اے ایم یو نے اسلامی اسکالرز ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب کی کتابوں کو نصاب سے ہٹایا

نئی دہلی، اگست 3: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے نصاب سے دو اسلامی سکالرز کی کتابوں کو یہ جاننے کے بعد خارج کر دیا ہے کہ بعض ’’دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد‘‘ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر ہندوستانی کیمپسز میں ان دونوں کی کتابوں پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔

دی ٹیلی گراف کے مطابق اے ایم یو میں شعبۂ اسلامیات کے سربراہ محمد اسماعیل نے بتایا کہ یونیورسٹی نے خود ہی پاکستان کے ابوالاعلیٰ مودودی اور مصر کے سید قطب کی کتابیں ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے، کیوں کہ ’’ہم کوئی تنازعہ نہیں چاہتے۔‘‘

اسماعیل نے یہ نہیں بتایا کہ ’’دائیں بازو کے نظریات والے‘‘ کون تھے اور انھیں ان کے خط کے بارے میں کیسے پتہ چلا، لیکن انھوں نے کہا کہ ان کا یہ الزام کہ ان دونوں علما کی تحریروں نے ’’دہشت گردی اور جنونیت‘‘ کو فروغ دیا ہے، غلط ہے اور ان کتابوں میں ’’کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔‘‘

تاہم ملت ٹائمز کی خبر کے مطابق مدھو کشور سمیت ملک کے 20 سے زیادہ دائیں بازو کے ماہرین تعلیم نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے، جس میں ماہرین تعلیم نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مصر کے سید قطب کی کتابوں کو اے ایم یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی سمیت کئی سرکاری فنڈڈ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے پر اعتراض کیا ہے۔

محمد اسماعیل نے کہا کہ ’’دونوں مصنفین نے اسلام کو جمہوریت کی روشنی میں بیان کیا ہے اور اس کی خالص ترین شکل میں اس کی وکالت کی ہے، لیکن بادشاہت کے زیر اثر کچھ ممالک نے ماضی میں ان پر پابندی لگا دی تھی۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’ایک جمہوری اور غیر جمہوری ملک ایک کتاب کو ایک ہی روح کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے۔ تاہم میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ ہم کوئی تنازعہ نہیں چاہتے۔‘‘

اسماعیل نے کہا کہ ’’ہم نے ان دونوں اسکالرز کی چار کتابوں کو اپنے (اسلامک اسٹڈیز) کے نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا، جب ہمیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے ان کے خلاف اعتراضات اٹھائے ہیں۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’وائس چانسلر (طارق منصور) نے اتوار کی صبح مجھے فون کیا اور مجھے اس کا جائزہ لینے کو کہا۔ میں نے انھیں بتایا کہ ہم ان کتابوں کو اپنے نصاب سے ہٹانے کے لیے پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔‘‘

اسماعیل نے مزید کہا ’’اگرچہ اے ایم یو کے نصاب میں شامل ان کتابوں میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں تھا، لیکن ہم نے انھیں محکمہ کے انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز سے ہٹا دیا، بنیادی طور پر صرف اس لیے کہ ہم ایک غیر متنازعہ یونیورسٹی بننا چاہتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے، جسے دہشت گردی یا جنونیت کے فروغ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ شکایت میں دعویٰ کیا گیا ہے۔‘‘

اسماعیل نے کہا کہ پیر کو شعبہ میں فیکلٹی ممبران کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، تاکہ انھیں سلیبس میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کیا جا سکے اور کوئی الجھن نہ ہو۔