نعیم صدیقی ؒ
رمضان المبارک کا تحریک اقامت دین سے خاص تعلق ہے ۔ اپنے آپ سے کچھ سوال ضرور کریں
عید اس طرح منانی چاہیے کہ ماہ صیام کی برکات ہمارے ساتھ رہیں اور سارا سال ہمارے لیے زادِراہ بنی رہیں۔
ماہ صیام کی رحمتوں اور برکتوں کی گھٹا موتی برسا کر گزر گئی !
جب بھی کوئی گھٹا برستی ہے تو اس کے کچھ اثرات و نتائج بعد میں بھی باقی رہتے ہیں۔ ایک حدیث شریف کی رو سے یہ بات زمین پر بھی منحصر ہے کہ وہ گھٹا کے فیضان کو کہاں تک سنبھال سکتی ہے۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے کہ وہ برکھا کو جذب کرتی ہے اور پھر اس کے اندر روئیدگی پیدا ہوتی ہے، گل و گیاہ نمودار ہوتے ہیں، غلے اور پھل ظہور کرتے ہیں۔ اس روئیدگی سے خلق خدا فیضان حاصل کرتی ہے۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو خود تو پانی کو جذب کر کے اس سے پھل پھول پیدا نہیں کر سکتی مگر پانی کو اپنے اندر جمع کر لیتی ہے۔ اور پھر اس جمع شدہ پانی سے خشک موسم میں کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔ پانی کبھی تالابوں اور جھیلوں کی شکل میں جمع ہوتا ہے اور کبھی وہ زیر زمین جاکر کسی چٹان یا سخت ردے کی وجہ سے سطح کے قریب ہی رک جاتا ہے اور مناسب راستہ پاکر چشموں کی صورت میں بہنے لگتا ہے۔ زمین کی ایک تیسری قسم ہے جو نہ خود پانی کو جذب کر کے روئیدگی دے سکتی ہے اور نہ کوئی آبی ذخیرہ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس پتھریلی اور چٹیل زمین پر پانی برستا ہے اور ادھر ادھر بہہ جاتا ہے۔ ماہ صیام کی گھٹا سے جو بارانِ رحمت مہینہ بھر جاری رہی، اس کے متعلق آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی قلب و روح کی کیفیت تین قسم کی زمینوں میں سے کسی قسم کی رہی؟ ایک احتساب تو وہ تھا جسے پورے ماہِ رمضان میں قیام لیل اور صیام نہار کے ساتھ جاری رہنا تھا کہ آیا روزے کی صحیح ہیئت کے ساتھ ساتھ اس کی صحیح روح بھی کام کر رہی ہے اور آیا پوری زندگی صبرد تقویٰ کے زیر اثر ہے؟ اور ایک احتساب اب ماہ رمضان کے گزر جانے کے بعد کرنے کا ہے کہ ہم نے اس سے کیا استفادہ کیا؟ عارضی کیا؟ اور مستقل کیا؟
پہلا سوال
روزے آپ نے رکھے۔ خدا جزا دے۔ تراویح پڑھی، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، قرآن سے مشغولیت رہی، خدا آپ کو ایمانی نور عطا کرے۔ انفاق فی سبیل اللہ کیا، صاحب رزق برگ و بار ارزانی فرمائے۔ ان نیکیوں کے بعد بھی کچھ باتیں سوچنے کی ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ نفس کی جبلتوں ، خواہشات اور ہیجانات پر قابو پاکر انہیں پابند حدود رکھنے کا جو تجربہ ہم اور آپ نے کیا ہے، اس کے نتیجے میں کیا ہم میں تھوڑی بہت مستقل یہ صلاحیت پیدا ہوئی یا نہیں کہ ہم مرضیات الہی کے تحت نفس کو جب جس چیز سے چاہیں روک دیں اور کہہ دیں کہ خبردار ! ادھر قدم نہیں بڑھانا اور جب مناسب سمجھیں اسے یہ اذن دے دیں کہ اچھا فلاں امر میں فلاں حد تک جا سکتے ہو ، آگے نہیں! ہم اور آپ نے اپنی ذات کی کمان کرنے کی صلاحیت پیدا کی؟ دنیا میں کوئی تبدیلی لانے اور دوسروں پر کمانڈ کرنے کی شرط اول دین حق میں یہ ہے کہ اپنی ذات کی گردن آدمی کے پنجے میں رہے اور وہ اسے سمت عبودیت سے پھرنے نہ دے۔ نیز کبر و غرور سے اکڑنے نہ دے۔
انسان کی جبلتیں اور ہیجانات بڑے بہیمانہ مزاج کے ہوتے ہیں، وہ کبھی کبھی ایک ایسا طوفان اٹھا دیتے ہیں کہ آدمی مقابلے میں قدم نہیں جما سکتا۔ عام قسم کے لوگ جن پر نہ ایمان کی گرفت ہو، نہ نماز روزے کی تربیتی عمل سے وہ آشنا ہوں ، ان کی تو زندگی ہی اپنی ذاتی خواہشات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ اور اس کے لیے وہ ہر طریقہ اختیار کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ انسانوں کی اس قسم میں کتنے ہی عہدہ دار، تاجر، وکلا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب شامل ہوتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جو خدا کا ذکر بھی کرتی ہے، رسول اللہ ﷺسے محبت بھی کرتی ہے، نماز کی بھی پابند ہے، روزے کا بھی اہتمام کرتی ہے، حج اور زکوۃ کے فرائض بھی پورے کرتی ہے۔ اور پھر نوافل اور صدقات اور سماجی خدمات کے سلسلے میں مقام رکھتی ہے۔ مگر اس ساری زندگی کے ساتھ اسراف ریا، مشرکانہ طریقے، غیر اسلامی رسوم ، ناجائز سفارش بازی، رشوت کا لین دین، سودی معیشت ۔۔۔ کبھی کبھی اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری جیسے کارنامے بھی اس کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ یہ تضادات کے مریض ہیں، اور انہوں نے دین کو سوجھ بوجھ اور سوچ بچار کے ساتھ قبول نہیں کیا بلکہ خاندانی یا موروثی راستے سے یا تصوف کے کسی دائرے سے غیر شعوری طور پر اخذ کیا ہے۔ سوال ان سب کے لیے نہیں، یہ ہمارے اور آپ کے سوچنے کے لیے ہے کہ رمضان کے استاد نے جو سبق دیا تھا اسے ہم نے کتنا یاد رکھا اور کتنے کو عملی زندگی کا حصہ بنا لیا؟ کیا کوئی روکا ہوا حق ہم نے کسی کو ادا کیا؟ کیا کوئی مال حرام اپنے آپ سے الگ کیا؟ کیا کسی غیر قرآنی عقیدے اور کسی غیر اسلامی رسم اور کسی صریح بدعت کو چھوڑا ؟ صدقہ و خیرات کا عالم کیا رہا۔ رمضان میں جو مصارف اٹھے اور پھر عید کے لیے جو رقم لگائی گئی اس کا کتنا حصہ خدا کی راہ میں خرچ ہوا؟ خدا کے دین کے لیے؟ اس کے بندوں کے لیے؟ مہاجرین کے لیے؟ کیا اقرباء اور رفقاء کے حلقوں میں کسی ٹوٹے رشتے کو بحال کر لیا؟ کوئی نقل، ذکریا دعا یا کوئی نیا سرمایہ خیر ہمارے معمولات میں شامل ہوا؟
رمضان نے ہمارا رشتہ خاص طور پر قرآن سے جوڑا تھا ؟ تراویح میں قرآن سنایا گیا، روزہ داروں نے اپنے طور پر ختم قرآن کیا قرآن کے درس کی محفلیں ہوئی ہوں گی، بہت سے حضرات نے استفادہ کیا ہو گا۔ اب یہ دور گزار کر احتساب کرنا چاہیے کہ کیا ہمارا تعلق قرآن کے ساتھ رمضان کے بعد باقی ہے؟ بعد میں بھی قرآن پڑھنے اور قرآن سننے کا سلسلہ جاری ہے؟ بعد میں بھی قرآن کے کسی حلقہ درس میں شرکت برقرار ہے؟ یا کم سے کم تفسیر و ترجمہ کا مطالعہ ہوتا ہے؟ اگر یہ چیزیں ہیں تو جتنی ہیں، اتنا فیضان آپ نے رمضان سے مستقلاً حاصل کر لیا۔
ایک اور سوال
دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کو جس بڑے کام کے لیے اٹھایا گیا ہے اور جس کے لیے نماز ہو یا ماہ رمضان کے روزے یا دوسری عبادات، سبھی کے اندر ذہنی و اخلاقی تربیت کا سامان رکھا گیا ہے، اس کام کے سلسلے میں کیا اقدام ہوا؟
بھاری کام اقامت دین کی مہم ہے جس کا پہلا سرا دعوتِ حق (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) ہے اور جس کا آخری سرا جہاد ہے، بلکہ یہ سلسلہ ہی جہاد ہے جس کا آغاز خدا پرستی کی طرف بلانے اور طاغوت سے روکنے سے ہوتا ہے، اور جس کی تکمیل خاک و خون سے تڑپ جانے سے ہوتی ہے۔
کیا آپ اس مہم کے سلسلے میں رمضان المبارک میں کبھی گھر سے نکلے؟ رشتہ داروں دوستوں یا اجنبیوں سے کبھی کوئی باقاعدہ گفتگو کی؟ کسی کو کم سے کم روزہ داری کے لیے دعوت دی؟ تراویح کے لیے تیار کیا؟ کسی درس قرآن کے حلقے میں شرکت کی تلقین کی؟ اس بڑی دینی مہم کے لیے کبھی آپ نے اجتماعات کیے اور ان میں مشورے سے کبھی لائحہ عمل تیار کیا؟
لوگوں سے ربط رکھنے کے سلسلے میں کیا کبھی مصیبت زدہ مخلوق کے قریب ہوئے؟ ان کے احوال سے؟ ان کی مشکلات کے حل میں کوئی مدد بہم پہنچائی؟ مریضوں کی عیادت کی، یا ان کو کبھی دوا دارو کا انتظام کر دیا ؟ کسی کو ہسپتال میں داخل کرایا؟ کسی ستم رسیدہ کو اپنے ہمدردانہ جذبات کے ذریعے سہارا دینے کی کوشش کی یا کسی کے لیے بطور خاص دعا کی؟ کسی کو ظلم سے بچانے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کی؟
یہ رابطہ عام اس دعوت کے لیے فضا کو تیار کرتا ہے جس پر آپ مامور ہیں؟
رمضان اور تحریک اقامت دین
اقامت دین کی مہم کے سلسلے کا ایک بڑا کام یہ ہے کہ ملک میں قیادت ،حکومت کی مشینری اور اس کے مختلف ادارے، پرانے سیاسی لیڈر اور ان کے گروہ، مذہبی فرقے، خصوصاً دینی اصول و اقدار میں فتنہ انگیزی کرنے والے خاص خاص عناصر، غیر مسلم اقلیتیں ، مغرب پرست طبقے، پریس، ذرائع ابلاغ، بیرونی قوتیں جو جو کچھ کر رہی ہیں، ان پر نظر رکھی جائے اور جو چیز دین کے حق میں جاتی ہوں، ان کی تائید کی جائے اور جو خلاف جاتی ہوں ان کی روک تھام کی جائے۔ اس کے لیے مطالعہ بھی کیا جائے، قلم سے بھی کام لیا جائے، گفتگوئیں بھی کی جائیں چھوٹی چھوٹی مجالس بھی منعقد ہوں۔ حالات کی جو بھی لہریں اٹھیں ان کے متعلق علمبرداران دین حق کو باخبر بھی ہونا چاہیے اور مخالفانہ رجحانات کا زور توڑنا بھی چاہیے۔
خاص طور پر جو مسائل جرائد میں زیر بحث آئیں یا جن کا عوام میں چرچا ہونے لگے، ان پر پوری ذہنی تیاری کر کے جرائد اور عوام کے حلقوں میں دو طرفہ کام کیا جائے۔
جس کسی میں سچا جذبہ اقامت دین ہو گا، یقیناً ماہ صیام نے اس کے جذبے کو نئی توانائی دی ہو گی۔ ایسا کوئی بھی شخص اگر پہلے اپنے فریضہ میں سُست گام بھی تھا تو اب اس کا ضمیر اسے پوری رفتار سے کام کرنے پر مجبور کر دے گا۔
یاد رکھیے کہ رمضان المبارک کو تحریک اقامت دین سے گہرا تعلق ہے۔ نزول قرآن کا مہینہ بھی ہے اور اولین معرکۂ حق و باطل بھی اسی مہینہ میں ہوا تھا، جس میں کثیر التعداد مخالفین کے مقابلے میں مسلمانوں کا مختصر گروہ کامیاب رہا۔
ایک اور مسئلہ
رمضان میں شیطان زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے، مگر شیاطین انس کے ذہن و اخلاق کو شیطانی قوتیں اتنا بگاڑ دیتی ہیں کہ وہ شطینت کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور پھر اس رنگ کو پھیلانے کے لیے طرح طرح سے کام کرتے ہیں، ان کے خلاف آپ نے کس حد تک کام کیا؟
زندگی کے باطل اور فاسد نظریات جو دینِ حق سے ٹکراتے ہیں، ان کا زہر ہمارے معاشرے میں علم، تعلیم، ادب، صحافت، شاعری، ثقافت، اشتہارات اور ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔ اس زہر کا توڑ کرنے کے لیے آپ نے مختلف میدانوں میں خصوصاً اس خاص میدان میں جس میں آپ کی براہ راست ذمہ داری ہے، کیا کام کیا؟
دولت پرستی اسراف مستی اور جرم و خیانت اور بے حیائی اور بے پردگی کے امڈتے طوفان کو آپ دیکھ رہے ہیں، کیا رمضان کی مقدس فضاؤں میں آپ کے اندر ایسا جذبہ حق بیدار ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو آپ ان مقاصد کے خلاف کام کریں، اور انہیں تو اپنے گھر کے افراد میں اپنے محبوں اور عزیزوں میں اور زیر اثر حلقوں میں دین کے اثرات بڑھائیں۔ آپ کم سے کم یہ فیصلہ تو کر لیں کہ بچوں کے رشتے کرتے ہوئے ایمان اخلاق اور پردہ داری کو آپ اولین اہمیت دیں گے اور اس کے لیے اپنے بچوں اور گھر والوں کے اذہان کو تیار کریں۔
بہر حال برا شیطان عارضی طور پر جکڑا پڑا رہا ہے۔ مگر خود انسانوں میں اس کے کارندے بے شمار ہیں اور وہ فکر اخلاق، معاشرت، ثقافت، لین دین، دفتری نظام کے تمام دائروں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں ہم لوگوں کو کہاں تک احساس ہے؟
مزید سوال
ایک ذمہ داری ہم پر ان مسلمان مجاہدین کی ہے جو عالم اسلام میں آزادی اور اسلام کے لیے برسر پیکار ہیں۔ مصیبت میں گھرے ہوئے ان مسلم مجاہدین و مہاجرین سے محبت کرنا اور ان کے لیے اپنے اموال میں سے حصہ نکال کر قربانی دینا عین اسلام کا تقاضا ہے۔ کیا رمضان جیسے ماہ مقدس نے مجاہدین و مہاجرین کے متعلق آپ میں جذبہ کو ابھارا؟ اور آپ نے ان کے لیے رمضان میں یا عید پر یا اب رمضان کے بعد کے دنوں میں کوئی غیر معمولی ایثار کیا ہے؟ رمضان کی برکات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ جذبہ انفاق کو بیدار اور متحرک کرتا ہے؟ تو کیا آپ کے جذبہ انفاق میں سے کوئی حصہ مہاجرین کو بھی ملا ؟ میری دعا ہے کہ اپنے اپنے اس احتساب نفس کے نتیجے میں ایسے حقائق سامنے آئیں کہ ہمارے قلوب مطمئن ہوں اور آخرت میں خدا کے ہاں ہمیں اس پرچے پر زیادہ سے زیادہ نمبر ملیں ! آمین۔
ہماری عید کا مرکزی جو ہر نماز اور صدقہ فطر اور تکبیرات ہیں۔ یہ ہماری مخصوص اسلامی تہذیب ہے کہ ہم یوم مسرت بھی مناتے ہیں تو خدا فراموشی کی کیفیت نہیں ہوتی۔ ہم ایک لمبے دور عبادت کی آزمائش و تربیت کے دور سے کامیابی کے ساتھ گزرنے پر خدا کے شکر کے طور پر عید الفطر مناتے ہیں۔ ہر چند کہ اچھے کپڑے پہننے اور اچھے کھانے کھانے اور عزیزوں دوستوں سے میل ملاقات اور بچوں کی تفریح اور جائز قسم کے کھیل تماشوں کی گنجائش دی گئی ہے۔ مگر عید الفطر کو کسی ایسے طریق سے نہیں منانا چاہیے کہ روزے رکھ کر اور تراویح پڑھ کر اور قرآن مجید کی تلاوت کر کے اور صدقہ و خیرات کر کے جو کردار پیدا کیا گیا ہو، اسے طوفان مسرت میں ڈبو دیا جائے، اور پھر سارا سال اس طرح گزرے کہ نہ خدا کا خوف نہ رسول کی محبت اور نہ آخرت کے حساب کتاب کا تصور۔ بس جہاز عمر رواں پر سوار نجانے کدھر سے کدھر جا رہے ہیں۔
عید اس طرح منانی چاہیے کہ ماہ صیام کی برکات ہمارے ساتھ رہیں اور سارا سال ہمارے لیے زادِراہ بنی رہیں۔
(ماخوذ ترجمان القرآن ،اپریل 1992)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023