علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کے اسٹڈی سنٹرس بحران کا شکار

کشن گنج سنٹر بند ہونے کے قریب اور مرشدآباد کیمپس مالی بحران سے دوچار

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ملپورم سنٹر کی حالت ٹھیک ٹھاک مگر مسائل کا انبار
کشن گنج سے متعلق سوال پر مرکزی وزیر تعلیم کا حیران کن جواب ۔ مرشدآباد کیمپس سے سوتیلے سلوک پر حکومت بنگال کی پراسرار خاموشی
پارلیمنٹ جمہوریت کا مرکز ہوتا ہے۔پارلیمنٹ کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ میں منتخب نمائندوں کو کھل کر عوامی مفادات میں بات کرنے اور حکومت کے سامنے تجاویز پیش کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ حکومتی بنچ پر بیٹھے ہوئے افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوامی سوالوں کے جوابات دیں اور ان کے مسائل کو حل کرنے کہ کوشش کریں۔
کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والے بحث و مباحثہ کا معیار ہی ملک کی جمہوریت کی سمت کو طے کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ کی کارروائی جس نہج پر چلی، اپوزیشن جماعتوں کے ممبران کو اپنی بات رکھنے سے روکا گیا ہے اور جس طرح کے اصول و ضوابط بنائے گئے ہیں وہ ملک میں جمہوریت کے سکڑتے دائرہ عمل کی نشان دہی کرتے ہیں۔اس طرح کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔اس ہفتے لوک سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے بارے میں جس طرز عمل اور رویہ کا اظہار کیا وہ پارلیمنٹ کے بحث و مباحثہ کے گرتے ہوئے معیار کی طرف واضح اشارہ ہے۔لوک سبھا میں 12دسمبر کو وقفہ سوالات میں کشن گنج سے منتخب شدہ ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد جاوید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کشن گنج کیمپس کے لیے فنڈ جاری کرنے سے متعلق سوالات کیے کہ آخر مرکزی حکومت اس کے لیے فنڈ کیوں نہیں جاری کرتی ہے۔ اسی درمیان کانگریس کے لوک سبھا لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے بھی جو ضلع مرشدآباد کے بہرام پور سے منتخب ہوکر آئے ہیں، مرشدآباد میں واقع علی گڑھ کیمپس کی بدحالی کا ذکر کیا۔چوں کہ دونوں معاملوں میں یکسانیت تھی اس لیے ادھیر رنجن چودھری نے ایک اور سوال جوڑنا مناسب سمجھا مگر دھرمیندر پردھان کو یہ بات ناگوار گزر گئی اور انہوں نے ادھیر رنجن چودھری کے اس سوال کو سونیا گاندھی کو خوش کرنے کی کوشش سے جوڑ دیا اور کہا کہ بس کر دیجیے میڈم (سونیا گاندھی) خوش ہوگئی ہیں۔پارلیمنٹ میں اس طرح کی بات کوئی نہیں ہیں مگر سوال پوچھنے پر یوں مضحکہ خیزی کی امید تو نہیں کی جا سکتی تھی۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کے ممبروں کا حکومت سے سوالات کرنے کا مقصد پارٹی لیڈر کو خوش کرنا ہے تو کیا یہ کہنا چاہیے کہ حکومتی بنچ میں بیٹھے ممبران اور وزار کا تلخ رویہ وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لیے ہے؟ گزشتہ سیشن کے دوران سونیا گاندھی اور سمرتی ایرانی کے درمیان تنازعہ بھی اسی گرتی پارلیمانی اقدار کا بدترین نمونہ تھا۔ ادھیر رنجن چودھری کی ایک لسانی غلطی کو بنیاد بنا کر سونیا گاندھی کو نشان زد کرنے کی کوشش کی گئی۔سونیا گاندھی کے اعتراض پر بی جے پی کی خواتین ممبران حملہ آور ہو گئیں مگر افسوس کہ یہ وہی خواتین ممبران پارلیمنٹ ہیں جو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں عصمت دری کے مختلف واقعات پر مہر بہ لب ہو جاتی ہیں۔
اصل معاملہ کیا ہے؟
بہار کے سیمانچل علاقے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس کا قیام مقامی لوگوں کے لیے جذباتی مسئلہ رہا ہے، اس کے لیے یہاں کے مقامی لوگوں نے کافی جدوجہد کی ہے۔بہار کا یہ وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ پسماندگی کا شکار بھی ہے۔ یہاں مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان بہت کم ہے، اس کی وجہ غربت و افلاس بتائی جاتی ہے۔ عموما غریبی کا شکار مسلم خاندان اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے بڑے شہروں میں بھیج کر اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں رہتے۔ چناں چہ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے مسلم اکثریتی علاقے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ تعلیم کے نام پر بھی خوب سیاست کی گئی۔بنگال اور کیرالا کی بائیں محاذ کی حکومت نے اس کے لیے فوراً زمین فراہم کر دی مگر بہار میں اس پر سیاست ہونے لگی۔ مدھیہ پردیش، کرناٹک اور آسام کی ریاستی حکومتیں اس تجویز پر کان دھرنے کو تک تیار نہیں ہیں۔ نتیش کمار نے(جو اس وقت بھی وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر فائز تھے) انکار نہیں کیا مگر زمین کے الاٹمنٹ میں نہایت ہی تاخیر سے کام لیا۔پہلے یہ سنٹر کٹیہار میں قائم ہونا تھا بعد میں کشن گنج کو منتخب کیا گیا۔ 2008 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ نے بہار کی حکومت کو خط لکھ کر زمین الاٹمنٹ کی درخواست کی تھی مگر تقریبا تین سالہ انتظار کے بعد اکتوبر 2011 میں کشن گنج کے مقامی مسلمانوں، سماجی کارکنوں، سیاسی لیڈروں اور مختلف تنظیموں نے حکومت بہار کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا اور اس کی وجہ سے تمام سڑکیں اور ریلوے لائن بلاک ہوگئیں، تب کہیں جا کر حکومت بہار نے زمین الاٹمنٹ کا اعلان کیا مگر یہ کارروائی مکمل ہوتے ہوتے 2014 آگیا۔ 2014 جنوری میں یو پی اے حکومت کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار، مقامی ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی اور دیگر ممبران اسمبلی کی موجودگی میں اس سنٹر کا افتتاح کیا۔ اس سنٹر کے قیام کے لیے 136 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے مگر ابتدائی طور پر 10 کروڑ روپے کا الاٹ کیے گئے جس میں زمین کی باؤنڈری بن سکی۔بعد میں الاٹ کی گئی زمین نیشنل گرین ٹریبونل (NGT) کے ساتھ قانونی تنازعات میں الجھ گئی کیونکہ یہ دریائے مہانندا کے قریب واقع تھی۔ اس وقت کشن گنج کیمپس ایک کرائے کے مکان میں چل رہا ہے۔ کشن گنج اے ایم یو سنٹر نے ابتدائی طور پر ایم بی اے اور بی ایڈ کورسز کی پیشکش کی تھی لیکن 2018 میں بی ایڈ کورس کو نیشنل کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (این سی ٹی ای) کے اعتراضات کے بعد روک دیا گیا تھا۔
2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد یو پی اے حکومت نے مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹڈی سنٹرز قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت کہا گیا تھا کہ اسٹڈی سنٹرز کے قیام کا مقصد کم اخرجات میں زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تجربات کا فائدہ بھی ہو مگر یو پی اے حکومت بالخصوص کانگریس سچر کمیٹی کا سہارا لے کر خود کو مسلمانوں کے ووٹ کا مستحق قرار دیتی تھی جبکہ اس نے اس کے لیے مخلصانہ کوششیں کی ہی نہیں، اس لیے میں سنٹروں کے قیام میں تاخیر ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پورا منصوبہ ہی ناکامی کے دہانے پر پہنچ گیا۔اس وقت جو تین کیمپس چل رہے ہیں ان کی حالت نہایت ہی خراب ہے۔کشن گنج کے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد جاوید یہ جانتے ہیں کہ یہ اسٹڈی سنٹر یہاں کے لیے بہت ضروری ہے اس لیے 2019 میں منتخب ہونے کے بعد سے ہی وہ مسلسل اس کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔2019میں انہوں نے پارلیمنٹ میں گاندھی کے مجسمے کے سامنے احتجاج کیا تھا۔اگرچہ یہ احتجاج میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر سکا مگر خود کانگریس کے دیگر ممبران نے بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ صرف ششی تھرور اور دیگر دو ممبران پارلیمنٹ اخلاقی طور پر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آئے۔ 12 دسمبر 2022 کو انہوں نے ایک بار پھر وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کے سامنے کشن گنج کیمپس کے لیے مختص فنڈ کے اجرا کا سوال اٹھایا مگر اس سوال کے جواب میں دھرمیندر پردھان نے جو باتیں کہیں اس نے کشن گنج کیمپس کے وجود پر ہی سوال کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2010 میں کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس کے لیے جس نے بھی خواب دیکھا تھا وہ ادھورا خواب تھا، اچھی نیت سے کام نہیں لیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں کئی ساری قانونی خامیاں ہیں جس کی وجہ سے ہم چاہ کر بھی فنڈ نہیں دے پا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تسلیم کیا کہ مغربی بنگال کے مرشدآباد اور کیرالا کے مالا پورم میں مسلم یونیورسٹی کے کیمپس مکمل اصول و ضوابط کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ کشن گنج کیمپس کے قیام میں کیا قانونی خامیاں ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنے کا حسین خواب دکھانے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے ان سات سالوں میں قانونی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کشن گنج کیمپس کے لیے فنڈ کے اجرا میں قانونی پیچیدگیاں حائل ہیں تو پھر مرشدآباد اور مالا پورم کے کیمپس کو مالی بحران کا سامنا کیوں ہے؟ 12 سال گزر جانے کے باوجود یہ دونوں کیمپس صحیح طریقے سے کام کیوں نہیں کر پا رہے ہیں؟ ایک طرف وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان یہ اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ مرشدآباد اور ملپورم کے کیمپس کا قیام اصول و ضوابط کے تحت عمل میں آیا ہے مگر دوسری طرف ان دونوں کیمپسوں کے لیے بھی الاٹ فنڈز جاری نہیں کیے جا رہے ہیں۔مرشدآباد میں محض گریجویٹ کے دو یا تین کورسیس ہی بمشکل چلائے جا رہے ہیں۔
مشہور دانشور ڈاکٹر ظفر محمود جو سچر کمیٹی میں آفیسر انچارج کے عہدہ پر فائز تھے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر موصوف نے قانونی خامیوں کی کچھ بھی نشان دہی نہیں کی ہے۔ اگر واقعتاً خامیاں ہیں تب بھی اس کو درست کرنے کی ذمہ داری تو حکومت کی ہی ہے۔ پارلیمنٹ کا کام ہی قانونی خامیاں دور کرنا اور ترامیم کرنا ہے۔ جب ایک ہی طرح کے قانونی ترامیم کے ذریعہ مرشدآباد، ملپورم سنٹر اور کشن گنج سنٹر قائم ہوئے ہیں تو آخر یہاں کونسی قانونی خامیاں رہ جاتی ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر مرشدآباد اور ملپورم سنٹروں کا قیام اصول و ضوابط کے مطابق ہے تو پھر حکومت سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ یہ دونوں سنٹر صحیح طریقے سے کام کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ان کے لیے فنڈ کےاجرا میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟
کشن گنج سے منتخب شدہ ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد جاوید کہتے ہیں کہ ’’میں لوک سبھا میں کشن گنج کے 30 لاکھ لوگوں کی نمائندگی کرتا ہوں اور میں بہار کے سب سے پسماندہ علاقے سیمانچل (کشن گنج، پورنیا، ارریہ اور کٹیہار کے اضلاع کی تشکیل) سے تعلق رکھتا ہوں، جس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے لیکن یہاں کوئی تعلیم نہیں ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے۔ کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر کھولنے کا سابقہ حکومتی فیصلہ ہمارے ان لاکھوں نوجوانوں کے لیے امید کی کرن بن کر آیا تھا جو پڑھ کر اپنی زندگی میں کچھ بننا چاہتے ہیں مگر سنٹر کے قیام کے صرف آٹھ سال بعد ہی کشن گنج اے ایم یو سنٹر بند ہونے کے دہانے پر ہے جس کا بنیادی سبب فنڈز کی کمی ہے۔ ڈاکٹر محمد جاوید کہتے ہیں کہ ان کے حلقے میں صرف چھ سرکاری کالجز ہیں اور کشن گنج کے گیارہ بلاکس میں سے سات میں ایک بھی کالج نہیں ہے۔ خود دھرمیندر پردھان پارلیمنٹ میں کہتے ہیں کہ سیمانچل کے علاقے کو وہ جانتے ہیں، یہاں کی صورت حال خراب ہے مگر پھر کہتے ہیں مجبوری ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ اے ایم یو سنٹر کو ہندو مسلم تفرقہ کی عینک سے تو نہیں دیکھا جا رہا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ بات نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ مگر اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے کہ کشن گنج میں تقریباً 70 فیصد مسلم آبادی ہے جبکہ یہ کمیونٹی چار سیمانچل اضلاع کی اوسطاً 47 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ اگر اس کے نام میں مسئلہ ہے تو حکومت سے درخواست ہے کہ کوئی اور تعلیمی ادارہ کھولے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی (BHU) کی ایک شاخ ہی کھول دے لیکن براہ کرم ہمارے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرے۔
بہار میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال
2017ء میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این پی ایف) نے بہار کے مسلم نوجوانوں کی تعلیمی صلاحیت و قابلیت اور ان کی معاشی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے Status of Muslim Youth in Bihar Quantitative and Qualitive Assessment (بہار میں مسلم نوجوانوں کی حیثیت، مقداری اور معیاری اسیسمنٹ) کے عنوان سے سروے کیا تھا جس میں بہار کے مسلم نوجوانوں کی تعلیمی حالت اور دیگر انسانی وسائل کا جائزہ لیتے ہوئے سنگین حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔اس سروے میں 2011ء کی مردم شماری کے اعداد وشمار کا تجزیہ کرتے ہوئے دیہی اور شہری علاقوں میں خواندگی کی شرح بتائی گئی ہے کہ شہری اور دیہی علاقے کے مابین تعلیم کی شرح میں کافی نمایاں فرق ہے۔شہری علاقوں میں 69.1 فیصد افراد تعلیم یافتہ ہیں جب کہ بہار کے دیہی علاقوں میں 54.3 فیصد افراد ہی زیور تعلیم سے آراستہ ہیں۔ یعنی 45.7 فیصد افراد ناخواندگی کا شکار ہیں۔اس سروے میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بہار کے سیمانچل علاقے کے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے۔ ارریہ اور پورنیا میں مسلمانوں کی خواندگی کی شرح بالترتیب 48.3 اور 43.1 فیصد ہے جب کہ کشن گنج میں 53.1 فیصد اور کٹیہار میں 45.4 فیصد ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان چار اضلاع میں مسلمانوں کی شرحِ ناخواندگی ملک بھر میں مسلمانوں کی ناخواندگی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں تمام مذہبی برادریوں میں سب سے زیادہ 42.7 فیصد ناخواندگی کی شرح مسلمانوں میں ہے۔ بھارت کی قومی خواندگی کی شرح مردم شماری سال 2011ء کے مطابق 74.4 فیصد ہے یا 2018ء کے قومی شماریاتی کمیشن کے سروے کے مطابق اس سے بھی زیادہ 77.7 فیصد ہے۔اس سروے میں 15 سے 29 سال کی عمر کے بہاری مسلم نوجوانوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس رپورٹ میں بہت سارے حیرت انگیز انکشافات کیے گئے ہیں۔بہار میں صرف 2.4 فیصد مسلمان گریجویٹ اور اس سے اوپر ہیں جبکہ دیگر 0.9 فیصد ڈپلوما ہولڈر ہیں۔2004 میں ایشیئن ڈیولپمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(ADRI)نے بھی بہار کے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر ایک سروے کیا تھا اور اس میں بھی کہا گیا تھا کہ بہار کے صرف 2.4 فیصد مسلم نوجوان گریجویٹ اور اس سے اوپر کورسز میں داخلہ لیتے ہیں۔ ADRI کی رپورٹ جس کا عنوان تھا ’’بہار میں مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی اور تعلیمی صورتحال‘‘ ( ‘Socio-economic and Educational Status of Muslims in Bihar’) اس میں کہا گیا تھا کہ بہار کے مسلمانوں میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں میں بھیجنے کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بہار کے مسلمانوں میں اس کی خواہش کافی کم ہے۔
دیگر کمیونیٹیوں کے مقابلے میں بہار کے مسلمانوں میں صنفی اعتبار سے بھی تعلیم کی شرح تشویش ناک حد تک نیچے گر چکی ہے۔ اے ڈی آر آئی کے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دیہی علاقوں کے مسلم گھرانوں میں کالج کی تعلیم کے لیے خواندگی کی شرح لڑکوں کے لیے 37.4 اور لڑکیوں میں 13.6 فیصد کالج ہے۔ بہار کے شہری علاقوں میں آباد مسلمان طلباء 54.4 فیصد اور طالبات 36.1 فیصد کالجوں کا رخ کرتے ہیں۔ بہار میں 196 قصبے اور 593 بلاکس ہیں (ان میں سے 276 سرکاری/ حلقہ بند کالج ہیں) اس کا مطلب ہے اوسطاً ایک بلاک میں شاید ایک کالج ہے۔ 2017ء کے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ بہار میں 196 قصبوں اور 593 بلاکس میں سے 769 ڈگری کالج ہیں (ان میں سے 276 سرکاری کالج یا انسیٹیوٹ ہیں)۔ اس کا مطلب ہے اوسطاً ایک بلاک میں بمشکل تمام ایک کالج آتا ہے۔یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ بہار میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کےخاتمے کے لیے اعلی پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔صرف یہ کہہ کر مرکزی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتی ہے کہ تعلیم ریاستی حکومت کا سبجیکٹ ہے۔ کیا کسی مخصوص کمیونیٹی کی پسماندگی کے خاتمے کے لیے مرکزی حکومت کچھ نہیں کرسکتی ہے؟
کشن گنج کے مقابلے میں مرشدآباد اور ملپورم میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپسوں کی حالت کچھ بہتر ہے اور یہ دونوں سنٹرز اپنی ذاتی عمارتوں میں چل رہے ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں سنٹروں کو بھی اس وقت فنڈز کی قلت کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں مرشدآباد سنٹر کی حالت ملپورم سنٹر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے۔ اس لیے کشن گنج اسٹڈی سنٹر کے لیے فنڈ کے اجرا میں لیت و لعل کو قانونی خامیوں کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے حکومت کی نیت اور اس کے قول و فعل کے تضادات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
مرشدآباد کیمپس بھی مالی بحران کا شکار
288 ایکڑ پر مشتمل یہ کیمپس بھی مرکزی حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے مالی بحران سے دوچار ہے۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے انسٹیٹیوٹ کی روزمرہ کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔مرشدآباد کیمپس کی تعمیر کے لیے کل ایک ہزار کروڑ روپیوں کی ضرورت تھی مگر اب تک صرف 60 کروڑ روپے ہی یونیورسٹی کیمپس کو الاٹ کیے گئے ہیں۔ ایک ہی کیمپس میں انجینئرنگ کالج، میڈیکل کالج، ڈگری کالج اور دیگر پروفیشنل اداروں کے قیام کا خواب ابھی تک نامکمل ہے۔ یونیورسٹی میں اس وقت صرف قانون اور تعلیم میں ایم بی اے اور چند انڈر گریجویٹ کورسز ہورہے ہیں۔کیمپس دو حصوں میں منقسم ہے جس کو ایک نہر کے ذریعے تقسیم کیا گیا ہے اور ایک پُل کے ذریعہ دونوں میں رابطہ قائم ہے۔ فی الحال 288 ایکڑ کے کیمپس میں صرف 520 طلباء زیر تعلیم ہیں۔ مغربی بنگال کیمپس کے ڈائریکٹر انچارج پروفیسر ڈاکٹر نگمانند بسواس کہتے ہیں کہ مرشدآباد کیمپس میں فنڈز کی کمی ہے جس کی وجہ سے کیمپس کا روزمرہ کا کام متاثر ہورہا ہے۔ کیمپس کے پاس یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں، صفائی، باغبانی اور سیکورٹی گارڈوں کے لیے تک فنڈز نہیں ہیں۔ فنڈز کی پہلے کی قسط سے دو ہاسٹلز،ایک لڑکوں کے لیے اور دوسرا لڑکیوں کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ NAAC کے ذریعہ A گریڈ سے تسلیم شدہ کیمپس کو بھی آج اپنا معیار برقرار رکھنے اور اس علاقے کی تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ کرنے میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔مرشدآباد کیمپس کے سابق ڈائریکٹر بدرالدجی کہتے ہیں کہ ان کے دور میں ہی ان دونوں کیمپسوں کی تعمیر ہوئی تھی اور اس وقت جملہ 27 کل وقتی اساتذہ ہیں۔ 2011ء کے بعد ریاستی حکومت نے اے ایم یو سنٹر کی بہتری کے لیے کوئی دل چسپی نہیں دکھائی ہے۔
مرشدآباد کے بہرام پور سے منتخب ہونے والے ممبر پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری کہتے ہیں کہ ہم نے مرشدآباد میں واقع کیمپس کے لیے لوک سبھا میں متعدد مرتبہ آواز بلند کی ہے۔کئی مرتبہ ریاستی حکومت کی توجہ مبذول کرائی مگر کوئی بھی اس میں دل چسپی دکھانے کو تیار نہیں ہے۔اس وقت کیمپس کو اپنا وجود برقرار رکھنا ہی بڑا چیلنج ہے مگر اس کے لیے صرف مرکزی حکومت ہی نہیں بلکہ ریاستی حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ممتا بنرجی حکومت کے ایجنڈے میں کبھی بھی مرشدآباد کا کیمپس نہیں رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ضلع مرشدآباد کی آبادی 82 لاکھ ہے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو پسماندگی کا شکار ہیں جب کہ اس کے آس پاس جو اضلاع ہیں وہاں بھی مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان ہی اضلاع کے مسلمان سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہیں۔
سی پی آئی ایم کے ریاستی جنرل سکریٹری و سابق ریاستی وزیر اقلیتی امور محمد سلیم کہتے ہیں کہ سابقہ بائیں محاذ حکومت نے ایک طرف مدرسہ عالیہ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا تو دوسری طرف مرکزی حکومت کی تجویز پر مرشدآباد کیمپس کے لیے زمین الاٹ کی گئی۔ اسی طرح کیرالا کی بائیں محاذ حکومت نے فوری طور پر مالا پورم میں زمین الاٹ کی۔ مہاراشٹر اور آسام کی حکومتوں نے کیمپس کی تجویز کو نا منظور کر دیا۔ المیہ یہ ہے کہ نہ مودی حکومت اور نہ ہی ممتا بنرجی کی حکومت اس سنٹر کی ترقی پر کوئی توجہ دے رہی ہے۔سی پی آئی ایم اس صورت حال کو ممتا بنرجی اور آر ایس ایس کی قربت کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ایس ایف آئی کے ریاستی صدر عتیق الرحمان نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ ایک صدی سے ہندوستان کی فکری قیادت کی رہنمائی کر رہی ہے۔ آر ایس ایس ملک کے سیکولر کردار کی دشمن ہے اس لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بنگال کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔مرشدآباد جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ ہندوستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے ایک ہے۔ بنگلہ دیش کے سرحد سے متصل اس ضلع میں مسلمانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس ضلع سے متصل اضلاع میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ مالدہ میں مسلمانوں کی آبادی 52 فیصد ہے۔ شمالی دیناج پور میں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد، بیر بھوم میں 37فیصد، ندیا میں 26.6فیصداور جنوبی دیناج پور میں 24.64فیصد مسلمان آباد ہیں۔ان اضلاع میں نہ صرف مسلمانوں کی آبادی کم ہے بلکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں کی بھی قلت ہے۔ ‘Living Reality of Muslims in West Bengal’ رپورٹ میں ان اضلاع سے متعلق تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی آباد ی 20 فیصد ہے وہاں دس لاکھ کی آبادی پر محض چھ کالجز ہیں اور جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں کالجوں کی شرح زیادہ ہے۔مرشدآباد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کا مقصد ان اضلاع میں آباد مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کوختم کرنا تھا۔بنگال میں مسلم گریجویٹس کی تعداد محض پانچ فیصد ہے۔ریاست کے مشہور تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی شرح افسوس ناک حدتک کم ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مالا پورم سنٹر کی حالت قدرے بہتر ہے مگر وہ بھی بے شمار مسائل سے دوچار
کشن گنج اور مرشدآباد کیمپس کے مقابلے میں مالا پورم سنٹر کی حالت کہیں زیادہ بہتر ہے۔ یہاں پی جی ڈپلوما ان جرنلزم، گائیڈنس اور کونسلنگ، کمپیوٹر پروگرامنگ، مارکیٹنگ مینجمنٹ اور تصدیق شدہ کورس سرٹیفکیٹ ان انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہارڈ ویئر اور نیٹ ورکنگ ٹیکنالوجی سمیت 20 فیکلٹیز ہیں۔ اس کے علاوہ یو جی سی سے ایم بی اے کے 20 کورسوں کی منظوری حاصل کی گئی ہے۔ 2020 تک خود مختار یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اب تک اس سمت میں کوئی کام نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں اور اس سے منسلک کورسز بھی شروع کرنے کا منصوبہ التوا کا شکار ہے۔
کیمپس کے ماسٹر پلان کے لیے 104.93 کروڑ روپے کی رقم منظور کی گئی تھی۔ اس میں سے صرف 60 کروڑ جاری ہو سکے ہیں۔تاہم کیرالا اور دیگر ریاستوں میں فرق ہے۔کیرالا کی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے کہ اگر مرکزی حکومت اس کیمپس کی ترقی کے لیے فنڈز جاری نہیں کرتی ہے تو ہم زمین پر اپنا دعویٰ کر دیں گے اور اس پر اپنے طور پر کام کریں گے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سابق یو پی اے حکومت نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پانچ کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا مگر ضرورت اس بات کی تھی کہ سنٹروں کے قیام، اس کے لیے قانونی ترامیم، زمین کے حصول کے لیے ریاستی حکومت سے رابطہ تیز کیا جاتا مگر یو پی اے حکومت نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پر عمل کرنے کے نام پر مسلمانوں کو صرف لبھانے کی کوشش کی اور مخلصانہ اقدامات سے گریز کیا۔ 2013ء میں سابق مرکزی وزیر اقلیتی امور، کے رحمان خان نے ملک بھر میں پانچ اقلیتی یونیورسٹیوں کا اعلان کیا تھا۔اس وقت بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ ان پانچ یونیورسٹیوں کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس کو ہی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جائے گا یا پھر یہ الگ یونیورسٹی ہو گی؟ سابق مرکزی وزیر اقلیتی امور کوئی واضح منصوبہ پیش نہیں کرسکے۔نتیجہ یہ ہے کہ اس اعلان کو دس سال گزر گئے نہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس صحیح سے چل پا رہے ہیں اور نہ ہی پانچ اقلیتی یونیورسیٹیاں بن سکیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی آج بھی وہیں ہے جہاں دس سال قبل تھی۔
جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ہی سوتیلا سلوک ہے تو پھر اس کے اسٹڈی سنٹرز پر مہربانی کیسے ہو گی؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہی فنڈ کی کٹوتی کا سامنا ہے تو پھر اس کے اسٹڈی سنٹرز پر مہربانی کہاں ہو گی؟ کیوں کہ 2014-15 کے مقابلے میں 2021-22 میں علی گڑھ یونیورسٹی کے فنڈ میں 15 فیصد کی کٹوتی کردی گئی ہے، جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کا بجٹ 669.51 کروڑ روپے میں اضافہ کر کے 1,303.01 کروڑ کر دیا گیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے فنڈ میں کٹوتی کی گئی ہے جب کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے فنڈ میں اضافہ کیا گیا ہے نہ کمی۔
اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا مسلمان حکومت کے رویے پر خاموشی اختیار کر کے خاموشی اختیار کر لیں یا پھر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے سامنے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پیش کر کے انہیں اقدمات کرنے پر مجبور کریں۔ ہمیں حکومت کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ مسلمان تعلیم کے لیے سنجیدہ ہیں اور حکومتوں کے سامنے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر کیے گئے مطالعات اور سروے رپورٹس بھی پیش کیے جائیں۔
(نوراللہ جاوید صحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
[email protected]
فون:8777308904
***

 

***

 بہار کے سیمانچل علاقے کے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے۔ ارریہ اور پورنیا میں مسلمانوں کی خواندگی کی شرح بالترتیب 48.3 اور 43.1 فیصد ہے جب کہ کشن گنج میں 53.1 فیصد اور کٹیہار میں 45.4 فیصد ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان چار اضلاع میں مسلمانوں کی شرحِ ناخواندگی ملک بھر میں مسلمانوں کی ناخواندگی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں تمام مذہبی برادریوں میں سب سے زیادہ 42.7 فیصد ناخواندگی کی شرح مسلمانوں میں ہے۔ بھارت کی قومی خواندگی کی شرح مردم شماری سال 2011ء کے مطابق 74.4 فیصد ہے یا 2018ء کے قومی شماریاتی کمیشن کے سروے کے مطابق اس سے بھی زیادہ 77.7 فیصد ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022