مسعود ابدالی
دستِ قاتل میں تھکن کے آثار نہیں اورجنگ بندی کے لیے اہل غزہ اپنے شرائط پر اٹل
سات اکتوبر کو غزہ میں خونریزی کے آغاز سے اب تک ڈاکٹروں سمیت غزہ کا 49 فیصد طبی عملہ مادرِ وطن پر قربان ہوچکا ہے، 1500 سے زیادہ ڈاکٹر اور نرسیں زخمی ہیں جبکہ عملے کے 309 افراد اسرائیلی عقوبت کدوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔
سات ماہ کی مسلسل بمباری کے بعد بھی اب تک نہ دستِ قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ مستضعفین کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ ہے۔ یعنی دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں بھی مشق ستم اپنے عروج پر اور فاقہ زدہ سوختہ جانوں کا معاشی قتل عام جاری ہے۔دھاوے، چھاپے، گرفتاریوں اور غیر اعلانیہ کرفیو سے مقامی صنعت کو تالے لگ چکے ہیں۔اب بیچارے فلسطینیوں کی گزر بسر زاعت اور مویشیوں پر ہے۔ یہی ’دولت‘ اب غنیم کا بنیادی ہدف ہے۔ گزشت ہفتے اسرائیل میں عبورِ عظیم (Passover) کا تہوار منایا گیاجب شکرانے کے طور پر بھیڑ بکریوں کی قربانی دی جاتی ہے جس کے لیے عرب اردن سے ریوڑ کے ریوڑ ہتھیا لیے گئے۔
اس ہفتے کی افسوسناک خبر غزہ کے ممتاز ماہرِ تقویم الاعضا (Orthopedic Surgeon) کی المناک شہادت ہے۔پچاس سالہ ڈاکٹر عدنان البرش غزہ کے الشفا ہسپتال سے وابستہ تھے۔ انہیں دسمبر میں اسرائیلی فوج نے العودہ ہسپتال سے گرفتار کیا جہاں وہ ہنگامی جراحی کرنے آئے تھے۔گرفتاری کے بعد ڈاکٹر صاحب کو اسرائیلی فوج نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں انہوں نے 19 اپریل کو دم توڑدیا۔ اسرائیلی محکمہ جیل نے ان کی موت کا اعلان تین مئی کو کیا اور تا دمِ تحریر ان کا جسدِ خاکی وارثین کے حوالے نہیں کیا گیا۔ سات اکتوبر کو غزہ میں خونریزی کے آغاز سے اب تک ڈاکٹروں سمیت غزہ کا 49 فیصد طبی عملہ مادرِ وطن پر قربان ہوچکا ہے، 1500 سے زیادہ ڈاکٹر اور نرسیں زخمی ہیں جبکہ عملے کے 309 افراد اسرائیلی عقوبت کدوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔
غرب اردن کی طرح امریکی جامعات کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں۔ نیویارک کی جامعہ کولمبیا اور جامعہ کیلیفورنیا، لاس اینجلس (UCLA) چھاونی کا منظر پیش کررہی ہیں جہاں درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کرکے طلباء سے ہاسٹل خالی کرا لیے گئے ہیں جبکہ داخلی راستوں پر پولیس کے مسلح سپاہی تعینات ہیں، طالبات سمیت 2500 طلباء گرفتار ہیں جن میں سے بہت سوں کے خلاف دہشت گردی کے پرچے کاٹے جاچکے ہیں ۔ سیکڑوں طلباء کو معطل کرکے ان کے اخراج کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔اساتذہ کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ جامعہ کولمبیا نے ماڈرن عرب اسٹڈیز کے پروفیسر محمد عبدہ کو برطرف کردیا ہے۔
امریکی صدارت کے دونوں بڑے خواہش مند جو ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں، طلباء احتجاجی تحریک کو کچل دینے کے لیے ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے ہیں۔ صدر بائیڈن نے نہایت ڈھٹائی سے کہا کہ ’جامعات میں مظاہروں سے میری اسرائیل کے لیے حمایت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ آزادی اظہار رائے درست لیکن قانون شکنی کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں۔ ان کے حریف ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’کولمبیا یونیورسٹی میں پولیس کی کارروائی دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔پولیس نے دہشت گردوں کے 300 حامیوں کو گرفتار کرکے قابل تعریف کارنامہ سر انجام دیا۔’طلباء بدمعاشی‘ کا موردِ الزام امریکی حکومت کو ٹھیراتے ہوئے سابق امریکی صدر، نریندر مودی کی طرح بولے کہ یہ سب بائیڈن کی بے قابو امیگریشن پالیسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ یہاں آگئے ہیں۔
طلباء تحریک کچلنے کے لیے امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) بھی سرگرم ہے۔فلسطین کے حق میں مظاہروں اور دھرنوں کے ردعمل میں تعلیمی اداروں کو سیاسی سرگرمیوں سے پاک کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ کانگریس کے اسپیکر مائک جانسن نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیمپس میں یہود دشمنی (Anti-Semitism) کو پھلنے پھولنے کی اجازت نہیں دیں گے۔جامعات کی انتظامیہ یہودی طالب علموں کے تحفظ میں ناکامی پر جواب دہ ہوگی، خیمہ زنی ’برداشت’ کرنے والی جامعات کے سربراہوں کو کمیٹی کے سامنے طلب کیا جائے گا اور ’نرمی‘ دکھانے والی جامعات کی وفاقی مدد معطل کردی جائے گی۔
پولیس گردی اور دھمکیوں کے باوجود طلباء تحریک ٹھٹھرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے طلباء ونگ کالج ڈیموکریٹس (College Democrats) نے جامعات میں مظاہرے کی حمایت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ملک بھر کے طالب علموں کی جانب سے فلسطین میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے احتجاج ایک جرات مندانہ قدم ہے۔امریکی طلباء اس جنگ کو تباہ کن، نسل کشی اور غیر منصفانہ سمجھتے ہیں۔ بیان میں صدر بائیڈن کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا بنجمن نیتن یاہو سے پیار ریچھ کو گلے لگانے کے مترادف ہے اور یہ حکمت عملی جنگ کے خاتمے کے خواہش مند تمام امریکیوں کے لیے مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔
طلباء تحریک کا تین نکاتی ہدف، وقف رقومات (Endowment Fund)کی اسرائیل نواز اداروں میں سرمایہ کاری بند کرنے،اسرائیلی جامعات سے علمی و تکنیکی تعاون کا خاتمہ اوراسرائیل کو نفع پہنچانے والے اداروں پر پابندیاں لگانا ہے جسے سیاسی اصطلاح میں BDSکہاجاتا ہے۔
ان اہداف کے حصول میں طلباء کو جزوی کامیابی بھی ہورہی ہے۔ گزشتہ ہفتہ ریاست روڈ آئی لینڈ (Rhodes Island) کی جامعہ براؤن (Brown University) نے اعلان کیا کہ ان کا کارپوریٹ بورڈ، وقف رقومات کی اسرائیل نواز کمپنیوں میں سرمایہ کاری بند کرنے پر غور کرے گا۔ بورڈ کے آئندہ اجلاس میں فلسطین نواز طلباء کے نمائندے اپنی رائے پیش کریں گے جس کے بعد شفاف رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا۔ شیخہ الجامعہ کرسٹینا پیکسن نے ایک بیان میں یقین دلایا کہ disinvestment کا فیصلہ جامعہ کے اساتذہ اور طلباء کی امنگوں کے مطابق ہوگا۔ ایسے ہی اعلانات نیوجرسی کی جامعہ رٹجر (Rutger University) بوسٹن کی جامعہ نارتھ ایسٹرن (NEU)اور جامعہ کیلیفورنیا ریورسائڈ (UCR) سے بھی ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ جامعہ پورٹ لینڈ (PSU) نے لڑاکا طیارے بنانے والے ادارے بوئنگ کا عطیہ لینے سے وقتی طور پر انکار کردیا۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے جامعہ کی سربراہ محترمہ این کَڈ نے ایک خط میں بتایا کہ جامعہ مئی میں ایک اجلاس منعقد کرےگی جس میں ہتھیار بنانے والے اس ادارے کے جامعہ سے تعلقات کا جائزہ لیا جائےگا۔
حکومتی مخالفت کے علی الرغم اکثر جامعات میں اساتذہ طلبہ کی پشت پر ہیں۔کولمبیا سے ملحق برنارڈ کالج کی سربراہ ڈاکٹر لارا روزنبری (Laura Rosenbury ) نے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے 50طلبہ کو معطل کرکے ہاسٹل سے نکال دیا ہے۔ رد عمل کے طور پر کالج کی اکیڈمک کونسل نے ڈاکٹر صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرلی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طلباء کے معاملے میں ایسی بے حس خاتون، سربراہی کی اہل نہیں ہے۔ 77 فیصد اساتذہ نے تحریک کے حق میں ہاتھ بلند کیے۔
جامعہ ورمونٹ (University of Vermont) نے 19؍ مئی کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد کے لیے اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ کو بطور کلیدی مقرر مدعو کیا تھا۔ خیمہ زن طلباء کو اسرائیل نواز سفارت کار کی جامعہ آمد پسند نہ تھی۔ طلباء کے مطالبے پر گرین فیلڈ صاحبہ سے دعوت واپس لے لی گئی۔
اسی روز برطانیہ کے برکلیز ((Barclays بینک نے ’رضاکارانہ‘ وضاحت جاری کی، جس کے مطابق ’بینک ان اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بارکلیز غزہ کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ہمیں وہاں ہونے والی خونریزی پر سخت تشویش ہے‘۔
ہفتہ رفتہ جہاں دنیا نے امریکی طلباء کی ثابت قدمی کا مظاہرہ دیکھا وہی امریکی قیادت کی کمزوری بلکہ لاچارگی اور مغربی دنیا کا اخلاقی دیوالیہ پن بھی کھل کر سامنے آگیا یعنی سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ۔
ہفتوں سے خبر گرم تھی کہ امریکہ نے غرب اردن میں تعینات اسرائیلی فوج کی نسخِ یہودا Netzah Yehuda بٹالین پر پابندی لگانےکا فیصلہ کیا ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے صحافیوں کو بتایا کہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف وزریوں پر امریکی وزارت خارجہ نے ایک اعلیٰ اختیاراتی پینل تشکیل دیا ہے جس نے پابندی لگانے کی سفارش کی ہے۔ سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے اس بٹالین کے ہاتھوں 500 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔اس خبر پر اسرائیلی وزیراعظم بہت سیخ پا ہوئے اور امریکیوں کو انجامِ بد سے خوب ڈرایا۔ پیر 29؍ اپریل کو امریکی حکومت کے ترجمان ویدانت پٹیل نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج کے جن پانچ یونٹوں پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا ان میں سے چار نے شکایات کا مؤثر طریقے سے ازالہ کردیا ہے جبکہ پانچویں یونٹ کے بارے میں بھی اضافی معلومات جمع کرا دی گئی ہیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ بقول مولانا فضل الرحمان ’کھودا پہاڑ نکلی چوہیا اور وہ بھی مری ہوئی۔
اسرائیلی وزیر اعظم، وزیر دفاع اور چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف عالمی فوج داری عدالت (ICC) کے متوقع پروانہ گرفتاری روکنے کے لیے عدالت دھمکیوں کی زد میں ہے۔خبروں کے مطابق امریکی صدر بنفس نفیس عدالتی اہلکاروں پر دباو ڈال رپے ہیں۔کانگریس کے اسپیکر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف پروانہ گرفتاری کا اجرا ایک غیر اخلاقی و غیر قانونی قدم ہوگا جس سے امریکہ کے دفاعی مفادات پر بھی ضرب پڑے گی۔ انہوں نے یہ نوید بھی سنا دی کہ آئی سی سی کو کارروائی سے روکنے کے لیے امریکی کانگریس میں قانون سازی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ یکم مئی کو ڈیموکریٹک اور ری پبلکن سینیٹروں کے مشترکہ وفد نے ICC حکام سے فون پر گفتگو کی۔ بات چیت کے دوران ججوں کو معاملے کی سنگینی سمجھنے کا مشورہ دیا۔امریکہ کے بعد G-7ممالک نے بھی پروانہ گرفتاری کو ناقابل قبول قراردے
دیا۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی صورتحال، عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔
غزہ کی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے تیار نہیں۔اہل غزہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی حکومت نے چھ ہفتے کی جنگ بندی اور غزہ سے جزوی واپسی کی پیشکش کی تھی لیکن اہل غزہ کے جواب سے پہلے ہی دینِ یہود جماعت کی رکن اور وزیر قبضہ گردی (Settlement) محترمہ عورت اسٹروک نے کہا ’ہمارے جوان سب کچھ پیچھے چھوڑ کر حکومت کے طے کردہ اہداف کے لیے جانیں لڑارہے ہیں اور ہم 22 یا 33 افراد کو بچانے کے لیے اس گرم خون کو کوڑے دان میں پھینک رہے ہیں۔ ایسی حکومت کو باقی رہنے کا کوئی حق نہیں‘۔ اپنی ساتھی کی مکمل حمایت کرتے ہوے جماعت کے سربراہ اور وزیر خزانہ جناب اسموترچ بولے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے نتن یاہو حکومت دہشت گردوں کو خطرناک ’تزویراتی مراعات‘ دینے پر آمادہ نظر آرہی ہے جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
تین مئی کو نتن یاہو نے دھمکی دی کہ اگر ایک ہفتے کے اندر قیدی رہا نہ ہوئے تو ر فح پر بری حملہ کر دیا جائے گا، غزہ سے جو جواب آیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ’آجا مورے بالما تیرانتطار ہے‘۔ عین اسی وقت اپنی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کے سابق آپریشن چیف، جنرل اسرائیل زیو نے کہا ہے کہ ر فح پر حملہ خود اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوگا۔ وزیر اعظم نتن یاہو اپنے قدامت اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک خطرناک قدم اٹھارہے ہیں۔ رفح حملے کا عسکری نتیجہ کچھ بھی ہو یہ ہمارے قیدیوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔
امریکی وزیر خارجہ امن بات چیت کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا ذمہ دار مستضعفین کو قرار دے رہے ہیں۔ سعودی عرب سے اسرائیل واپس پہنچنے پر انہوں نے کہا کہ مستضفین کا سخت رویہ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اپنے قطری ہم منصب کو ’حکم‘ جاری کیا کہ اگر اہل غزہ امن معاہدہ قبول نہ کریں تو ان کے قائدین کو قطر سے نکال دیا جائے۔
بھولے بلنکن کو کون یہ سمجھائے کہ دھونس اور زور سے امن معاہدہ نہیں ہوتا بلکہ ہتھیار ڈلوائے جاتے ہیں اور اگر مستضعفین کو ہتھیار ڈالنا ہوتا تو وہ نہ عورتوں اور بچوں سمیت 35 ہزار جانوں کی قربانی دیتے، نہ اپنے ملک کو کھنڈر بنتا ہوا دیکھتے۔ آخر میں ایک امید افزا نوٹ پر نشست کا اختتام کرتے ہیں۔
اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں نے اپنی الگ دنیا آباد کررکھی ہے۔ان عقوبت کدوں میں حفظ قرآن کے مدارس، نغمات کی مجلسیں، مشاعرے اور ادبی نشستوں کا اہتمام ہوتا ہے۔نظر بند ادیب و شاعر تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک قیدی باسم خندقجی نے قصائص پر مشتمل ایک کتاب قناع بلون السما (اسمانی رنگ کا نقاب) لکھی جسے اس سال کے عرب فکشن Arabic Fictionایوارڈ سے نوازا گیا۔ فاضل مصنف 20 سال سے قید ہیں۔ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں نے اپنی الگ دنیا آباد کررکھی ہے۔ان عقوبت کدوں میں حفظ قرآن کے مدارس، نغمات کی مجلسیں، مشاعرے اور ادبی نشستوں کا اہتمام ہوتا ہے۔نظر بند ادیب و شاعر تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک قیدی باسم خندقجی نے قصائص پر مشتمل ایک کتاب قناع بلون السما (اسمانی رنگ کا نقاب) لکھی جسے اس سال کے عرب فکشن Arabic Fictionایوارڈ سے نوازا گیا۔ فاضل مصنف 20 سال سے قیدہیں۔ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024