کسی نے امرت پال کو پناہ دی تو اس پر این ایس اے لگے گا اور اطلاع دی تو انعام ملے گا لیکن امرت پال نے ان سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ ہفتہ کی صبح دلی میں کشمیری گیٹ بس اڈے کے سی سی ٹی ٹی وی کیمروں میں امرت پال نظر آگیا اور پنجاب پولیس نے اس کی جانچ پڑتال بھی شروع کر دی۔ یہ خبر اگر سچ ہے تو یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ آخر اس نے دلی آنے کی جرأت کیسے کر ڈالی؟ امیت شاہ اور امرت پال کا ’وہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘ جو اسے دلی لے آیا۔ ایسے میں مغلیہ سلطنت کے ولی عہد جواں بخت جہاندار کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
امرت پال کا دہلی پہنچ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ اس کو گرفتار نہ کرنے پر ریاستی حکومت کی کھنچائی کرچکا ہے۔ عدالت نے امرت پال سنگھ کے ‘فرار’ کے معاملے میں ‘انٹلیجنس کی ناکامی’ پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کے پاس 80 ہزار پولیس اہلکار ہیں، پھر بھی اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟‘ جب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ امرت پال کے علاوہ سب کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو عدالت نے پوچھا کہ اگر حلف نامہ میں امرت پال سنگھ کو ملک کے لیے خطرہ بتایا گیا تو اس کے علاوہ باقی لوگوں کو گرفتار کرنے کے باوجود اسے کیوں نہیں پکڑا جا سکا؟ آخر وہ بھاگ کیسے گیا؟ اس کے جواب میں انسپکٹر جنرل نے کہا وہ فرار ہے اس پر این ایس اے لگا ہوا ہے نیز بہت ساری باتیں وہ یہاں نہیں بتا سکتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے راز ہیں جنہیں عدالت میں فاش کرنے سے اعلی افسر اتنا ہچکچا رہا ہے؟اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب تک وہ آزاد گھوم رہا تھا خفیہ ایجنسیاں کمبھ کرن کی نیند سو رہی تھیں اور اس کے فرار ہوتے ہی ہر روز ایک نیا انکشاف ہونے لگا ہے۔ یہ رویہ بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
امرت پال کے بارے میں خفیہ ایجنسی بتارہی ہے کہ اسے پاکستانی آئی ایس آئی نے جارجیا میں اسلحہ چلانے تربیت دی تھی۔ وہاں اسے آنند پور خالصہ فورس بنانے کے لیے بھی تیار کیا گیا تھا۔ وہ نجی فوج بنا رہا تھا۔اس کے گھر پر ملی جیکٹس پر اے کے ایف لکھا ہوا ملا۔ اس کے بارے میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ منشیات بیچنے والے مافیا سے بھی اس کے تعلقات تھے۔ وہی ہتھیار پہنچاتے تھے۔ وہ ڈرگ مافیا راویل سنگھ کی دی ہوئی مرسیڈیز ایس یو وی میں گھومتا تھا۔ 6 فائنانس کمپنیاں اور دو حوالہ والے اس کو کروڑوں روپیہ فراہم کر چکے تھے۔ اس کو 28 کھاتوں سے 5 کروڑ روپے بھیجے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 158 کھاتوں سے اس کی مدد کی گئی۔ اس کے لیے 15 تا19 مارچ کے درمیان دنیا بھر میں 2559 ٹوئٹر اکاونٹ کھولے گئے۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی حریفوں پر دھڑا دھڑ چھاپہ مارنے والی ای ڈی اور سی بی آئی نے اس کی جانب توجہ کیوں نہیں کی؟ اس نظر کرم کی وجہ کیا ہے؟ جبکہ علیحدگی پسند تنظیم سکھ فار جسٹس نے امرت پال سنگھ کی حمایت میں دلی کے بجلی گھر کو اڑانے دھمکی تک دے ڈالی نیز سکھوں کو عدم موالات کی تحریک چلانے پر بھی ابھارا۔ اس کے باوجود امرت پال سنگھ دلی میں داخل ہو گیا تو آخر وہاں اس کا ایسا کون سا حامی ہے جس سے اسے پناہ کی توقع تھی؟
امرت پال کے معاملے میں بی جے پی کی قومی انتظامیہ کے رکن سنیل جھاکر نے اسے جی 20 کے اجلاس سے جوڑ کر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ فی الحال جی 20 ممالک کی سربراہی کو لے کر ملک بھر میں جشن کا ایک جعلی ماحول تیار کیا گیا ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مودی جی نے بڑی محنت کرکے اسے حاصل کیا ہے حالانکہ یہ صدارت تو باری باری سارے ارکان ممالک میں گردش کرتی ہے۔ ان 20 ممالک سے ٹریڈ یونین کے مندوبین، ماہرین اور مزدور قائدین کو اپنے ہم منصبوں کے ساتھ امرتسر میں جمع ہونا تھا۔ دنیا کے سرکردہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے عالمی گروپ جی 20 کے ایک کلیدی گروپ لیبر 20 (ایل 20) کی ابتدائی تقریب کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ محنت و روزگار کے مرکزی وزیر بھوپندر یادو اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان ایل 20 کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کی تیاری کر رہے تھے۔ بھارتیہ مزدور سنگھ کے قومی صدر ہرن مے پانڈیا ایل 20 کی صدارت کے لیے پرتول رہے تھے کہ یہ ہنگامہ شروع ہوگیا اور رنگ میں بھنگ پڑ گیا۔
ہمہ گیر روزی روٹی اور روزگار سے متعلق موضوعات، سماجی تحفظ، مزدوروں کی بین الاقوامی نقل مکانی، سماجی سلامتی فنڈس، غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے سماجی تحفظ، ہنرمندی کی تربیت اور جدید کاری، آجرین، ملازمین، سرکار کا کردار اور ذمہ داریاں جیسے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال پس پردہ چلے گئے اور ذرائع ابلاغ پر اچانک امرت پال سنگھ ایک مہیب آسیب کی مانند چھا گیا۔ عالمی سطح پر مزدوری سے متعلق منظر نامے میں نئے رجحانات، کام کاج کی دنیا میں تبدیلی، جی 20 ممالک میں روزگار سے متعلق نئے مواقع، ہمہ گیر معقول کام کو فروغ، ممالک کے ذریعہ اجرتوں پر تجربات کا اشتراک اور خواتین کے روزگار جیسے موضوعات میں سے سب کی دلچسپی ختم ہوگئی۔ انٹرنیٹ کے بند ہوجانے سے ان مندوبین کا دنیا بھر سے رابطہ ٹوٹ گیا اور مصنوعی ترقی کا جو مایا جال پھیلایا گیا تھا وہ اچانک سمٹ گیا۔ خالصتان زندہ باد کے نعروں نے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سنیل جھاکر کو کہنا پڑا کہ امرت پال کے خلاف تاخیر سے، غلط وقت پر، غیر منصوبہ بند، ناکام اور غلط مہم نے وہ کام کر دیا جو آئی ایس آئی اپنے علیحدگی پسند ایجنڈے کے ذریعہ نہیں کر سکی تھی۔
بھگونت سنگھ مان نے اگر یہ حماقت سہواً کر دی تب بھی یہ ناقابلِ معافی جرم ہے اور قصداً ایسا کرنا تو سراسر ملک دشمنی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ نے اگر جان بوجھ کر یہ کام کیا ہے تو گویا انہوں نے دلی میں بی جے پی کے اشارے پر کام کرنے والے لیفٹننٹ جنرل سے سرکاری زیادتی کا بھرپور انتقام لے لیا۔ سنیل جھاکر کے مطابق معروف گلوکار سدھو موسے والا کی برسی کے موقع پر اس کے قاتل لارنس بشنوئی نے جیل میں بیٹھ کر جو انٹرویو دے دیا اس کی بدنامی سے بچنے کی خاطر صوبائی حکومت نے یہ ہنگامہ کھڑا کیا اور اس کے سبب کینیڈا، امریکہ، جرمنی یا برطانیہ جیسے ممالک میں خالصتان کے حامیوں کو بہترین موقع فراہم کر دیا۔ جھاکر کہتے ہیں کہ حکومت اگر مزید دو دن ٹھہر جاتی تو کوئی آسمان نہیں پھٹ پڑتا لیکن اس بیچ جی 20 کے مندوب لوٹ جاتے اور ان کے ذریعہ دو تہائی دنیا کی آبادی تک یہ غلط پیغام نہ جاتا۔ اجنالا سانحہ کے بعد اس گرفتاری کو اتنے وقت تک لٹکائے رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن چونکہ حکومت نے معاملہ دبا ہی دیا تھا تو اسے مزید دو دن کے لیے ٹالا جاسکتا تھا۔ جاکھر نے کہا کہ وہ اسے ایک غیر منصوبہ بند اور غلط آپریشن کہیں گے جس نے پنجاب کی سیکیورٹی ایجنسیوں کو مضحکہ خیزبنا دیا۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر نہ صرف پنجاب کی بدنامی ہوئی بلکہ ملک کی شبیہ کو بھی نقصان پہنچا۔ ان کے خیال میں امرت پال جیسے دھوکے باز اور جعلی سنت پر بلاوجہ توجہ مبذول کرکے اسے مقبول بنا دیا گیا جبکہ اس سے دوسرے انداز سے بھی نمٹا جا سکتا تھا۔
سنیل جھاکر کی ساری باتوں کو سچ مان لیا جائے تب بھی کچھ سنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔ ملک کی خفیہ ایجنسی عالمی سطح پر مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ آج یہ کہا جا رہا ہے کہ اس نے خالصتان بنانے کی تیاری کرلی تھی۔ کرنسی چھاپ رکھی تھی اور اسلحہ بھی جمع کرلیا تھا۔ اس کے پاس اسلحہ کی تربیت کا میدان موجود تھا۔ سابق فوجیوں کی مدد سے وہ نوجوانوں کو تربیت دے رہا تھا اور خود بھی بیرونِ ملک پاکستان کے زیر اثر اسلحہ چلانا سیکھ چکا تھا۔ یہ باتیں اگر درست ہیں تو اسے ملک میں داخل ہوتے ہی گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کو کھلی چھوٹ کیسے مل گئی؟ مرکزی حکومت نے آج تک اس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ پنجاب میں تو خیر عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے مگر ہریانہ سرکار نے ایک مفرور مجرم کو حراست میں کیوں نہیں لیا؟ اس کی اتر اکھنڈ میں جانے کے امکانات کیوں روشن ہوگئے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے؟
دلی کے سی سی ٹی وی کیمروں میں وہ کیونکر نظر آیا اور پھر کہاں غائب ہوگیا؟ اتنا بڑا خفیہ نیٹ ورک ایک شخص کو گرفتار کرنے میں ناکام کیسے ہوگیا؟ سنیل جھاکر اور ان کی پارٹی کے رہنماوں کو کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچنے کے بجائے ان سوالات کا جواب بھی دینا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر عتیق احمد کے گجرات سے دہلی لے جانے کو میڈیا میں اس قدر اچھالا جارہا ہے؟ یعنی بشنوئی سے دھیان ہٹانے کے لیے امرت پال اور اس کی طرف توجہ ہٹانے کے لیے عتیق احمد؟ یہ کیا چکر ہے؟ ابھی تک تو اس کے ملک سے نکل جانے کی خبر نہیں آئی ہے لیکن اگر کل کو نیرو مودی اور للت مودی کی مانند وہ بھی نکل جائے تو بی جے پی اسے ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دے گی۔ اس صورت میں امرت پال سنگھ پر یہ شعر صادق آجائے گا؎
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 کیجریوال کو یہ بتانا ہوگا کہ آخر بھگونت سنگھ مان کی سرکار اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں کیوں ناکام ہو گئی۔ یہ حرکت اگر قصداً سکھوں کی ناراضی سے بچنے کے لیے کی گئی ہے تو پھر کمار وشواس کے پچھلے سال انتخاب سے قبل لگائے جانے والے الزام کو تقویت ملتی جس میں کیجریوال کے متعلق کہا گیا تھا کہ آیا وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنیں گے یا آزاد ملک کے پہلے وزیر اعظم بنیں گے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023