روید خان فلاحی
ریسرچ اسکالر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ
فلسفیانہ مسائل میں سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ شر کا وجود سمجھا جاتا ہے، جس نے خدا پر ایمان رکھنے والوں اور فلاسفہ میں سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کیا ہے۔ اس تعلق سے بہت سے علماء نے تشفی بخش جواب نہ ملنے کی وجہ سے تردد کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ دلوں کو مطمئن کرنے والے جواب دینے سے قاصر ہیں اور اس مسئلہ کو لے کر شکوہ کناں ہیں۔ ملحدین اور معاندین مذاہب نے خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے کے لیے برائی کے مسئلہ problem of evil کو اپنی بنیاد بنایا ہے اور اسی کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔
زیر مطالعہ کتاب ڈاکٹر سامی عامری کے اس منصوبہ کی ایک پیش رفت ہے جو انہوں نے مذاہب کے تقابلی مطالعے کی خاطر علمی و تحقیقی کام کرنے کے لیے بنایا تھا، تاکہ الحاد کا شعوری اور تنقیدی مطالعہ کیا جاسکے۔
یہ کتاب مختلف زاویوں سے شر کے مخمصے کو حل کرنے میں معاون ہے۔مصنف نے نفسِ مسئلہ کو سامنے رکھ کر اس شبہ کی اصلیت کی وضاحت کی ہے اور اس مسئلہ کا کامیاب علاج پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح ان اہم ترین اعتراضات کی نشان دہی کی ہے جو اس مسئلہ کے تحت پیش آسکتے ہیں، ساتھ ہی ان اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے۔ یہ کتاب ۲۳۱ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو ۱۴ مرکزی عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ الحاد نے مغرب کے تقریباً تمام سائنسی پلیٹ فارموں پر اجارہ داری قائم کرلی ہے، اس کے علاوہ الحاد عوام کو بھی اپنے شکنجے میں کس رہا ہے۔ اس کا مشن نئے ایمان والوں کو نشانہ بنانا اور ان کے کم زور عقائد کو سہارا بنا کر اپنی زد میں لینا ہے۔ مغرب میں مومنین اور ملحدین کے درمیان سب سے بڑا سوال شر کا وجود ہے اور ہر اسکالر دوسرے تمام شبہات پر اسی کو زیادہ ترجیح دیتا ہے، کیونکہ یہ ملحدین کا تکیہ کلام بن چکا ہے۔ اس تعلق سے مصنف نے مختلف فلاسفروں Antony Flew ،Stephen Law ،Michael Tooley ،Michal Ruse وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں جن کا ماننا ہے کہ خدا کے انکار کے لیے مرکزی دلیل شر کا وجود ہے اور خدا پر ایمان نہ لانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اگر خدا ہے تو شر کا وجود کیوں ہے؟
مصنف کا کہنا ہے کہ یہاں پر صرف ایک سوال نہیں ہے جس کا ایک جواب دیا جائے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو اس میں کئی سوال نکل کر سامنے آتے ہیں۔شر ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر کئی مسائل ہیں کیونکہ شر کی مختلف قسمیں ہیں۔
Natural Problem(فطری شر)
Physical Problem(مادی شر)
Metaphysical Problem(غیر مرئی شر)
Moral Problem(اخلاقی شر)
Gratuitous Problem(مفت یا بلا وجہ شر)
Logical Problem(منطقی شر)
Evidential Problem Or Probabilistic Problem(برہانی شر)
مصنف نے تقریباً ان تمام کو الگ الگ مرکزی عنوان کے تحت بیان کیا ہے اور ملحدین فلاسفہ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ مختصر خلاصہ پیش خدمت ہے: فلاسفہ فطری، مادی اور غیر مرئی شر کا سہارا لے کر الوہیت کے تصور کو سرے سے ہی ختم کرنا چاہتے ہیں کہ انسان پر جو طبعی مصیبتیں آتی ہیں جیسے زلزلے، آتش فشاں اور قحط سالی وغیرہ ۔اسی طرح بسا اوقات انسان خود مصیبت کی وجہ بنتا ہے جیسے ماحولیاتی بحران اور کھیتی باڑی اور پیڑ پودوں کو ہلاک کرتا ہے۔ اگر خدا ہے تو ان تباہ کاریوں اور مصیبتوں سے انسانوں کو محفوظ کیوں نہیں کرلیتا۔ ان مسائل کے ساتھ ساتھ انسان کو غیر مرئی مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے، وہاں بھی انسان عذاب سے دوچار ہوتا ہے۔ اسی طرح اخلاقی برائی کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور اگر انسان نقصان دہ ہے، اخلاقی طور پر برائیوں میں لت پت ہے اور وہ جو بھی برائی کے کام کر رہا ہے تو ان تمام کا سہرا بھی اللہ تعالیٰ کو جاتا ہے اور ان کاموں کی نسبت انسان کے خالق کی طرف ہی کی جائے گی۔ ایک سوال Gratuitous Problem کے تعلق سے ہے جس کو بلا وجہ شر یا مفت شر کہا جا سکتا ہے۔ایک سیدھا سادا انسان جس نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا پھر بھی وہ مصیبت سے دو چار ہوتا ہے، مثلا کسی شریف انسان کو کچھ طاقتور لوگ ستاتے ہیں اور اس کو سر عام ذلیل کرتے ہیں، اس میں اس انسان کا تو کوئی قصور نہیں، وہ تو بلا وجہ یا مفت میں مصائب و آلام سے دوچار ہو رہا ہے۔ اسی طرح منطق یہ کہتی ہے کہ اللہ کا وجود تو شر کا تقاضا نہیں کرتا اور جب اللہ تعالی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ شر جیسے کام انجام دے، ساتھ ہی وہ علیم و قدیر اور بااختیار بھی ہے تو پھر یہ دنیا شر سے خالی کیوں نہیں ہے؟
مصنف کا کہنا ہے کہ اس بحث کا علم کلام سے بڑا گہرا تعلق ہے، کیونکہ شر کا تعلق اللہ کے وجود سے نہیں ہے بلکہ اس کی صفات سے ہے، جیسے صفات اللہ اور ارادۃ اللہ وغیرہ۔
مصنف کا کہنا ہے کہ شر کا وجود اللہ تعالٰی کے وجود کی نفی کرنے کے لیے کوئی منطقی یا ممکنہ دلیل نہیں ہے، اسلام اس مسئلے کا Systematic حل پیش کرتا ہے۔ شر کے مختلف نظریے پایے جاتے ہیں (۱) شر کا اصلاً ًکوئی وجود ہی نہیں ہے۔ شر ایک خالص وہم یا ذہنی تصور ہے جو کسی غیر قائم چیز پر بنا لیا گیا ہے، Bartend Russell کے مطابق برائی وہم کا سب سے نچلا حصہ ہے، جس سے ہمیں خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کئی مذاہب میں صوفیہ کرام کا بھی یہی ماننا ہے۔(۲) شر ایک کائناتی راز ہے جس تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکی ہے اور ذہن شر کے فلسفے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔(۳) دنیا میں خیر اور شر کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کائنات ان کے وجود سے پاک و صاف ہے۔
مصنف نے ان تمام نظریات کی نفی کی ہے اور اس سوال کا جواب تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح صاحب کتاب نے خیر کے سوال کو ترجیح دی ہے کہ اصل سوال خیر کا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ موجود نہیں ہے تو یہ خیر کا وجود کیوں ہے اور خیر کہاں سے آتا ہے؟ کیا اس کا کوئی منطقی جواب ہے؟ اسی طرح مفت میں انسانوں کو جو نعمتیں دی گئی ہیں کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ کیا خدائی نعمتوں کی طرح انسانی مشینیں بھی اس طرح کی نعمتیں تیار کر سکتی ہیں؟ مثلاً انسانی دماغ کے بارے میں Alferd Wallace کے مطابق، انسانی شعور الٰہی تحفہ ہے جسے کسی بھی مشین کے ذریعے نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ ترقی خدائی نعمتوں کو تیار کرنے سے قاصر ہے۔اسی طرح فطری جمال ہے جس کے بارے میں Struats Burges کا کہنا ہے کہ اس جمال کو کسی بھی Mechanical طریقے سے وجود میں نہیں لایا جا سکتا۔ مصنف نے قرآنی آیات اور مختلف فلاسفروں کے حوالے سے اور بھی خدائی نعمتوں کی مثالیں پیش کی ہیں۔
شر کا تعلق انسانی اختیار سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صاحب اختیار بنایا ہے نیز، صحیح اور غلط کا راستہ دکھا دیا ہے۔ انسانی اختیار شر کا سبب بنتا ہے اور انسانوں پر جو بھی کائناتی مصیبت آتی ہے وہ ان کے کارناموں اور کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے تاکہ وہ اللہ کی صفات، کائناتی حقیقت اور انسان کے فطری طور پر مسلمان ہونے کے اسباب کا ادراک کر سکیں۔ اسی طرح غیر مرئی عذاب بھی انہی لوگوں کے لیے ہے جو اس دنیا میں اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ظلم سے کام لیتے ہیں۔اسی طرح مصائب وآلام انسانی آزمائش کے لیے ہوتے ہیں تاکہ کھرے اور کھوٹوں کی پہچان ہو سکے۔ اسی طرح شر، خیر کا ایندھن ہے۔ چیزیں اپنی اضداد سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ عفو و درگزر کی پہچان غلطی کرنے سے ہوتی ہے اور مدد ظلم کے بغیر بے معنی ہے۔ اچھائی کا وجود بے معنی ہے اگر برائی نہ ہو۔ آرام تھکن کے بعد ہی ممکن ہے اور دن کا وجود رات سے معلوم ہوتا ہے وغیرہ۔ شر لذات کا سر چشمہ ہے۔ علامہ ابن قیم کا کہنا ہے کہ لذات آلام سے نکلتے ہیں اور آلام کا سرچشمہ لذات ہے۔ بہترین لذتیں مصائب وآلام کا ثمرات اور نتائج ہوتے ہیں۔
اس کتاب کے مطالعے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچ جائے گا :
شرکا مسئلہ بنیادی طور پر ایک خالق خدا کے وجود کا انکار نہیں کرتا، اس لیے یہ ملحدین کی دلیل نہیں ہو سکتی، بلکہ ان کا مقصد خدائی صفات میں سے کچھ صفات کا انکار کرنا ہے۔شر کا وجود مختلف طریقوں سے خالق کے وجود کا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملحدین خیر کے مسئلے کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں جو کہ ظاہری شکل میں شر کے مسئلہ سے بڑا ہے۔ اسی طرح مسئلہ شر کلیسائی نظام کی پیداوار ہے کہ شر کا مسئلہ حکمت کی رو سے دو وجوہات کی بنا پر باطل ہے: پہلی حکمت اس مسئلہ میں متعدد مسائل ہیں۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ اس میں مختلف شر ہیں۔ تمام فلاسفہ کے سوال اسی شر کے فریم میں گھومتے رہتے ہیں۔اسی طرح ایک خالق کی معرفت کائناتی حقیقت ہے جس کے بغیر کائنات کے بارے میں جاننا نا ممکن ہے۔ اسی لیے ہم کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہم دنیا کے معاملات میں حکم رانی سے محروم ہیں۔ خدائی نعمتیں مفت شر (Gratuitous Problem) سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ملحد سنگ دل اور مادہ پرست ہوتے ہیں۔ دنیا میں شر کا پایا جانا نہایت ضروری ہے، کیونکہ انسان اس کے ذریعے فضل کی قدر کرتا ہے اور یہی شر اس کو حقیقت کا احساس دلاتا ہے نیز، اس سے دنیا کی حقارت اور گم راہی واضح ہوتی ہے۔شر سے خالی دنیا جیسا کہ ملحدین کا گمان ہے، اس دنیا سے کم بری نہیں ہے، بلکہ اس سے زیادہ فاسد ہوگی اور ایسے جہاں کی بنیاد نا ممکنات پر ہے۔اگرچہ انسان شر کی شکایت کرتا ہے لیکن وہ دنیا میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ برائی کے بغیر زندگی بے معنی ہے اور انسان کے اندر بے معنی زندگی کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ دنیاوی زندگی آخرت سے جڑی ہوئی ہے اور آخرت سے الگ کرنے کے بعد یہ بے معنی ہوجاتی ہے۔
خلاصۂ کلام : تمام فطری، عقلی اور علمی دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ کوئی بھی منطقی دلیل عقل کو یہ باور نہیں کرا سکتی کہ اس کائنات کا وجود شر کے وجود سے خالی ہو اور شر کا وجود اللہ کے وجود کا انکار کرتا ہو بلکہ شر کا وجود ہی ملحدین کے خلاف دلیل ہے۔ بغیر شر کے زندگی بے معنی ہے اور ایسی زندگی کا کوئی مقصد وغایت نہیں ہے نیز، ایسی دنیا کی کوئی شکل نہیں ہو سکتی ۔اسی طرح شر میں انسان کی آزمائش و امتحان ہے۔ انسانی عقل محدود ہے، ہر شر کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے جس تک انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ شر کے وجود کا انکار کر کے ملحدین خدا کی شکل میں ایک صندوق چاہتے ہیں جس میں تمام مخلوقات کی خواہشات کے مطابق چیزیں رکھی ہوئی ہوں اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔
یہ کتاب problem of evil کا مدلل جواب فراہم کرتی ہے۔ مصنف کی تحقیق کا مدار قرآن مجید، اسلاف کی کتابیں اور خود فلاسفہ کی کتابیں ہیں جن سے اخذ و استفادہ کر کے شر کے مسئلہ کی وضاحت کی ہے، ساتھ ہی اس کا حل بھی پیش کیا ہے۔
***
***
یہ کتاب problem of evil کا مدلل جواب فراہم کرتی ہے۔ مصنف کی تحقیق کا مدار قرآن مجید، اسلاف کی کتابیں اور خود فلاسفہ کی کتابیں ہیں جن سے اخذ و استفادہ کر کے شر کے مسئلہ کی وضاحت کی ہے، ساتھ ہی اس کا حل بھی پیش کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024