اقلیتی طلبا کو اسکالر شپ سے محروم کون کررہا ہے؟

2020میں اقلیتوں کے اسکالر شپ میں بڑے پیمانے پر گڑبڑی ہونے کے باوجودگڑبڑی کا سلسلہ جاری رہا

نور اللہ جاوید، کولکاتا

نیشنل اسکالرشپ پورٹل پر رجسٹرڈ 1.8اداروں میں15572اداروں کی نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ نے تحقیق کی
53فیصد ادارے جعلی نکلے۔گھوٹالہ ادارہ جاتی شکل میں انجام دیا گیا
2014ء میں وزیرا عظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ’’سی اے جی‘‘ بطور ادارہ منظر سے غائب تھا جبکہ ٹو جی اسپکٹرم، کوئلہ گھوٹالہ اور دولت مشترکہ کھیلوں کے حوالے سے سی اے جی کی رپورٹس کی بدولت بھارت کی سیاست میں بھونچال آگیا تھا۔ سریش کلماڈی سے لے کر ڈی راجہ اور کنی موزئی تک کو پابند سلاسل کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ پر بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹوجی اسپکٹرم گھوٹالہ جس نے کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، اس کی جانچ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ آج ڈی راجہ الزامات سے پاک ہوچکے ہیں۔ یہی انجام کوئلہ گھوٹالہ اور دولت مشتر گھوٹالے کا ہوا۔2014ء کے بعد سی اے جی کے بطور ادارہ غائب ہونے پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ بدعنوانی کے خلاف وزیر اعظم مودی کی جنگ کی کامیابی کا نتیجہ ہے۔ لال قلعہ کی فصیل سے خطاب میں بھی وزیر اعظم نے بدعنوانی کے خاتمے کے عزم کو دہرایا تھا مگر سی اے جی کی حالیہ رپورٹ نے جہاں بطور ادارہ اپنی حاضری درج کرائی ہے وہیں مودی حکومت کے ’’بدعنوانی کے خلاف جنگ‘‘ کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ یہ الگ سوال ہے کہ آج میڈیا میں ان رپورٹوں پر بات نہیں ہو رہی ہے، جبکہ سی اے جی کی رپورٹ میں مختص بجٹ کے غیر قانونی استعمال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آیوشمان بھارت، نیشنل ہائی وے کی تعمیر اور ریلوے کے بجٹ کے غلط استعمال سے متعلق شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جانچ کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے کہ مختص فنڈ کا غلط استعمال کہاں کیا گیا ہے، کس کے اشارے پر اسے دوسری جگہ استعمال کیا گیا ہے اور کن لوگوں سے اس کے ذریعہ فائدہ حاصل کیا؟ گزشتہ دس سالوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ توقع فضول ہے کہ ان الزامات کی جانچ کی جائے گی کیوں کہ مودی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ نقصان ’’بدعنوانی کے خلاف جنگ‘‘ کو پہنچایا گیا ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف جانچ کے نام پر مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی چنانچہ آج مرکزی ایجنسیاں سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس اپنے وقار و اعتبار سے محروم ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ’’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ کا نعرہ جملے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ سی اے جی کی رپورٹ کی گونج کے دوران ہی اقلیتی طلبا کے اسکالر شپ میں گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ ملک کی 21 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر میں 53 فیصد جعلی یا پھر غیر فعال اداروں کا انکشاف ہوا ہے۔ ان اداروں کے نام پر ہزاروں بچوں کے نام کروڑوں روپے اسکالر شپ لی گئی ہے۔ وزارت اقلیتی امور کے داخلی جانچ کے مطابق 144 کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوا ہے۔ وزارت اقلیتی امور نے اس گھوٹالہ کی جانچ مرکزی جانچ ایجنسی کے حوالے کردی ہے۔ وزارت اقلیتی امور اپنی بیٹھ خود تھپتھپا رہی ہے کہ اس گھوٹالے کے خلاف وہ خود کارروائی کر رہی ہے۔ یہ زیرو ٹولرینس کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے پری میٹرک اور مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ اسکالرشپ کو بند کردیا گیا ہے۔ ایسے میں 1572 اداروں میں سے 830 اقلیتی اداروں کا جعلی ہونا اور پھر ان اداروں کے نام پر ہزاروں بچوں کا اسکالر شپ حاصل کرنا اس معنی میں تشویش ناک ہے کہ مستحق طلبا کی بڑی تعداد کو اسکالرشپ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ 21 مارچ 2021ء کے ہفت روزہ دعوت کے شمارے میں ’’اب اقلیتوں کی اسکالرشپس کو ختم کر دینے کی چل رہی ہے تیاری‘‘ کے عنوان سے تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں آر ٹی آئی کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیم‘ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اور ’پری میٹرک اسکالرشپ‘ کے فنڈ میں 2021-2022 کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی مگر جو بجٹ مختص ہوئے ہیں ان کا بڑا حصہ اسکام کی نذر ہو چکا ہے۔ سابق وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے لوک سبھا میں اعتراف کیا تھا کہ اقلیتوں کی اسکالرشپس میں بڑے پیمانے پر گھوٹالہ کی خبریں ہیں۔اس کی سی بی آئی کے ذریعہ جانچ کرائی جائے گی۔ 2 نومبر 2020ء کو انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اقلیتی اسکالرشپ پری میٹرک میں بڑے پیمانے پر گھوٹالے کا انکشاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’’جھارکھنڈ میں بینک ملازمین، دلالوں، اسکولوں اور سرکاری ملازموں نے ایک گینگ بنالیا ہے جو مرکزی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی اقلیتی اسکالر شپ کی رقم کو ہتھیا رہا ہے۔ اس گھوٹالے میں دلال اور بینک اسٹاف کے ساتھ مل کر طلبہ کے بینک کھاتے کھلوائے جاتے ہیں اور ان
کی فنگر پرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے آدھار کی بنیاد پر ٹرانزیکشن کیا جاتا ہے مگر طلبا کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے بینک کھاتے میں کتنی رقم آئی ہے۔ انہیں بس انتہائی معمولی رقم نقد دے دی جاتی ہے‘‘۔یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ہیمنت سورین حکومت نے جانچ کی ہدایت دی، بعد میں سی بی آئی نے اس جانچ کی ذمہ داری سنبھالی۔
اس تعلق سے ہفت روزہ دعوت کے ان ہی کالموں میں بتایا گیا تھا کہ وزارت اقلیتی امور کی پارلیمانی کمیٹی نے 2020-21 کے بجٹ میں اسکالرشپ کی تقسیم کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے بدعنوانی اور بد انتظامی کی نشان دہی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب دو سال قبل ہی اقلیتی اسکالرشپس میں بدعنوانی کی نشان دہی ہو گئی تھی تو وزارت اقلیتی امور نے اسکالر شپس کی صحیح تقسیم اور تصدیق کے عمل کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے؟ ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفرز (DBT) نظام کو متعارف کرانے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سماجی بہبود اور سبسیڈی کی اسکیموں میں بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے میں ڈی بی ٹی تریاق کا کام کرے گی۔ اس کی وجہ سے دلالوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی مگر بہار اور جھارکھنڈ میں اقلیتوں کی اسکالرشپس میں گھوٹالے نے یہ ثابت کر دیا کہ منفرد شناختی نمبر (UIN) کا ہونا اسکالرشپ، پنشن اور دیگر فلاحی اسکیمیں حق داروں تک پہنچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ نومبر 2020ء میں شائع شدہ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں دلال، سرکاری ملازمین اور بینک کے عملے کے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں کیس درج کر کے بہار، جھارکھنڈ اور دیگر ریاستوں میں گرفتاریاں بھی کی تھیں، تو پھر ان دو سالوں میں سی بی آئی تحقیقات نتیجہ خیز ثابت کیوں نہیں ہوئیں؟ ڈی بی ٹی اور اسکالرشپ کے لیے درخواستوں کی تصدیق کے عمل کو درست کیوں نہیں کیا گیا؟
اقلیتی برادری کے طلباء کے لیے اسکالرشپ اسکیم جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے کم ہے، ایک سخت تصدیقی عمل سے گزرتی ہے۔ درخواستوں کی جانچ اسکول/ادارے کی سطح اور ضلع یا ریاستی سطح پر کی جاتی ہے۔ لیکن ضلع، ریاستی اور مرکزی حکومت کی ناک کے نیچے، بینک کے افسران اور اسکول کے عملے یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ چوری یا پھر طلبا کو بلیک میل کرکے حاصل کرلیتے ہیں اور دلالوں کے ذریعہ والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اسکالرشپ میں حاصل ہونے والی رقم کا ایک بڑا حصہ انہیں دیں ورنہ وہ اسکالرشپ سے محروم کر دیے جائیں گے۔
وزارت اقلیتی امور کی موجودہ رپورٹ
نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ (این سی اے ای آر) نے قومی اسکالرشپ پورٹل (این ایس پی) میں رجسٹرڈ 1.8 لاکھ اداروں میں سے 1572 اداروں کی جانچ کی جس میں 830 ادارے جعلی پائے گئے۔ ان 830 اداروں کو گزشتہ پانچ سالوں میں مرکز سے 144 کروڑ روپے کے اسکالرشپس ملے ہیں۔ نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ نے گزشتہ ایک سال کے دوران ان اداروں کی جانچ کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جعلی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اسکالرشپ پورٹل پر رجسٹرڈ 1.8 لاکھ اداروں میں سے صرف 1572 اداروں کی جانچ ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب جانچ تمام اداروں کی جائے گی تو جعلی اداروں کی تعداد اور گھوٹالہ کی رقم کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ کے مطابق چھتیس گڑھ میں 62 ادارے غیر فعال پائے گئے ہیں۔ راجستھان میں 99 ادارے غیر فعال یا جعلی ہیں۔ آسام میں جانچ کیے گئے اداروں میں سے 68 فیصد ادارے جعلی پائے گئے۔ کرناٹک میں 64 فیصد، اتر اکھنڈ میں 60 فیصد، اتر پردیش میں 44 فیصد، مدھیہ پردیش میں 40 فیصد اور مغربی بنگال میں 39 فیصد جعلی یا غیر کارکرد پائے گئے۔
2016ء میں نیشنل اسکالرشپ پورٹل کے ذریعہ اسکالرشپ کے پورے نظام کو ڈیجٹلائز کیا گیا تھا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں اقلیتی اسکالرشپ اسکیموں کے تحت سالانہ دو ہزار کروڑ روپے سے زیادہ فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ وزارت اقلیتی امور کے مطابق 2007-2008 سے 2022 کے درمیان کل 22 ہزار کروڑ روپے کی رقم بطور اسکالرشپ تقسیم کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس گھوٹالے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیونکہ اسکالرشپ کی درخواستوں کو کئی مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسے میں ادارہ جاتی منصوبے بندی کے بغیر اسکالرشپس کی تقسیم میں بد عنوانی ہوسکتی ہے؟ اقلیتی اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے پہلے نیشنل اسکالرشپ پورٹل پر آئی ڈی بنانی پڑتی ہے۔ ہر انسٹیٹیوٹ میں ایک نوڈل آفیسر ہوتا ہے جو درخواستوں کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ انسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم ہے یا نہیں ہے۔ اس کے بعد ضلع اقلیتی آفیسر اس کی تصدیق کرتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر طالب علم کو بینک اکاؤنٹ بھی کھولنا پڑتا ہے جس کے لیے KYC کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ گھوٹالہ انسٹیٹیوٹ، مقامی انتظامیہ اور بینکوں میں شامل افسروں کے ادارہ جاتی بدعنوانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بدعنوانی کس سطح پر ہوئی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے
کہ لڑکیوں کے اسکول سے درخواست دینے والوں میں لڑکے شامل ہیں۔ جن اداروں کے پاس ہاسٹل نہیں ہیں مگر وہاں سے بھی ہاسٹل اسکالرشپ کے لیے درخواستیں دی گئی ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے اپنی اس رپورٹ میں راجستھان میں ایک ایسے اسکول کی نشان دہی کی جہاں صرف نویں اور دسویں جماعت کی تعلیم ہوتی ہے مگر اس اسکول سے پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کے تحت درخواست موصول ہوئی تھی۔اسی طرح بہار کے ضلع سیتامڑھی میں ایک سائبر کیفے سے سیکڑوں جعلی درخواستیں جمع کی گئی۔اسی طرح چھتیس گڑھ کے ایک قبائلی اسکول میں جہاں ایک بھی اقلیتی طالب علم زیر تعلیم نہیں ہے وہاں سے بھی اقلیتی اسکالرشپ کی درخواست موصول ہوئی ہے۔ 2018-2019 میں ایک ہی فون نمبر کے ساتھ 2,932 درخواستیں موصول ہوئیں۔
کہیں یہ اقلیتی اسکالرشپ کو ختم کرنے کی سازش تو نہیں ہے؟
دو دن قبل جیسے ہی اقلیتی اسکالرشپ گھوٹالے کی خبر منظر عام پر آئی میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اس پورے گھوٹالے کے رخ کو مدرسوں کی طرف موڑنے کے کام پر لگ گیا۔ اس نے ملک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس گھوٹالے کے لیے مسلم ادارے اور مدرسے ذمہ دار ہیں۔اس کے بعد سے ہی اقلیتی حلقے سے یہ اندیشے ظاہر کیے جانے لگے ہیں کہ کہیں یہ اقلیتی اسکالرشپ کو بند کرنے کی سازش تو نہیں ہے؟ دراصل یہ اندیشے اور تشویش بے وجہ نہیں ہے کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں مرحلہ وار طریقے سے اقلیتوں کے اسکالرشپ میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔اقلیتی طلبا کے لیے دو کلیدی اسکیموں کو بند کرنے اور ایک کے دائرہ کار کو محدود کرنے سے پہلے مرکز کی جانب سے، اقلیتوں کے لیے تقریباً تمام تعلیمی امدادی پروگراموں کے اخراجات میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ نصرت جہاں کے سوالات کے جواب میں اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے جولائی 2023ء میں بتایا کہ مرکز کی طرف سے تعلیمی سال 2019-20 سے 2021-22 میں تعلیم کے تمام سطحوں پر طلباء کے لیے مختلف اسکالرشپس اور فیلوشپس کے لیے منظور کی گئی رقم میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تین سال کی مدت میں فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔اقلیتی امور کی وزارت کے تحت پانچ سنٹر سیکٹر اسکیموں پر مشترکہ حکومتی اخراجات، یعنی پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، میرٹ کم مینز، بیگم حضرت محل نیشنل اسکالرشپ اور مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ (ایم این ایف) میں کمی آئی ہے۔ 2019-20 میں تقریباً 2,500 کروڑ روپے سے 2020-21 میں 2,290 کروڑ روپے اور 2021-22 میں 2,186 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ گزشتہ ایک سال میں مختص میں 4.5 فیصد اور گزشتہ دو سالوں میں 12.5 فیصد رقم میں کٹوتی کی گئی ہے۔اسی طرح وزارت اقلیتی امور کے ’’بیرون ممالک تعلیم حاصل کرنے والے اقلیتی طلبا کے اسکالرشپ پروگرام’’ پڑھو پردیش اسکیم‘‘ کے تحت پہلے دو سال میں فائدہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2019-20 میں 67.30 لاکھ، 2020-21 میں 67.82 لاکھ روپے تک پہنچ گئی اور اس سال اس بجٹ میں کمی ہو کر 62.65 لاکھ تک آگئی ہے۔ نیشنل اسکالرشپ پورٹل کے مطابق تعلیمی سال 2021-22 کے لیے تقسیم کیے گئے مختلف اسکالرشپس میں سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والوں میں 71 فیصد مسلم طلبا، اس کے بعد عیسائی اور سکھ بالترتیب 9.8 فیصد اور 9.2 فیصد ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ سے مستفید ہونے والوں کی فہرست میں لڑکیاں لڑکوں سے آگے ہیں۔ یہ صنفی پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔سب سے زیادہ اتر پردیش کے طلبا 14.65 فیصد، اس کے بعد مہاراشٹر 14.3 فیصد اور کیرالا کے 11.19 فیصد طلبا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
تعلیمی اسکالرشپ میں صرف اقلیتی اسکالر شپ میں گڑبڑی نہیں ہوئی ہے، بلکہ تمل ناڈو، اتر پردیش میں بھی اس طرح کے گھوٹالے کی شکایت آچکی ہے۔ اسی طرح بیک ورڈ کلاسیس، دلتوں اور قبائلیوں کے اسکالرشپس میں گھوٹالہ کی جانچ سی بی آئی کر رہی ہے۔ ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش میں بڑے پیمانے پر خردبرد کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن گھوٹالوں کی وجہ سے ان طبقات کے اسکالرشپس میں کمی نہیں کی جاتی ہے تو پھر اقلیتی طلبا کے اسکالرشپس میں گھوٹالہ کے نام پر کٹوتی کا کیا جواز ہے؟ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ تعلیم کے انچارج سید تنویر احمد نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں بتایا کہ گھوٹالے کی شکایات جو سامنے آرہی ہیں وہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ شکایات مل رہی تھیں کہ اقلیتوں کے اسکالرشپس میں دھاندلیاں ہو رہی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی صحیح طریقے سے جانچ نہیں ہو رہی ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر گھوٹالے حکومت کے افسران کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ سب واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں حکومت کے اعلی افسران ملوث ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نیشنل اسکالرشپ پورٹل میں اداروں کی شمولیت کا میکانزم کیا تھا اور ان کو شامل کرنے سے قبل جانچ کیوںنہیں کی گئی؟ میرا ماننا ہے کہ یہ افسران کے ملی بھگت کا نتیجہ ہے، لہٰذا گھوٹالے کی سزا قصورواروں کو ملنی چاہیے نہ کہ طلبا یا کسی خاص کمیونٹی کو؟ کیا وزارت اقلیتی امور سے یہ سوال نہیں کیا جانا چاہیے کہ جب یہ گھوٹالے ہو رہے تھے تو اس وقت وہ کیا کر رہی تھی؟ حالانکہ کئی سال قبل ہی یہ اشارے مل چکے تھے کہ گڑبڑی ہو رہی ہے‘‘۔
سید تنویر احمد کہتے ہیں کہ افراط زر میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اس کے باوجود اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اسکالرشپ سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔اس طرح کا میکانزم تیار کیا جائے کہ بد عنوانی کی گنجائش ختم ہوجائے اور اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ کیا جائے۔
جانچ ایجنسیاں بالخصوص ای ڈی اور سی بی آئی کی جانچ کا کیا حشر ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ ہم سب کو ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سی بی آئی اور ای ڈی کی جانچ کے ساتھ اعلیٰ سطحی عدالتی جانچ کمیٹی قائم کی جائے جو گھوٹالے کے کلیدی کرداروں اور اسکالرشپ کی تقسیم میں خامیوں کی نشان دہی کرسکے۔ وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی نمائندگی کی شرح میں کورونا وائرس کے بعد کمی آئی ہے۔2019ء تک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی نمائندگی کی شرح پانچ فیصد سے زائد ہوگئی تھی مگر کورونا کے بعد اس میں گراوٹ آئی اور ایک بار پھر 4.5 تک پہنچ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ مولانا آزاد نیشن فیلوشپ بند ہونے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے والے مسلم طلبا کی تعداد میں کمی آئے گی۔ علاوہ ازیں بارہویں جماعت کے بعد مسلم طلبا میں ڈراپ آوٹ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ایسے میں اسکالرشپ کے محدود ہونے سے مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر سعادت حسین بتاتے ہیں کہ اسکالرشپ حاصل کرنے والوں کی بڑی تعداد محروم رہ جاتی ہے جبکہ ہر سال درخواست دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے کیوں کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں تعلیم کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر ان کی مالی حالت تعلیمی بوجھ برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے ایسے میں اسکالرشپ ان کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ اگر اسکالرشپ محدود یا پھر ختم کی جاتی ہے تو مسلم طلبا کی تعداد میں تیزی سے گراوٹ آئے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسکالرشپ کے لیے آمدنی کے معیار میں کئی سالوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان معیاروں کو افراط زر کی شرح کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء اسکالرشپ کے لیے اہل ہو سکیں۔
***

 

***

 اسکالر شپ پورٹل پررجسٹرڈ 1.8لاکھ اداروں میں سے صرف 1572اداروں کی جانچ ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ جب جانچ تمام اداروں کی جائے گی تو جعلی اداروں کی تعداد اور گھوٹالہ کی رقم کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ کے مطابق چھتیس گڑھ میں 62ادارے غیر فعال پائے گئے ہیں ۔ راجستھان میں 99 ادارے غیر فعال یا جعلی ہیں۔ آسام میں جانچ کئے گئےاداروں میں سے 68 فیصد ادارے جعلی پائے گئے، کرناٹک میں 64 فیصد، اتراکھنڈ میں 60 فیصد، اتر پردیش میں 44 فیصد، مدھیہ پردیش میں 40 فیصد اور مغربی بنگال میں 39 فیصد جعلی یا غیر کارگزار پائے گئے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023