اکھنڈ بھارت بمقابلہ عظیم تر نیپال

جس طرح آر ایس ایس چاہتی ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام ہو اسی طرح نیپال بھی عظیم تر نیپال کا قیام چاہتا ہے۔

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے مئیر بلیندر شاہ نے اپنے معتمد کو ان کے سرکاری دفتر میں عظم تر نیپال کا نقشہ آویزاں کرنے کا حکم دیا ہے۔ عظیم تر نیپال، جس میں نیپال کے موجودہ علاقوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک بھارت کے بھی کئی علاقے شامل ہیں۔ نیپالی عوام کا ماننا یہ ہے کہ اصولاً یہ علاقے نیپال کے ہیں لیکن بھارت نے ان علاقوں پر جبراً اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے، بنیادی طور پر یہ علاقے ہمالیہ پہاڑی سلسلے کی پٹی سے متصل علاقے ہیں، ان پر نیپال کے علاوہ چین بھی دعویدار ہے۔ بہر حال بھارت نے اس طرح کے سیاسی نقشے کے کسی سرکاری دفتر میں آویزاں کرنے پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے کہ جب کوئی ملک اس قسم کی حرکتیں کرتا ہے تو متعلقہ ملک اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ کھٹمنڈو کے مئیر جب اپنے ماتحت ملازم کو عظیم تر نیپال کا نقشہ اپنے دفتر میں آویزاں کرنے حکم دے رہے تھے ان ہی ایام میں ان کی بیگم اپنے علاج کے سلسلے میں بنگلورو آئی ہوئی تھیں، وہ مئیر بھی ساتھ تھے جنہوں نے بھارت میں رہتے ہوئے کھٹمنڈو کے دفتر میں عظیم تر نیپال کا نقشہ آویزاں کرنے کا حکم دیا تھا۔ گو کہ علاج سے اس نقشے کا کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ہے بڑا تعجب خیر امر۔
بہرکیف بلیندر شاه کا اپنے دفتر میں عظیم تر نیپال کا نقشہ آویزاں کرنا یونہی نہیں ہے، اس نقشے کا سیاسی پس منظر بھی ہے اور تاریخی پس منظر بھی، اس نقشے کے تاریخی پس منظر میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ جو ہندوستانی علاقے اس میں شامل کیے گئے ہیں وہ کب نیپال کے تحت تھے، کب سے کب تک نیپال نے ان پر حکومت کی اور کب یہ علاقے نیپال کے جغرافیائی حدود سے نکل کر بھارت کے جغرافیائی حدود میں داخل ہوئے وغیرہ، لیکن اس نقشے کا سیاسی پس منظر بڑا دلچسپ ہے، اس بات کی چہ مہ گوئیاں عام ہیں کہ بھارت کی نئی پارلیمانی عمارت میں ایک نقشہ آویزاں ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ان سب علاقوں کو شامل کیا گیا ہے جن پر کبھی اشوکا نے حکومت کی تھی۔ اس نقشہ کا آر ایس ایس سے گہرا تعلق ہے۔ آر ایس ایس اکھنڈ بھارت کا جو نقشہ پیش کرتی ہے وہی نقشہ نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں آویزاں کیا گیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اس نقشے میں موجودہ ہندوستان، نیپال کے بہت سے علاقے، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ آر ایس ایس کا دیرینہ خواب ہے کہ ان سارے علاقوں کو ملا کر ایک ملک بنایا جائے اور اس پر ہندو راشٹر قائم کیا جائے، اسی کا نتیجہ ہے کہ نیپال نے بھی اس کے بدلے میں اپنا ایک نقشہ بنایا ہے جسے عظیم تر نیپال کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح آر ایس ایس چاہتی ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام ہو اسی طرح نیپال بھی عظیم تر نیپال کا قیام چاہتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت و نیپال کے درمیان چند علاقوں کو لے کر سرحدی تنازعات کافی عرصے جاری ہیں۔ نیپال نے ایسے علاقے اپنے سیاسی نقشے میں شامل کیے ہیں جنہیں بھارت اپنے علاقے قرار دیتا ہے، نیپال نہ صرف ان علاقوں کو اپنے سیاسی نقشے میں شامل کیا ہے بلکہ اس نقشے کو اپنی پارلیمان میں منظور بھی کیا ہے، گویا کہ اس نقشے کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ اس نقشے پر بھارت نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح نیپال نے بھارت کے بعض علاقوں پر دعویٰ پر اعتراض کیا ہے۔ ان تنازعات کے باوجود نیپال کے وزیراعظم نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔ لیکن ان کے دورے کے فوری بعد کھٹمنڈو میں عظیم تر نیپال کا نقشہ آویزاں کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیپال اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا چاہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت کے نقشے میں بہت ایسے علاقے ہیں جو آج ایک مکمل ملک کی حیثیت رکھتے ہیں، کیا ان علاقوں کو واپس لیا جائے؟ اگر واپس لیا جائے گا تو کس حیثیت میں واپس لیا جائے گا؟ کیا اس طرح کے نقشے صرف بھارت میں کسی بھی ادارے کو بنانے کی اجازت ہے؟ کسی اور کو اس طرح کے نقشے بنانے کی اجازت نہیں ہے؟ جب نئی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں آویزاں اکھنڈ بھارت کے نقشے سے متعلق وزیر خارجہ جئے شنکر سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی سیاسی نقشہ یا ’پولیٹیکل میپ‘ نہیں ہے، یہ تو محض ایک تہذیبی و ثقافتی علامت ہے۔ ظاہر ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا نظریہ ہی تہذیبی قومیت یعنی ‘کلچرل نیشنل ازم’ کا ہے۔ جئے شنکر چونکہ کہ سرکاری عہدیدار رہے ہیں، شاید انہیں اس بابت معلومات نہیں ہوں گی، یا وہ معلومات رکھنے کے باوجود تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اور عوام کو بے عقل و بے شعور سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس بیانیے کو مان جائیں گے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے پاس سیاسی و ثقافتی نقشے کے الگ ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر ہی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔
اسی لیے جب آپ کسی اور ملک کے علاقوں کو اپنے ملک کے نقشے میں شامل کریں گے تو ان کو بھی یہ حوصلہ مل جائے گا کہ وہ بھی اپنے نقشے میں ہمارے علاقوں کو شامل کریں۔ درحقیقت یہ ہائپر نیشنل ازم ہے ہی ایک خطرناک مرض جو ملکوں کے درمیان آپسی اختلاف کو خوب ہوا دیتا ہے، آپسی تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ دنیا میں دیکھ لیجیے کہ جو ممالک اندھی قوم پرستی کے نشے میں چور ہوئے ان کا کیا حال ہوا ہے۔ آج بھی جو ممالک قوم پرستی کے نشے میں بد مست ہیں ان کے پڑوسی ممالک کی نیندیں کس طرح حرام ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، تائیوان، جاپان، ویتنام، فلپائن، بھارت ہر پڑوسی ملک سے اس کے تنازعات ہیں۔ کسی سے سرحدی تنازعات ہیں تو کسی سے میری ٹائم سرحد کے تنازعات ہیں تو کسی کے ساتھ جزائر کے تنازعات۔ اور ان تنازعات کا امریکہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو ملک اپنے جغرافی حدود سے تجاوز کر کے کسی اور ملک کے جغرافی حدود میں داخل ہوتا ہے اس کے سیاسی نتائج بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس سے ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کبھی اشوکا نے ان علاقوں پر حکومت کی تھی ہوگی لیکن آج ان علاقوں کو کس بنیاد پر اپنی سرحدوں میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ کیا ثقافتی بنیاد پر؟ کیا آج کے دور میں بھی وہی ثقافتیں پائی جاتی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بودھ مذہب کئی ممالک میں پایا جاتا ہے، کیا اس بنیاد پر ان تمام بودھ ممالک کو ایک ملک بن جانا چاہیے؟ تہذیب و تمدن یا ثقافت کبھی بھی سرحدوں کی پابند نہیں ہوتیں، وہ سرحدوں سے پرے ہوتی ہیں، کسی ایک ملک میں محدود نہیں ہوتیں۔ اسلام کو دیکھ لیجیے جزیرہ عرب سے نکل کر دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا، یہ کسی سرحد میں مقید نہیں ہے، اس پر کسی ایک کی اجارہ داری نہیں ہے، تہذیب و تمدن کے اثرات جغرافی حدود سے محدود نہیں کیے جا سکتے، وہ پھیل کر کسی اور ملک کی سرحد میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بھارت کا اور بنگلہ دیش کا بنگالی کلچر ایک ہے، تو کیا اس بنیاد پر یہ دونوں کو ایک کر دیا جائے؟ اسی طرح روس و یوکرین جو اس وقت جنگ کی زد میں ہیں، ایک ہی تہذیب و ثقافت کے پروردہ اور آرتھوڈوکس عیسائی مذہب کے ماننے والے ہیں، روس کا دعوی ہے کہ یوکرین اس کے عیسائی کلیسا کے تحت آتا ہے، وہ ولادیمیر سلطنت کا حصہ ہے اس لیے وہ اس کی الگ حیثیت کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یوں وہ اس پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔ گو کہ جنگ کے محرکات اور بھی بہت ہیں لیکن اس کی جڑ میں یہی جذبہ ہے۔ اسی قسم کا دعوی آر ایس ایس و بی جے پی کر رہی ہے کہ اشوکا کے زمانے میں سب ایک ہی خطہ تھا، اسی مناسبت سے یہ سارا علاقہ آج بھی ایک ہی ہے۔ تو کیا یہ قیاس لگانا درست ہوگا کہ جب بھی موقع ملے گا ہمارا ملک بھی پڑوسی ممالک کے ساتھ وہی کرے گا جو آج روس اپنے پڑوسی ملک یوکرین کے ساتھ کر رہا ہے؟ کیا اس دور جدید میں ایسی دقیانوسی باتیں چل پائیں گی؟
***

 

***

 جب آپ کسی اور ملک کے علاقوں کو اپنے ملک کے نقشے میں شامل کریں گے تو ان کو بھی یہ حوصلہ مل جائے گا کہ وہ بھی اپنے نقشے میں ہمارے علاقوں کو شامل کریں۔ درحقیقت یہ ہائپر نیشنل ازم ہے ہی ایک خطرناک مرض جو ملکوں کے درمیان آپسی اختلاف کو خوب ہوا دیتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023